پولیس فورس میں تبدیلی کیونکر ممکن؟

قیام پاکستان سے لے کر آج تک پولیس سسٹم بہتر نہیں ہو سکا جس میں بڑا ہاتھ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ہے جس کے ذریعے وہ عوام پر حکومت کرتے ہیں اور زبردستی کے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔

بدھ 15 اپریل 2015

Police Force Main Tabdeeli KiyonKar Mumkin
صابر بخاری
قیام پاکستان سے لے کر آج تک پولیس سسٹم بہتر نہیں ہو سکا جس میں بڑا ہاتھ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ہے جس کے ذریعے وہ عوام پر حکومت کرتے ہیں اور زبردستی کے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔پولیس کے سیاست زدہ ہونے کی وجہ سے اس فورس کا مورال بھی ڈاوٴن ہوتا گیا کرپشن کا ناسور پولیس کی جڑوں میں بیٹھ گیا۔ عوام میں اس کا احترام تقریباََ ختم ہو چکاہے۔

پولیس سسٹم میں بہتری کیلئے اگر ارباب اختیارات چاہیں تو اس فورس کو اب بھی مثالی فورس بنایا جا سکتا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس کا نیچے والا عملہ جیسے کانسٹیبل، تھانیدار اور ایس ایچ او تک اپنے اضلاع میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی با اثر لوگ ان پر اثر انداز ہوتے ہیں کرپشن اور سفارش کو فروغ ملتا ہے۔

(جاری ہے)

پولیس جوانوں اور چھوٹے افسروں کا مورال اپ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ علاقے کے جاگیردار، سردار اور دوسرے با اثر افراد کے حکم کو ٹال نہیں سکتے۔

جس کی وجہ سے پولیس فورس اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے ادا نہیں کر سکتی۔ ماہرین کے مطابق اگر پولیس فورس کو بھی آرمی کی طرح مختلف یونٹس کی صورت میں مختلف صوبوں میں تعینات کیا جائے تو اس طرح پولیس کا مورال بھی اپ ہوگا اور وہ مقامی با اثر لوگوں کے انڈر بھی نہیں رہیں گے۔ نئی جگہ ہونے کی وجہ سے وہ کرپشن کی لت سے بھی کافی حد محفوظ رہیں گے کیونکہ کرپشن کیلئے پولیس والوں نے آدمی رکھے ہوتے ہیں جوان کے کارندے ہوتے ہیں نئی جگہ پر پولیس والوں کو ایسے افراد ڈھونڈنے میں وقت لگے گا اتنی دیر میں ان کی پوسٹنگ دوسری جگہ کر دی جائے گی۔

پولیس میں بھرتی کمیشن کے ذریعے ایک سکیل پر ہونی چاہیے، ریکروٹمنٹ اور پروموشن کا طریقہ کار بھی آرمی جیسا ہونا چاہیے جس میں قابل ،محنتی اور محکمانہ ٹیسٹ پاس کرنے والے ہی پولیس ملازمین پروموشن کے حقدار ٹھہریں۔ گزشتہ دنوں ڈی ایس پی لیگل لاہور ناصر عباس پنجوتھہ کے ہمراہ ایک مشترکہ دوست کی شادی میں شرکت کیلئے بھلوال جانا ہوا جن سے اس حوالے سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو عوام میں رہ کر اپنے فرائض سر انجام دینے ہوتے ہیں جب تک پولیس کو علاقے کا جغرافیہ معلوم نہیں ہوگا ،جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی نہیں ہو گی تو وہ کیسے عوام کے جان و مال کی حفاظت کر سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی ریکروٹمنٹ میں تبدیلی ممکن ہے۔ناصر عباس کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس سسٹم میں بہتری کیساتھ ساتھ سماجی سطح پر بھی عوام کا معیار زندگی بلند کرنا اور یکساں معاش کے مواقع فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔ بات کریں اگر سانحہ یوحنا آباد کی تو اس میں پولیس کا شرمناک کردار ہے۔ جس طرح پولیس اور میڈیا کی موجودگی میں دو افراد کو جلا کر موت کے منہ میں دھکیلا گیا اور پھر نعشوں کی بے حرمتی کی گئی۔

یہ لاہورپولیس کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے مگر پولیس کے کانوں تک جوں تک بھی نہیں رینگی جو بے حس معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بعد جہاں پورے ملک کی سکیورٹی ہائی الرٹ کی گئی ہے۔ وہاں پر جنوبی پنجاب میں سکیورٹی رسک موجود ہیں۔ صوبائی دارالحکومت لاہور سے دور ہونے کی وجہ یہاں پر پولیس افسران اور دوسری بیورو کریسی خوب مزے اڑاتے ہیں۔

راقم نے گذشتہ دنوں جنوبی پنجاب کا وزٹ کیا تو یہ بات شدت سے محسوس کی کہ جس طرح کی سکیورٹی نیشنل ایکشن پلان میں ضرورت ہے۔ ویسی اس جگہ نظر نہیں آئی، آئی جی پنجاب تو اپنے آفس سے باہر نکلتے ہی نہیں حالانکہ جس طرح کے سکیورٹی کے معاملات ہیں آئی جی پنجاب کو خود باگ ڈور سنبھالنی چاہیے اور پورے صوبے میں دورے کرنے چاہیں۔ جنوبی پنجاب میں جہاں کئی ضلعی پولیس افسران سکیورٹی معاملات میں کوتاہی برت رہے ہیں وہاں پر کانسٹیبل سے ایس ایس پی کے عہدہ تک کے منازل طے کرنے والے ڈی پی او مظفر گڑھ رائے ضمیر الحق نے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف علم جہاد کیا ہوا ہے۔

ان کی وجہ سے کم از کم ضلع مظفر گڑھ میں جرائم کی وارداتیں کم ہو گئی ہیں،ڈکیتی کی وارداتوں کا نام و نشان نہیں رہا۔لوگوں نے بتایا کہ پہلے شام سات بجے گھر سے نکلنا مشکل تھا اب وہ رات کو کہیں بھی ضلع بھر میں سفر کر سکتے ہیں۔ رائے ضمیر الحق نے پچاس سے زائد طالبان،ڈکیتی ،اغواؤ برائے تاوان کے دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔ڈی پی او کانسٹیبل تک کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں اور جو ملازم فرائض میں کوتاہی برتے اس کو سخت سزا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ضلع میں پولیس کا قبلہ بھی درست ہو گیا ہے۔

ڈی پی او مظفرگڑھ کے پی ایس او وسیم بلوچ نے بتایا رائے ضمیر الحق تمام تھانوں کے سنگین مقدمات خود ملاحظہ کرتے ہیں اور انکوائری مکمل ہونے تک مسلسل فیڈ بیک لیتے رہتے ہیں۔ڈی پی او مظفر گڑھ رات گئے تک دفتر میں موجود رہتے ہیں جس کی وجہ سے ضلع بھر کی پولیس چوکس رہتی ہے۔آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے شاندار کارکردگی پر رائے ضمیر الحق کو پچاس لاکھ سے زیادہ انعام سے بھی نوازا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ سیاسی جماعتوں اور ایم این اے جمشید دستی کو رائے ضمیر الحق سے کافی شکایات ہیں کہ وہ سیاست زدہ پولیس افسر ہیں۔ قطع نظر اس کے رائے ضمیر الحق جرائم پیشہ عناصر کیخلاف کمربستہ ہیں اور دوسرے پولیس افسران کو بھی ان کی طرح تند ہی سے کام کرنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Police Force Main Tabdeeli KiyonKar Mumkin is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 April 2015 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.