اورنج لائن

اہمیت، افادیت اور درپیش مشکلات موجودہ دور کی تیز رفتار ترقی میں بہترین انفراسٹرکچر اور جدید ترین ذرائع آمدروفت کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ دنیا کے وہ ممالک جو بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے مطابق ٹرانسپورٹ کی جدید سہولیات فراہم کرنے میں پیچھے رہ گئے۔ آج ترقی کی دوڑ میں بھی پیچھے نظر آتے ہیں۔ جدید ٹرانسپورٹ سسٹم کی عدم موجودگی میں تباہ کن فضائی آلودگی، ٹریفک کے بے پناہ مسائل، حادثات میں خطرناک حد تک اضافہ، سڑکوں پر ناقابل برداشت رش اور مختلف بیماریاں عوام کا مقدر بن جاتی ہیں۔

بدھ 31 اگست 2016

Orange Line Metro Train
محمد یاسین وٹو:
موجودہ دور کی تیز رفتار ترقی میں بہترین انفراسٹرکچر اور جدید ترین ذرائع آمدروفت کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ دنیا کے وہ ممالک جو بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے مطابق ٹرانسپورٹ کی جدید سہولیات فراہم کرنے میں پیچھے رہ گئے۔ آج ترقی کی دوڑ میں بھی پیچھے نظر آتے ہیں۔ جدید ٹرانسپورٹ سسٹم کی عدم موجودگی میں تباہ کن فضائی آلودگی، ٹریفک کے بے پناہ مسائل، حادثات میں خطرناک حد تک اضافہ، سڑکوں پر ناقابل برداشت رش اور مختلف بیماریاں عوام کا مقدر بن جاتی ہیں۔


جدید ٹرانسپورٹ سسٹم سے محروم اور ٹریفک کے مسائل میں گھرے شہروں میں ایک شہر لاہور بھی ہے ۔ ان گنت باغوں، لا تعداد تاریخی عمارات اور ثقافتی و معاشی سرگرمیوں کا مرکز، آج کا لاہور ایک کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔

(جاری ہے)

تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی نے ضروریات میں بھی تیزی سے اضافہ کیا جن میں سرفہرست ایک جدید ترین ٹرانسپورٹ سسٹم کی فراہمی تھی۔

اس مقصد کیلئے لاہور کو بھی ایک ایسے ہی ماس ٹرانسپورٹ سسٹم کی ضرورت تھی جو دنیا کے 153 بڑے شہروں میں پہلے سے رائج ہے۔ ماس ٹرانزٹ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے حکومت پنجاب نے پہلا سروے 1990ء کی دہائی میں کیا جس میں فیروز پور روڈ کو اس منصوبے کی تکمیل کیلئے اولین ترجیح قرار دیا گیا۔ بعدازاں 2006ء میں حکومت پنجاب کے ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کی ہدایات پر MVA Asia نے اپنی فزیبلٹی سٹڈی پیش کی۔

اس سٹڈی میں ایک جدید ترین اور طویل المیعاد منصوبے کا خاکہ پیش کیا گیا۔ ماس ٹرانزٹ منصوبے کے تحت سب سے پہلے گرین لائن کی صورت میں گجومتہ سے شاہدرہ، پھر اورنج لائن کی صورت میں رائیونڈ روڈ تا ڈیرہ گجراں، اسکے بعد بلیولائن کے طور پر جناح ہال تا گرین ٹاؤن اور سب سے آخر میں پرپل لائن کی صورت میں بھاٹی گیٹ سے ائرپورٹ تک عوام کو سفر کی جدید ترین سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

اس منصوبے کے تحت حکومت پنجاب پہلے ہی گرین لائن پر پراجیکٹ ریکارڈ مدت میں مکمل کر چکی ہے جس کی بدولت روزانہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد شہری آرام دہ، سستی اور باعزت سفری سہولیات کے ذریعے اپنی اپنی منزل پر پہنچتے ہیں۔ پنجاب کے تین بڑے شہروں، لاہور، راولپنڈی اسلام آباد اور ملتان میں میٹروبس سسٹم کے آغاز کے بعد ماس ٹرانزٹ منصوبے کے اگلے مرحلے میں اورنج لائن کی صورت میں اپنی نوعیت کے پہلے میٹرو ٹرین پراجیکٹ کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔

عالمی معیار کے اس منصوبے کا ٹریک رائیونڈ روڈ، ملتان روڈ، میکلوڈ روڈ اور جی ٹی روڈ جیسی اہم شاہرات، شہر کے گنجان آباد علاقوں اور تاریخی عمارات کے قریب سے گزرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ شہری اس سہولت سے مستفید ہو سکیں۔ عالمی معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے اورنج لائن ٹریک کی بنیاد مکمل انجینئرنگ ماڈلنگ کے اصولوں پر رکھی گئی ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سفری سہولت کی فراہمی، کم سے کم زمین کے حصول اور تاریخی ورثے کے مکمل تحفظ کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔

کچھ حلقوں کی جانب سے اورنج لائن کے راستے کے اطراف میں واقع تاریخی مقامات کے تحفظ کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ لاہور کے صدیوں پرانے ثقافتی ورثے کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے Nespak اور چائنہ انجینئرنگ کارپوریشن نے مئی 2015ء میں اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے مطابق ”اورنج لائن کا ٹریک تاریخی عمارات کیلئے کسی بھی لحاظ سے نقصان دہ نہیں اور نہ ہی ماحول پر اس کے کوئی مضر اثرات ہوں گے“۔


عالمی معیار کے مطابق ”کسی بھی تاریخی عمارت کی بنیاد کے قریب زیادہ سے زیادہ Vibration Velocity تین ملی میٹر فی سیکنڈ سے کم ہونی چاہئے جبکہ اورنج لائن میٹرو ٹرین کی زمینی تھراتھراہٹ اس حد سے دس گنا یعنی صفر اعشاریہ تین ملی میٹر فی سیکنڈ سے بھی کم ہے جو کسی بھی تاریخی عمرت کیلئے کسی بھی طرح نقصان دہ نہیں۔ اورنج لائن منصوبے کیلئے چلائی جانے والی ٹرینوں کی زیادہ سے زیادہ رفتار 80 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے جو کم تھرتھراہٹ پیدا کرنے کی بنا پر محفوظ ہیں۔

اورنج لائن منصوبے کے ٹریک کا تاریخی مقامات سے فاصلہ، شالامار باغ سے 75 فٹ، مقبرہ گلابی باغ سے 69 فٹ، بدھو کے مقبرہ سے 59 فٹ، چوبرجی سے 52 فٹ اور مقبرہ زیب النساء سے 110 فٹ ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے تعمیر ہونیوالی سپریم کورٹ رجسٹری بلڈنگ، جی پی او بلڈنگ، ہائی کورٹ پارکنگ/ ایوان اوقاف اور سینٹ (Saint) اینڈ ریوز چرچ کے تحفظ کیلئے اورنج لائن کو ان علاقوں میں زیر زمین تعمیر کیا جا رہا ہے۔

اورنج لائن میٹرو ٹرین کی تعمیر کے دوران حکومت پنجاب کی جانب سے عالمی معیار کی تمام تر احتیاطی تدابیرپر عملدرآمد کے باوجود اشرافیہ میں سے مٹھی بھر لوگ تاریخی ورثے کے تحفظ کی آڑ میں اس عوامی منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے میں تاخیر روزانہ 5 سے 6 کروڑ روپے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ مقام افسوس ہے کہ اورنج لائن کے مخالفین نے پہلے تو یہ واویلا کیا کہ اس منصوبے کیلئے تاریخی عمارتیں گرائی جا رہی ہیں۔

یہ بات غلط ثابت ہوئی تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس سے تاریخی عمارتوں کو نقصان ہو گا پھر بھی بات نہ بنی تو یہ راگ الاپنے لگے کہ اورنج کو تاریخی ورثے کے قریب سے کیوں گزارا جا رہا ہے؟ اورنج لائن منصوبہ شہر کے جنوبی حصے کو شمالی اور شمال مشرقی حصے تک تیز رفتار رسائی فراہم کرے گا۔ شہر کے بے شمار تعلیمی ادارے کاروباری مراکز، سرکاری و نجی دفاتر اور شہر کے گنجان ترین علاقے اورنج لائن کے اطراف میں واقع ہیں جس کی وجہ سے پہلے ہی دن سے اڑھائی لاکھ سے زائد شہریوں کے مستفید ہونے کی توقع ہے۔

اڑھائی گھنٹے میں طے ہونیوالا 27 کلومیٹر کا سفر صرف 45 منٹ میں طے ہو گا۔ اس منصوبے سے عام شہری کو محفوظ، سستی تیز رفتار اور باوقار سفری سہولت دستیاب ہو گی۔ ٹریفک کے مسائل میں خاطر خواہ کمی ہو گی، لوگوں کے قیمتی وقت اور تیل کی بچث کے ساتھ ساتھ عوام کو ماحولیاتی آلودگی سے بھی نجات ملے گی۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین سے قومی سرمائے کی خاطر خواہ بچت ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Orange Line Metro Train is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 August 2016 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.