تباہی پھیلانے والے ہتھیار

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 17 ہزار نیو کلیئر ہتھیار پائے جاتے ہیں۔اگرچہ دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک روس ہے لیکن امریکہ وہ ملک ہے جس نے پہلی بار ایٹمی ہتھیار استعمال کئے

بدھ 10 دسمبر 2014

Tabahai Phelane Wale Hathiyar
ریاض حسین :
نت نئی سائنسی تحقیقات اور ایجادات نے انسانی زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ان ایجادات کی بدولت انسان کی زندگی سہل تو ہوگی اورکولہو کے بیل کی طرح کام کرنے والاانسان آج آرام و آسائش کی زندگی گزار رہا ہے لیکن ہر انسان کیلئے گھاٹے کا سودا ثابت ہوا ہے۔ جدید ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے دنیا ہر وقت تباہی سے دو چار ہو سکتی ہے۔

جنہیں بنانے کیلئے ممالک کے درمیان ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ امریکہ اس دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ دیکھا دیکھی دیگر ممالک بھی جدید ہتھیار بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان ہتھیاروں کے مہلک اثرات بھی بیشمار ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل اپنے ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے اور امن وامان کو قائم رکھنے کیلئے مملکتوں کے درمیان باہمی تعاون کی فضا کو فروغ دینا ضروری ہے۔

(جاری ہے)

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 17 ہزار نیو کلیئر ہتھیار پائے جاتے ہیں۔اگرچہ دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک روس ہے لیکن امریکہ وہ ملک ہے جس نے پہلی بار ایٹمی ہتھیار استعمال کئے۔
نت نئے ہتھیار بنانا امریکہ کا محبوب مشغلہ ہے اور اس سے بڑھ کر ان کا استعمال ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ دیگر ممالک کے معاملات میں دلچسپی لیتا اور پھر کوئی نہ کوئی بہانہ ترآش کر اُس پر چڑھائی کر دیتا ہے۔

عراق پر چڑھائی کرتے ہوئے بھی اُس نے وہاں (WMD) کی موجودگی کی ایک بہانہ بنایا اور کئی سال تک وہاں خود تباہی پھیلاتا رہا۔ جس کے مضر اثرات کی لپیٹ میں آنے سے عراق کی آنے والی نسلیں بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ 1945 ء سے 1991 کے درمیان روس اور امریکہ میں جاری رہنے والی سرد جنگ سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو نیوکلیئر ہتھیاروں کی ایک قسم ہی سے تعبیر کیا جاتا تھا جن کے اثرات ابھی تک نمایاں ہیں۔

1991 کی خلیج جنگ میں کویت پر عراقی قبضے کے خاتمے کے دوران بھی عراق میں ایسے WMD ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگایا گیا۔ امریکہ پر 11 ستمبر2001 کو ہونے وال مبینہ حملوں کے بعد انتھراکس حملوں کا شوشہ چھوڑا گیا اور پھر 2003 کے بعد ایسے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ تراش کر امریکی افواج نے عراق پر چڑھائی کی۔ عراق میں ایسے ہتھیار تو نہ ملے لیکن امریکہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجاد ی۔

ان ہتھیاروں کے اثرات عراق میں عجیب الخلقت بچوں کی پیدائش کی صورت میں بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق عراق پر 2003 کی امریکی جارحیت کے بعد معذور ، دم دار، پیدائشی طور پر کینسر میں مبتلا ، باہم جڑی ٹانگیں، دماغوں میں پانی ،حرام مغز میں بے قاعدگی ایک آنکھ اور دوسروں والے بچوں کی پیدائش میں سات گنا اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس کی وجہ صرف اور صرف امریکہ کا WMD کا عراق میں استعمال ہے۔


گلوبل ریسرچ رپورٹ کے مطابق امریکی فوج ڈیلیڈ یورینیم والے بم استعمال کرتی رہی اور دریائے دجلہ کے ذریعے ان ہتھاروں کے اثرات زیر زمین پانی تک پہنچ گئے جس سے فضا بھی مہلک مادوں سے آلودہ ہو گی۔ عراق کے ماہر امراض سرطان کے مطابق کینسر کے شکار مریضوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک ہی فرد کے دو دو اعضا میں ٹیومر کی موجودگی کا انکشاف ہوا جبکہ بعض گھرانوں کے تمام افراد ہی اس مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔


2005 کو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی حتمی رپورٹ سامنے آئی جس کے مطابق عراق میں WMD بالکل ہی نہیں تھے۔ سروے گروپ کا یہ بیان اس رپورٹ کا حصہ تھا کہ ان کی ٹیم نے ڈیڑھ سال کی تلاش میں کوئی ایسا ہتھیار عراق میں نہیں پایا تھا لہٰذا ایسے ہتھیاروں کی تلاش کا کام روک دیا گیا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ صف اول کے پانچ امریکی ٹیلی ویژن چینلز اور مجموعی اعتبار سے تمام پرنٹ میڈیا کی سروے رپورٹس کے مطابق 19 سے 33 فیصد تک کی تعداد کو یقین تھا کہ عراق میں WMD موجود ہیں۔


(WMD) میں چار قسم کے ہتھیار آتے ہیں۔بائیولوجیکل ، ریڈیالوجیکل، کیمیکل اور نیوکلیئر۔ جو ممالک ان میں سے کسی ایک یاایک سے زیادہ کیگری کے ہتھیاروں کے مالک ہیں، ان میں البانیا ، برما، الجیریا ، ارجنٹائن، آسٹریلیا ،کینیڈا، فرانس ، برازیل، جرمنی، اسرئیل، جاپان، لیبیا، جنوبی افریقہ، سوڈان ،شمالی کوریا، نیدر لینڈ، رومانیہ، پولینڈ، روس شام یوکرائن، سعودی عرب ، برطانیہ، امریکہ ، ایران، عراق ، ہندوستان اور پاکستان شامل ہیں۔

اس مختصر سے جائزے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے کتنے ممالک کے پاس مہلک ہتھیار ہیں اور یہ نا ممکن سی بات ہے کہ جنگ وجدل کی صورت میں وہ ان کا استعمال نہ کریں۔
امریکہ اپنے سپر پاور ہونے کے زُعم میں مبتلا ہے اور اسے ی کسی صورت گوارہ نہیں کہ دیگر ممالک اس سے سبقت لے جائیں ۔ بھارت امریکہ کی دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن بھارت بھی بھر پور طریقے سے ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہے ا وروقت آنے پر وہ ان کا استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔

چین بے بہا ترقی کے ساتھ ہتھیاروں کی تیاری پر بھی بھرپور توجہ دے رہا ہے ۔ ایران کی ایٹمی ٹیکنالوجی امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ دوسری طرف ایک حیران کُن اَمر یہ بھی ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت بھی بعض اوقات امریکی پالیسیوں اور ہتھیاروں کے استعمال سے خائف نظر آتی ہے۔ لیکن ان میں اتنی ہمت نہیں کہ اس خلاف آواز اُٹھا سکیں بیگناہ اور معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا اور انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آنا کسی بھی ملک کو زیب نہیں دیتا ۔ ہتھیاروں کی جنگ سے ہٹ کر انسانیت کی بقا اور تحفظ کیلئے اقدامات کرنا نہایت ضروری ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Tabahai Phelane Wale Hathiyar is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 December 2014 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.