عید کی آمد

بچوں کو پیسے جمع کرنا سکھائیں

پیر 27 جون 2016

Eid Ki Aamad
اُم زینب:
ما ں باپ بچوں کی خواہشات کی تکمیل کی خاطر دن رات ایک کردیتے ہیں۔ ہرماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کودی جانے والی خوراک بہترین ہو اور وہ بہترین تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کریں۔ والدین بچوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی پاکٹ منی کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ بچوں کو کتنی پاکٹ منی دی جائے۔

پاکٹ منی کے بارے میں کچھ والدین کاخیال ہے کہ بچوں کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے مگر یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ پاکٹ منی کے ذریعے والدین بچوں کی منی ہینڈنگ اور منی مینجمنٹ ٹریننگ بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں ۔ ایسی ٹریننگ ہے جو دنیا کا کوئی بھی ادارہ نہیں کرسکتا۔ والدین کا فرض ہے کہ پاکٹ منی دیتے وقت بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈالیں کہ پیسے بے جا خرچ نہ کریں بلکہ ضرورت کی چیزوں پر خرچ کریں۔

(جاری ہے)

عام طورپر بچے ٹافیاں‘ چاکلیٹ‘ چپس برگر خریدنے پر پاکٹ منی خرچ کرتے ہیں۔ اس طرح وہ پیسوں کے سا تھ ساتھ اپنی صحت بھی تباہ کرتے ہیں۔ والدین بچوں کوسکھائیں کہ والدہ گھر میں جو چیز بھی بناکر دیں یامنگواکر دیں وہ کھائیں۔ بازار سے کھٹی اور میٹھی چیزیں کھانے سے گریز کریں بلکہ پیسوں کو جمع کریں اور انہیں اپنی ضرورت کی چیزوں پر استعمال کریں۔

بچوں کو بتائیں کہ جوپیسے وہ ٹافیوں اور نمکو پر خرچ کررہے ہیں‘ وہ پیسے ضائع ہورہے ہیں۔ بچوں کیلئے ضروری ہے کہ اپنے پیسوں سے اپنی پینسل‘ کاپی‘ کلروغیرہ خریدیں تو یہ پاکٹ منی کا مفید استعمال ہے۔ اگربچے اپنی پاکٹ منی کسی غریب کادیں تو اس طرح ان میں سخاوت اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیداہوگا۔ ماہ رمضان میں جب سب روزے سے ہوں تو بچوں کو بے جاچیزیں کھانے منع کریں اور پیسوں کو جمع کرنے یا کسی ضروریات مند کو دینے کی ترغیب دیں۔

اس طرح بچوں کی شخصیت مثبت انداز سے پروان چڑھے گی اور وہ بہت سی برائیوں سے دور ہیں گے۔ آج کل چونکہ مہنگائی کا جن منہ کھولے کھڑا ہے اور والدین بہت سی مالی مشکلات کاسامنا کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین والدین کو ہدایت دیتے ہیں کہ وہ بچے کو چھوٹی عمر سے ہی سوچ سمجھ کر پیسہ خرچ کرنا سکھائیں۔ آج کل ویسے بھی عید کی آمد آمد ہے تو والدین کو چاہئے کہ بچوں کو سمجھائیں کہ عید کیلئے اپنی پسند کی اشیاء خریدنے کیلئے انپی پاکٹ منی سوچ سمجھ کر خرچ کرنی چاہئے، کہیں ایسا نا ہو کہ عین عید کے دن ان کادل کسی بہت اچھی چیزکھانے کو کررہا ہولیکن نہ تو آپ کے پاس پیسے ہوں اور بچوں کی پاکٹ منی بھی ختم ہوچکی ہو۔

بچہ جب پیسوں کاتقاضا کرتا ہے تو ماں یاباپ اس کی ضرورت فوری پوری کردیتے ہیں۔ اس طرح بچے کے دل میں پیسے کی اہمیت کاوہ احساس نہیں ہوتا جوکہ ہونا چاہئے۔ اس مقصد کوپانے کیلئے بچوں کو پیسے جمع کرناسکھائیں۔ اس کے علاوہ انہیں بتایا جائے کہ بچت کیسے کرنی ہے، اس کیلئے سب سے پہلے بچے کو کچھ اصول بناکر دیں تاکہ وہ ان پر عمل پیراہو۔ بچوں کو سکھائیں کہ انہیں جو پیسے ملے ہیں اس میں سے کتنے خرچ کرنے ہیں‘ کتنے جمع کرنے ہیں۔

جب ایک دفعہ آپ نے بچوں کیلئے اصول بنادیا تو پھر وہ اس پر قائم رہیں گے۔ اگر ایک دن بچے نے پیسے جمع کرلئے اور اگلے دن خرچ کر دیئے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ بچوں کو یہ بھی سمجائیں” جو پیسے جمع کئے ہیں ان سے اپنے لئے کوئی چیزخریدیں۔اس طرح ان میں پیسے جمع کرنے کی عادت پڑے گی اور جو چیز وہ اپنے پیسوں سے لیں گے اس سنبھال کربھی رکھیں گے۔

جب آپ بچوں کو پیسے جمع کرنا سکھائیں گے تو وہ رقم گننا اور یادرکھنا سیکھیں گے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جب بچے پیسے جمع کرتے ہیں تو وہ ہرروز یاد کرتے ہیں کہ ان کے پاس اتنے پیسے جمع ہوگئے ہیں۔ اب وہ اپنی پسندیدہ چیز لے سکتے ہیں اس طرح بچوں میں اپنی چیزیں خریدنے کا رجحان پیداہوتا ہے اور وہ پیسے جمع کرکے اپنی سکول کی چیزیں خریدنے لگ جاتے ہیں اس کے علاوہ اگر وہ پکنک پرجانا چاہیں اور والدین زیادہ پیسے خرچ نہ کرسکیں تو وہ اپنی پاکٹ منی کیلئے جمع کرکے اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ بچے کم فہم ہوتے ہیں۔ والدین کیلئے ضروری ہے کہ انہیں انتہائی سادہ طریقے سے پیسے کی اہمیت کا احساس دلائیں۔ کہتے ہیں کہ سان فرانسسکو کی چھ سالہ بیٹی کے دانت ٹوٹے تو اس کے تکیے کے نیچے دو ڈالر کی رقم رکھ دی پھر اس نے امی سے پوچھا کہ وہ ان پیسوں کو کیسے خرچ کرے گی؟ اس نے اپنی بیٹی کو پیسے خرچ کرنے کے طریقے بھی بتائے کہ کچھ پیسے اپنے لئے خرچ کرو، کچھ گھروالوں پر ا س کے عالوہ کچھ پیسے اپنے پاس بچاکر رکھ لو۔

دراصل اس طرح بچے کی تربیت ہوجاتی ہے کہ اور پیسوں کو خرچ کرنے اور جمع کرنے کی صلاحیت پروان چڑھنا شروع ہو جاتی ہے اور یہی چیزانہیں بڑا ہونے پر معاشرے کا معزز شہری بناتی ہے۔ اب چونکہ عیدآرہی ہے ہر بچے کی خواہس ہوتی ہے کہ اس کے پاس نئے کپڑے جوتے اور چوڑیاں ہوں اس کے علاوہ بچوں کا دل چاہتاہے کہ وہ اپنے کزنز اور دوستوں کو بھی تحائف دیں۔ یہ وقت بچوں میں پیسے جمع کرنے کی عادت ڈالنے کا بہترین موقع ہے۔ بچے شوق سے پیسے جمع کریں گے اور عید کے موقع پر اپنے لئے اور اپنے دوستوں اور کزن کے لئے تحائف بھی خریدسکیں گے۔ اس کے علاوہ جب انہیں عیدی ملے گی تو وہ ان پیسوں کو بھی ضائع کرنے کی بجائے احتیاط سے خرچ کریں گے اس کا فائدہ بچوں اور والدی دونوں کو ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Eid Ki Aamad is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 June 2016 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.