کراچی کی تعمیرات حکومتی اور بلدیاتی ادارے

کراچی میں آج تک شہری ذمہ داری کا مظاہرہ نہ تو شہریوں نے کیا ہے اور نہ کسی محکمہ نے اس پر توجہ دی ہے۔ مثال کے طورپر ایک سڑک کا پروجیکٹ شروع کیا جاتاہے ظاہر ہے کہ سڑک بنانا شروع کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ہی دوسرے رہائشی یا کاروباری ضروریات کے کئی سلسلے جو کہ زیر زمین پہلے ہی موجود ہوتے ہیں یا نئے بنانے ہیں ان کو مد نظر رکھنا ضروری ہوتاہے۔ اس کے بغیر سڑک کی تعمیر کا مقصد پورا نہیں ہوتا

جمعرات 27 اکتوبر 2016

Karachi Ki Tameeraat
کراچی میں آج تک شہری ذمہ داری کا مظاہرہ نہ تو شہریوں نے کیا ہے اور نہ کسی محکمہ نے اس پر توجہ دی ہے۔ مثال کے طورپر ایک سڑک کا پروجیکٹ شروع کیا جاتاہے ظاہر ہے کہ سڑک بنانا شروع کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ہی دوسرے رہائشی یا کاروباری ضروریات کے کئی سلسلے جو کہ زیر زمین پہلے ہی موجود ہوتے ہیں یا نئے بنانے ہیں ان کو مد نظر رکھنا ضروری ہوتاہے۔

اس کے بغیر سڑک کی تعمیر کا مقصد پورا نہیں ہوتا ۔ پانی ، گیس ،ٹیلیفون ، سیوریج ، بجلی یہ سب کسی بھی سڑک کا لازمی حصہ ہوتے ہیں سڑک بنانے سے پہلے ان چیزوں پر توجہ دینی ضروری ہو تی ہے۔یہ سب حکومتی اور محکمہ جاتی کا م ہیں وقت پر سب سے رابطہ اور سب اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں تو سڑک کی تعمیر میں ان کی موجود گی یا مشورہ سے ضرورت کے مطابق تبدیلی کی جاسکتی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن ! وہی مسئلہ سامنے آجاتا ہے کہ کوئی بھی محکمہ دوسرے محکمہ سے وقت پر رابطہ نہیں کرتا اسی لیے تعمیر میں غیر ضروری تاخیر ہوتی ہے یہ کسی ایک جگہ یا سڑک کی تعمیر کا نہیں بلکہ ہر منصوبہ کی تکمیل کے دوران عموماً یہی مسائل سامنے آتے ہیں۔ آبادی اور تعمیرات دونوں میں وقت گزارنے کے ساتھ خاصہ اضافہ ہوگیا ہے۔ عام طورپر سڑکیں ، گھروں اور بلڈنگ کے سامنے تعمیر ہوتی ہیں دور انِ تعمیر بلڈنگ کے مکین اپنی ذمہ داری کو محسوس کر کے متعلقہ محکمہ سے باقاعدہ رابطہ نہیں کرتے اور اس طرح جب سڑک کی تعمیر ہوجاتی ہے تو پھر رہائش رکھنے والے اصحاب کو اپنی تکلیف کا احساس ہوتاہے اور وہ متعلقہ ایڈمنسٹریٹر کے پاس چکر لگا کر پانی یا سیوریج کی لائن کو درست کرانے کے لیے نئی سڑک کو کھودنے یا کاٹنے کی اجازت چاہتے ہیں۔

کونسلر ایڈمنسٹریٹر نئی سڑک کو بنیاد بناکر اجازت دینے میں تاخیر ی حربے استعمال کر تے ہیں اور اس عرصے میں سیوریج کی لائن ابلنے لگتی ہے تعفن پھیل جاتا ہے، پانی کھڑا ہوکر سڑک کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوجاتاہے پھر بالآخر سڑک کھودنے یا کاٹنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ یہ سڑک کاٹنے کے لیے ضرورت مند سے بھر پور رقم برائے مرمت یا کارپینٹنگ کی مد میں پیشگی لی جاتی ہے۔

مگر کوئی محکمہ بھی ایک مرتبہ بھی مرمت نہیں کرتا کانٹ چھانٹ کا عمل 2-3سال تک چلتا رہتاہے۔ یہاں تک کہ صرف مٹی کے ڈھیر رہ جاتے ہیں اور سڑک غائب ہو جاتی ہے۔ یہاں پھر دوبارہ سڑک بنانے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ کروڑوں روپے کی بنائی ہوئی سڑک محکماتی غفلت اور وقت پر تمام ضروریات کا ادراک نہ ہونے کے سبب خراب ہوکر حکومت کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔

آخر حکومت یہ تمام تعمیرات کس رقم سے کرتی ہے۔ظا ہر ہے ! عوام کی جانب سے دیے گئے ٹیکس سے اس طرح کی سنگین غفلتوں کی وجہ حکومت عوام کے ٹیکس کا درست استعمال نہیں کر پاتی اور یوں ترقی کا عمل جمود کا شکار ہوجاتاہے۔ باربار تعمیرات بھی زبرد ست مسئلہ کا باعث بنتی رہتی ہے۔سب سے زیادہ افسوس اس وقت ہوتاہے جب ایک سڑک بنادی جاتی ہے تعمیر کے وقت جو فاضل مٹی اور ہوتاہے وہ کنارے لگا دیا جاتا ہے اس کو نہ ٹھیکیدار اٹھاتاہے نہ ہی کوئی اور۔

اس طرح پتھر ، مٹی اور کچرا جمع ہوتا رہتاہے بالآ خر یہ آہستہ آہستہ سڑک پر گرنا شروع ہو جاتاہے۔اب یا تو گٹر لائن بھرنے کا سبب بنتا ہے یا پھر سڑک کی ٹوٹ پھوٹ اور گندگی کا ایک بڑا سبب بنتاہے۔ فٹ پاتھ جو بنائے جاتے ہیں ، اس کے لیے صرف Pre-Casting Blocksجو کافی مضبوط اور خوبصورت ہوتے ہیں وہ لگادیے جاتے ہیں۔ فٹ پاتھ اِللہ ماشاء اللہ بنائے جاتے ہیں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ یہ بلاک برائے فٹ پاتھ یا سڑک کے درمیانی حصہ میں لگا ئے ہی گئے ہیں کہ ادھر ٹوٹنے کا عمل شروع ہو جاتاہے. کیوں کہ فٹ پاتھ نا مکمل چھو ڑدیے جاتے ہیں ایسے فٹ پاتھ کو بنانے کا کیا فائدہ یہاں بھی عوام کا ٹیکس ضائع کیاجارہے۔

کچھ عرصہ قبل شہید ملت روڈ کے پاس ایک اہم مین ہول گٹر بنایاگیا ہے اس میں ریتی ، سیمنٹ کاتناسب 6+1تھا۔ اور سریا 1/2کا اس کا راقم خود شاہد ہے اور معائنہ کرانے کے لیے بھی تیار ہے۔ بلا شبہ یہ مین ہول جو علاقہ کی اشد ضرورت ہے کیا اپنی تعمیر کے 5/4سال پورے کر سکے گا یہ مین ہول محض دو تین برساتوں کی مارہے ۔یقینا پھر بنایا جائے گاایک مرتبہ پھر عوام کا ٹیکس ضائع ہوگا۔

ٹھیکیدار انجینئر سر ویئر کو خوش رکھتاہے تو بل پاس کر دیتاہے اور رپورٹ میں درست میٹیریل کے استعمال کا لکھتاہے جو کہ حقیقتاً نہیں ہوتا ۔ یہ کسی ایک جگہ ایک سڑک ایک پل کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ طریقہ کار مسلسل ہو رہاہے اور اس وقت تک ہو تا رہے گا
جب تک ایماندار اور ذمہ دار تجربہ کا رافسران تمام پروجیکٹ خود چیک نہ کریں۔ اور اپنے دفتر چھوڑ کر دھوپ گرمی میں ڈیوٹی نہ دیں۔

ایک بھیانک مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی سڑک کی تعمیر کے لیے مشینر ی سڑک توڑنے کے لیے آجاتی ہے۔ اس کے بعدملبہ اٹھانا اور تعمیر کے لیے جس لیت و لعل سے کام لیا جاتاہے وہ علاقہ کے رہائشیوں کے لیے عذاب سے کم نہیں ہوتا۔میں کراچی کے ایسے بھرپورآباد علاقوں کی نشاندہی کر سکتاہوں جو اپنی کھدائی کے 2سال تک مکمل نہ ہوسکیں شاباش ہے ان علاقوں کے مکینوں پر وہ ٹریفک کی دھول مٹی ناہموار راستوں پر گذارہ کر کے جلدی بیماریاں۔

آشوب چشم اورسانس کے مریض بنتے رہتے ہیں اور ان کا کوئی پر سان حال نہیں ہوتا نہ ہی شہری حکومت یا صوبائی حکومت کے کانوں پر جوں رینگتی ہے نہ کوئی اس تاخیر اور تساہل غیرذمہ داری پر سزا وار ٹھہرایا جاتا ہے ۔کاش ہماری حکومت کے ارکان اور بلدیاتی ادارے MPAsجنہوں نے اس علاقے سے ووٹ لیا ہے کچھ تو احساس ذمہ داری کریں۔ ان سے خدمت کرنے کاوعدہ کیا تھااور آئندہ الیکشن میں ان سے ہی ووٹ لینا ہے تو کام کی تاخیر کا سبب معلوم کر کے مطلوبہ کام یا تعمیر جلد ممکن کر اکر عوام کی دعائیں لیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Karachi Ki Tameeraat is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 October 2016 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.