گنے کا نرخ سرکاری طور پر مقرر کرنے کی ضرورت

فیروزہ کے گردونواح ہرے بھرے سرسبز وشاداب لہلاتے کھیتوں کی سونا اگلتی زمینیں ہیں جن میں گنا ، کپاس اور گندم کی فصلات وافر مقدار میں کاشت کی جاتی ہیں۔ سال 2000 ء کے عشرے میں ضلع بھر میں شوگر ملیں وافرمقدار میں قائم کی گئیں جس کی وجہ سے پندرہ سال کے دوران گنے کی کاشت شدت اختیار کر گئی کیونکہ یہاں کا گنا معیار اور مٹھاس کے اعتبار سے دنیا بھر میں مشہور ہے

ہفتہ 10 دسمبر 2016

Ganne Ka Sarkari Narkh
فیروزہ کے گردونواح ہرے بھرے سرسبز وشاداب لہلاتے کھیتوں کی سونا اگلتی زمینیں ہیں جن میں گنا ، کپاس اور گندم کی فصلات وافر مقدار میں کاشت کی جاتی ہیں۔ سال 2000 ء کے عشرے میں ضلع بھر میں شوگر ملیں وافرمقدار میں قائم کی گئیں جس کی وجہ سے پندرہ سال کے دوران گنے کی کاشت شدت اختیار کر گئی کیونکہ یہاں کا گنا معیار اور مٹھاس کے اعتبار سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔

گنے کی فصل کی کاشت کرنے ولے کسانوں کے مطابق جہاں یہ نقد آور فصل ہے وہاں اس کی کاشت میں شدید محنت اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور جس زمین میں گنا کاشت کیا جاتا ہے پورا سال کھاد، بیج اور آبپاشی کا بڑا خیال کرناپڑتا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر شوگرمافیا کسان طبقہ کو ان کی محنت کا صلہ فراہم نہیں کرتا بلکہ ان کے ظلم و ستم اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسان طبقہ کو گنے کی پیداواری لاگت میسر نہیں ہوتی اور سارا سال شب و روز محنت کر کے گنے کی پرورش کرنے والا غریب کسان مالی بدحالی اورکسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ عرصہ پانچ سال سے گنے کا ریٹ 180 روپے من ہے اس عرصہ میں چینی کے ریٹ 1500 سے دو ہزار روپے من تک اضافہ کیا گیا۔

(جاری ہے)

مینو فیکچرز حضرات پول کر کے چینی کے ریٹ بڑھاتے رہتے ہیں متعدد ایسی شوگر ملیں موجود ہیں جو کسانوں اور حکومت کی ڈیفالٹر ہیں اور کروڑوں روپے کی واجب الادا ہیں گنے کا رٹ مقرر اور چینی کا ریٹ فکسڈنہ ہونے پر شوگر مافیا ہزاروں بلکہ لاکھوں من چینی سٹا ک کر لیتے ہیں اور پھر چینی کا ریٹ بڑھا کر اپنی من مانی سے فروخت کر کے کروڑوں روپے کما لیتے ہیں۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مقامی شوگر ملزکے ایک بروکر کے پاس ملز چلنے سے ایک ماہ قبل چار سو ٹرک یعنی 9600 ہزار بوری سٹاک تھی جبکہ باقی ملوں کا ذخیرہ ختم اور ناپید ہو چکا تھا اس بروکر نے مصنوعی قلت پیدا کر کے اپنے من مانی ریٹ پر چینی تین ہزار کی بجائے 3800 روپے فی تھیلہ فروخت کی جس سے تقریباً 7 کروڑ سے زائد منافع کمایا۔ گنا فروخت کرنے والے اپنے پیٹ کا ایندھن نہیں بھر سکتے اور خریدنے والے دھڑا دھڑ ملیں لگا رہے ہیں حالانکہ مہنگائی کے تناسب سے گنے کا ریٹ 250 روپے فی من مقرر کیا جائے ۔

کیونکہ فی چھلائی چار پانچ سال کے عرصہ میں 10 سے 20 روپے اور کرایہ ٹرالی 15,20 روپے فی من لیا جا رہا ہے تمام اخراجات کسان کے ذمہ واجب الادا ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ پرائس کنٹرول ایکٹ کمیٹیاں گنے کی طرح چینی کے ریٹ مقرر کرے اس سے یہ فائدہ ہو گا کے چینی کا ریٹ مستحکم ہونے سے ذخیرہ اندوز چینی ذخیرہ کرنے سے گریز کریں گے۔ اتار چڑھاوٴ کی وجہ سے چینی ہزاروں من سٹاکٹ کی جاتی ہے جس سے عوا م کی بجائے فرد واحد ناجائز اور بھاری بھرکم منافع کمانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔

حکومت پنجاب کسانوں کی حالت زار پر رحم کرتے ہوئے جس طرح پیکج دے رہی ہے اسی طرح ملز مالکان کو کسانوں کی فلاح و بقا کیلئے ہدایت کرے کہ وہ :
(1)۔ زون ایریا کا گنااٹھا کر نان ایریا کاگنا بعد میں خرید کرے ۔
(2)۔ سپلائی شد ہ گنے کی پیمنٹ نقد کرے یا دس دن کے اندر کرنے کی پابند ہو۔
(3)۔ فنڈز سے رابطہ سڑکیں بنائے اور بنی ہوئی سڑکیں مرمت کرے ۔


(4)۔ کسانوں کا گنا ماہ فروری تک اٹھا لے۔
(5)۔ اپنا سالانہ کرشنگ سیزن ما ہ نومبر کے پہلے ہفتے میں آغاز کرنے کی پابند ہو۔
(6) سپلائی شدہ گنے کی پیمنٹ مقررہ مدت کے اندر نہ کرنے والوں ملوں کو ڈیفالٹر قرار دیکر سیل کیا جائے۔
(7)۔ چھوٹے کسانوں کی پاس بکوں کے پرمٹ ترجیحی بنیادوں پر فراہم کرے ۔
(8)۔ کسانوں کو بلاسود کھاد‘ بیج فراہم کرے ۔
(9)۔ سرکل آفس عملہ کی ناانصافیوں کا سلسلہ ختم کیا جائے ‘زمینداروں اور کسانوں کے ساتھ ان کا رویہ ہمدردانہ بنایا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Ganne Ka Sarkari Narkh is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 December 2016 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.