بھارت بزنس کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک

یو ں تو جب سے نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ، مغربی ممالک بھارت کو اپنے سودوں کی دلفریب منڈی تصور کرتے ہوئے ایک دوسرے پہ ٹوٹے پڑ رہے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان پر حقیقت آشکار ہو رہی ہے کہ بھارت کی حقیقت کیا ہے

منگل 12 جولائی 2016

India Business K lehaz Se Dunya ka Sab Se Bara Mulk
سلطان محمود حالی:
یو ں تو جب سے نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ، مغربی ممالک بھارت کو اپنے سودوں کی دلفریب منڈی تصور کرتے ہوئے ایک دوسرے پہ ٹوٹے پڑ رہے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان پر حقیقت آشکار ہو رہی ہے کہ بھارت کی حقیقت کیا ہے۔ امریکی تجارتی تجزیہ نگار ڈگلس اے میک انٹائر جو 27/7وال اسٹریٹ نامی ادارے کے صدر ہیں نے حال ہی میں بھارت کے تجارتی نقطہ ء نظر سے اپنا تجزیہ شائع کیا ہے۔

اس تجزئے کا عنوان یہی ہے ”بھارت بزنس کے لحاظ سے دنیا کا سب سے برا ملک ہے“
ماہر تجارتی مبصر کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دنیا بھر کے سامنے ڈفلی بجا کر راگ الاپ رہے ہیں کہ ملک سے با ہر کمپنیوں کا بھارت میں سرمایہ کاری کتنا سود مند ہے، لیکن بھارت دنیا میں تجارت کرنے یا سرمایا کاری کرنے کے لحاظ سے بد ترین ملک ہے۔

(جاری ہے)

ڈگلس میک انٹائرصحیح نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ بھارت کرپشن اور چور بازاری کے دلدل میں اس بری طرح سے دھنسا ہوا ہے ک اس میں پا?ں ڈالنے والا خود اس میں ڈوب جاتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی حد سے زیادہ ہے ، حکومت خود سرمایہ کاروں کو پھانسنے کی خاطر اپنی اقتصادی ترقی کی جھوٹی تصویر پیش کر تی ہے، جعلی اعداد و شمار سے مجموعی ملکی پیداوار (GDP) اور معیشت کے دیگر اقدامات توڑ مروڑ کر پیش کئے جاتے ہیں۔

بھارتی سماج کا ایک بڑا حصہ جو اس وقت حکومت میں ہے، بربریت کا مظاہرہ کرتا ہے، ایسے ظالم اور سفاک لوگ جو اقلیتوں کا قتل کرتے ہیں، عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں اور انتہا پسندی کے عروج پر ہیں کو حکومت کی سر پرسستی حاصل ہے۔
حال ہی میں بھارتی شدت پسندی سے تنگ آکر ملک کے نامور ادیب ، دانشور، آرٹسٹ، فنکار اور اداکاروں نے نہ صرف اپنی آواز بلند کی تھی بلکہ اپنے سرکاری اعزازات تک حکومت کو لوٹا دیئے تھے اور مطالبہ کیا تھا کہ انتہا پسندی ،شدت پسندی اور بربریت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

افسوس کے سرکار کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی۔عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ ”2016میں بزنس کرنا: ریگولیٹری معیار اورکارکردگی کی پیمائش“ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ اس مستند رپورٹ کے مطابق189 ممالک کا جائزہ لیا گیا اور جائزے کا معیار تھا کہ ان ممالک میں بزنس کرنا اور سرمایہ کاری کرنا کتنا آسان ہے؟۔ عالمی بینک کے جائزے کے مطابق بھارت 130نمبر ہے جس میں کاروبار کا آغاز ، تعمیر کے اجازت نامے حاصل کرنا اور املاک کے رجسٹریشن کے لحاظ سے بھارت میں حالات انتہائی مخدوش ہیں۔


اسی ضمن میں عالمی اقتصادی فورم کی تازہ ترین رپورٹ بعنوان”کرپشن کے خلاف مہم ! انفرا سٹرکچر اور شہری ترقی “ میں بھارت سے متعلق یہ الفاظ درج ہیں ”بھارت میں کرپشن ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے“ 2014کے عالمی بینک کے ”انٹر پرائز سروے“ کے مطابق بھار ت میں نجی شعبہ بد عنوانی کوکاروباری ماحول کو بہتر بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتا ہے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی چند اور مایہ ناز اداروں نے بھی بھارت میں بد عنوانی اور کرپشن کا سخت الفاظ سے نوٹس لیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کے “ کرپشن پر سیشن انڈیکس 2015“ نے بھارت کو 167 ممالک میں 83نمبرپہ رکھا ہے۔ رپورٹ کے مولف لکھتے ہیں کہ ”بھارت اپنے بلند و بانگ دعووٴں کی تکمیل میں بری طرح ناکام رہا“
ماحولیاتی آلودگی کے اعتبار سے بھی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے صفائی آلودگی کے اعتبار سے بھارت کے چھ شہروں کو دنیا کے دس آلودہ ترین شہروں میں شمار کیا۔

کاروبار میں مسائل اور رکاوٹوں کے اعتبارسے یہ امر تکلیف اور ذہنی کوفت کا باعث ہے کہ بھارتی حکومت خود اپنی عوام اور بیرونی سرمایا کاروں کو جل دینے کی خاطر اپنی معیشت سے متعلق اعدادو شمار گمراہ کن حدتک غلط بیان کرتی ہے۔
Money CNNکی بھارت پہ حالیہ رپورٹ کے مطابق” بھارت نے جنوری 2015میں اپنی شماریات کے بیورو کو معیشت کے حجم کا تخمینہ لگانے کے انڈیکس کو تبدیل کر دیا جس کے مطابق راتوں رات معیشت کی پستی بلندی کے عرو ج پر پہنچ گئی۔

بھارتی حکام اپنے ان اوچھے ہتھکنڈوں کا دفاع اس طرح کرتے ہیں کہ نیا طریقہ زیادہ موثر اور فعال ہے اور معیشت کے غیر مستقل اور متغیر معیاروں کو بھی شمار کرتا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ان کی شمار یاتی ایجنسی کے ناقدین اس نئے انداز سے متاثر نہیں ہوئے اور انہوں نے اسے آنکھوں میں دھول جھونکنا قرار دیا۔ ان ناقدین نے بھارت کی جی ڈی پی کو ناقابل اعتماد قرار دیتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ نئے شماریاتی ہتھکنڈوں کے باعث صنعتی پیداوار ،سرمایا کاری کے اخراجات اور برامدات کے اعدادوشمار حقیقت سے بہت دور ہیں۔


اگر بھارتی معیشت کا دارومدار غلط جی ڈی پی پر ہے تو اس پہ انحصار کرنے والے دوسرے معاشی اشارے بھی غلط ہو گے۔بھارت میں تجارت کرنے میں ایک اور قباحت ہے بنیادی ڈھانچے کی غیر موجودگی۔ بلوم برگ نے حال ہی میں بھارت سے متعلق رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ” بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے ملک کے بنیادی ڈھانچے کو سہارا دینے کی خاطر سرکاری خزانے سے 750ارب ڈالر کا قرض دلوا ر ہے ہیں“ یہ رقم سنگا پور کی معیشت کی دوگنی ہے اور بھارت میں موجودہ بینک قرضے جو انفراسٹرکچر پروجیکٹ کے لئے مختص کئے گئے یعنی 144ارب ڈالرسے پانچ گنا زیادہ ہے۔

اگر یہ 750ارب ڈالر قرضہ منظور بھی ہو جاتا ہے تو بھارت میں کرپشن کی جو حد ہے وہ اسے ہضم کر جائے گا اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہوگا۔
بھارت میں بدعنوانی نئی نہیں ہے۔ گزشتہ صدی میں بھی بھارت دنیا میں سب سے بد عنوان ملکوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا تھا۔ بھارت میں بدعنوانی ،بیوروکریسی، سیاست اور جرائم پیشہ افراد کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔

ایک زمانے میں بھارت میں غلط کام کروانے کے لئے رشوت دی جاتی تھی لیکن اب یہ حال ہے کہ درست کام یا اپنا حق حاصل کرنے کی خاطر رشوت دینا لازمی ہو گیا ہے۔ بھارت میں معاشی اسکینڈل بے تحاشا ہیں۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی 1986کے بوفرز اسکینڈل میں مجرم قرارپائے تھے۔ سابق وزیر دفاع جار فرناننڈس تہلکہ ڈاٹ کوم کے رچائے ہوئے ناٹک میں دفاعی سودے میں رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔

2010کے دولت مشترکہ کھیل جو بھارت میں منعقد ہوئے۔ بہت بڑا معاشی اسکینڈل بے نقاب ہوا۔ 1982کے سیمنٹ اسکینڈل میں مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ملوث پائے گے۔ 1994کے چینی اسکینڈل میں وفاقی وزیر خوراک کو سزا ہوئی، 1991میں حوالہ اسکینڈل ، بہار سے چارے کی خرید و فروخت کا اسکینڈل۔ حد تو یہ ہے کہ 1999میں کارگل میں ہلاک ہونیوالے بھارتی فوجیوں کی تابوت کی خرید اری کابھی اسکینڈل ثابت ہوا تھا۔


بھارت میں جنسی بے راہ روی کی جو لہر دوڑی ہے اس نے ہر ذی ہوش شخص کے ہوش اڑا کر رکھ دیئے ہیں 2012میں ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے بعد اسے بس سے باہر پھینک دیا گیا۔ و ہ زخمو ں کی تاب نہلاکر چل بسی۔ اس پر احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں لیکن عورتوں کے ساتھ زیادتی میں کمی نہ ہوئی۔ حد تو یہ ہے کہ ایک 71سالہ راہبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی جس پر عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ نے بھارتی حکومت سے درخواست کی تھی کہ ایسے قانون وضع کئے جائیں جن سے بھارت میں عورتوں کی عصمت محفوظ رہے لیکن یہ سب بے سود ثابت ہوا۔


نریندر مودی لاکھ دنیا کو باور کرائیں کہ وہ بھارت میں آکر سرمایا کاری کر یں لیکن وہ آخر کب تک دنیا کو جل دیں گے۔ بین الاقوامی مبصروں اور تجزیہ نگاروں نے بھارت کا قبیح چہر دیکھ لیا اور وہ بدعنوانی کے اس گہرے کنوئیں میں چھلانگ لگانے کو تیار نہیں۔ جب تک بھارتی حکمران اپنے ملک سے بد عنوانی کو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکیں گے کوئی سرمایہ دار ان کے ملک کا رخ نہیں کرے گا۔

بھارت چین سے مقابلہ کرتا ہے لیکن اسے چینی صدر شی جن پنگ سے سبق حاصل کرنا چاہیے جنہوں نے اپنے ملک سے بد عنوانی کا قلع قمع کرنے کی خاطر سخت اقدامات لئے ہیں اور اس مہم میں بڑے بڑے برج اکھڑ گئے۔ صدر شی جن پنگ نے اعلیٰ افسروں کو بھی اگر بدعنوانی میں ملوث پایا تو ان پہ مقدمہ چلا کر جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنا دی۔ کیا مودی ایسا کرنے کو تیا ر ہیں؟دوسرے یہ کہ مودی کو انتہا پسندی اور شدت پسندی کو لگام دینا ہوگا۔

وہ خود راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ RSSکے پیرو کار ہیں کیا اپنے سرپرست اور اتالیق کے خلاف وہ ایکشن لینے کے اہل ہیں؟
تیسرے یہ کہ مودی سرکار کو عورت کو تحفظ دینا ہوگا۔ جب تک وہ جنسی بے راہ روی پہ قابو نہیں پائیں گے سرمایا کار بھارت کا رخ نہیں کریں گے اور مودی کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

India Business K lehaz Se Dunya ka Sab Se Bara Mulk is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 July 2016 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.