راوی کو تباہی سے بچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے

پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب جس کا نام اس کے پانچ دریاؤں سندھ، جہلم، چناب، راوی اور ستلج کے بہتے پانیوں کی وجہ سے رکھا گیا۔ آج اپنے قدرتی حسین دریاؤں سے محروم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے

پیر 17 جولائی 2017

Ravi Ko Tabahi Se Bachane K Liye Hangami Bunyadoon per Kaam Ki Zarorat
میجر (ر) سید سیف الحسن رضوی:
پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب جس کا نام اس کے پانچ دریاؤں سندھ، جہلم، چناب، راوی اور ستلج کے بہتے پانیوں کی وجہ سے رکھا گیا۔ آج اپنے قدرتی حسین دریاؤں سے محروم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ مرحوم فیلڈ مارشل صدر پاکستان ایوب خان کے زمانے میں طے پانے والا وہ دریائی پانیوں کا معاہدہ جو بھارت اور پاکستان کے درمیان 1960ء کی دہائی میں طے پایا اور جسے سندھ طاس کا معاہدہ کہا جاتا ہے۔

پنجاب اور پاکستان کو اپنے دو مشہور دریاؤں دریائے راوی اور دریائے ستلج سے محروم کر گیا۔ اسی زمانے میں یہ بھی منصوبہ بندی اور پیش بندی کی گئی کہ لنک نہروں کے ذریعے ان دونوں دریاؤں میں چناب اورجہلم کا پانی ڈالا جائے گا۔ یہ لنک نہریں کھدائی کرکے اور پانی سے آباد بھی کر دی گئیں، لیکن مختلف ہیڈز پر آبپاشی کی ضروریات کیلئے اس پانی کو دیگر نہروں میں دیدیا گیا اور لنک کنال سے راوی اور ستلج کو فائدہ نہ ہو سکا۔

(جاری ہے)

صرف مرالہ، راوی لنک کنال نامی نہر، ہیڈ مرالہ سے نکل کر دریا کو کچھ زندگی دیتی ہے۔
بھارت نے سندھ طاس کے علاوہ دریائے چناب اور دریائے جہلم پر بھی بہت سارے ڈیم تعمیر کر لئے جو ناجائز ہیں اور پنجاب کو اپنے حق سے محروم کرتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل ایک نجی چینل پر اس پر ایک پروگرام ہوا جس میں بہت حد تک ان مسائل اور ان کے ممکنہ حل پر بڑے بڑے ماہرین اور وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ دلائی گئی۔

لاہور شہر، پنجاب کا دارالخلافہ ہونے کے علاوہ پاکستان کا دل اور ادب و ثقافت کے خزانوں سے بھرا ہوا شہر ہے جسے اب ماحولیاتی آلودگی اور گندی آب و ہوا دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ پنجاب (پنج آب) تین آب میں بدل جائے‘ ہمیں ان دو دریاؤں، دریائے راوی اور دریائے ستلج کو بھی نئی زندگی کی طرف لانا ہوگا۔ (پرانے وقتوں میں راوی، ایرواتی دریا کے نام سے مشہور تھا۔

) لاہور کے نام کے ساتھ لازماً دریائے راوی کا نام بھی ذہن میں آتا ہے۔ آبادی کے بے تحاشا اور شدید دباؤ کی وجہ بھی لاہور اور اس کے ساتھ بہنے والے دریائے راوی کی شدید ترین آلودگی کا سبب بن رہی ہے۔ لاہور شہر کے شادباغ سے لیکر مانگامنڈی تک 18 گندے نالے جو سیوریج کے گندے پانی کے علاوہ ہزاروں جائز و ناجائز فیکٹریوں کے انتہائی خطرناک کیمیکلز سے لبریز زہریلے پانی کو راوی میں ڈال رہیں اور کوئی ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں لگایا گیا ہے۔

دریائے راوی جس کو اپنی خوبصورت کامران کی بارہ دری کے ساتھ ایک بہت پْرفضا اور صحت افزا تفریح گاہ ہونا چاہئے تھا جہاں گھنے درختوں کا سایہ ہوتا اور راوی کے پانی میں کشتی رانی‘ مچھلی کا شکار اور اس کا کا کنارہ بلکہ دونوں اطراف کے کنارے بہترین سرسبز پارک ہوتے جن میں وائلڈ لائف بھی نشوونما پاتی ہے۔ لاہور اور پنجاب بلکہ پورے پاکستان کے لوگوں کو کشتی دلاتی کہ وہ یہاں سیر کیلئے آئیں اور پنجاب گورنمٹ کو بھی کافی ریونیو ملتا جس سے دریا کی صفائی ستھرائی کے اخراجات پورے ہو سکتے تھے۔

یہ تاریخی دریا اب گندے نالے کی صورت میں بہہ رہا ہے اور جس کے شاہدرہ والی طرف غلاظت اور انتہائی گندے کوڑے کے انبار‘ مرے ہوئے جانور اور ناجائز تجاوزات کی بھرمارہے۔ لاہور والی سائیڈ پر پرائیویٹ ناجائز نئی ہاؤسنگ سکیمیں جلدہی اس مرتے ہوئے دریائے کو جلد نگلنے والی ہیں۔ لاہور کے شہری بہت دکھی دل کے ساتھ جس میں دریائے راوی کی اس گندی حالت کا خنجر پیوست ہے، وزیراعلیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ لاہور شہر کے اس برباد ہوتے ہوئے حسین مقام کو تباہی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

سیر کے شوقین اور دریائے راوی سے محبت رکھنے والے تمام حضرات سے درخواست ہے کہ وہ بی آر بی نہر اور دریائے کے سائفن والے مقام پر تفریح کیلئے ضرور جائیں اور موسم برسات میں اس دریا کا اصل حُسن دیکھیں۔ دریائے راوی کی آلودگی اور زہریلا پانی پورے لوئر پنجاب اور سندھ کو بھی اس طرح متاثر کر رہی ہے کیونکہ ہیڈ بلوکی ،سدھنائی اور پنجند سے ہوتا ہوا یہی پانی سندھ دریا میں شامل ہو جاتا ہے۔

آبپاشی میں بھی یہی زہریلا پانی فصلوں کو دیا جاتا ہے۔ راوی کے کنارے اْگنے والی سبزیاں مضر صحت اور کینسر کا باعث ہیں۔ ہیڈ بلوکی سے پکڑی جانے والی مچھلیاں بھاری میٹلز ہونے کے باعث صحت کیلئے بہت خطرناک ہیں۔ لاہور کے باقی نالوں کے علاوہ سب سے خطرناک ہڈیارہ ڈرین کا نالہ ہے جس میں بھارت سے بھی زہریلا صنعتی پانی راوی میں آتا ہے۔ اس گندے نالے کے علاوہ تمام گندے نالوں پر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے انتہائی ضروری ہیں۔

ہڈیارہ نالہ میں تمام آبی حیات مر چکی ہیں۔ اس پر ٹریٹمنٹ پلانٹ کا معاملہ بھارت سے بین الاقوامی سطح پر اٹھایا جانا چاہئے۔ ہیڈ بلوکی سے قبل صرف دو نہریں اپر چناب اور نہر بی ڈی لنک راوی میں چند سو کیوسک پانی کی تازگی دیتی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تو ذمہ دار ہیں لیکن لاہور کے عوام بھی اس دریا کی اس دکھی حالت کے بہت حد تک ذمہ دار ہیں۔

اگر سیالکوٹ کے عوام اپنا ایئرپورٹ اپنی مدد آپ کے تحت بنا سکتے ہیں تو شہر لاہور کی بھی کچھ ایسی طاقتیں تنظیمیں ہیں جو اس دریا کو مرنے سے بچانے کیلئے اسے آلودہ پانی سے بچا سکتی ہیں۔ برسات کے موسم میں بھارت اپنا فالتو پانی راوی میں چھوڑ کر اس میں بڑا اونچے درجے کا سیلاب لانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اگر حکومتی ادارے اور عوام دریائے راوی کو دوبارہ زندہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ایک مرتبہ پھر لاہور شہر لاہور کے ماتھے کا یہ جھومر لاہور کے قدرتی حسن کو چار چاند لگا دے گا۔

کاش کہ گورنر جیلانی جیسا کوئی مسیحا اس بے کس و لاچار دریا کا علاج کرکے اسے دوبارہ زندہ کر دے۔
چند ممکنہ حل جو دریائے راوی کو نئی زندگی دے سکتے ہیں۔
1۔ حکومتی اقدامات: دریائے راوی اور اس سے ملحقہ بند کے علاقے کو نیشنل وائلڈ لائف ریزرو قرار دیدینا۔
2۔ ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے پر فوری عملدرآمد۔
تمام گندے نالوں اور صنعتی آلودہ پانی کے نالوں پر یہ پلانٹ لگائے جائیں تاکہ دریا میں صرف صاف پانی ہی داخل ہو سکے۔

یہ سب سے پہلا اور بنیادی قدم ہے جو انتہائی اہم ہے۔
3۔ گداگر، جھگی مافیا اور ناجائز تجاوزات پر مکمل پابندی۔
دریا کے اندرونی خشک بیڈ اور کناروں پر سے تمام جھگی مافیا کا انخلاء اور ناجائز تعمیرات کو ہٹا دیا جائے۔ دریا کی حفاظت کیلئے فارسٹ گارڈز تعینات کئے جائیں۔
4۔ BRB راوی سائفن سے سگیاں پل تک جھیل کا منصوبہ۔
دریا کی شک سالی میں اسے دونوں پلوں کے دونوں اطراف چار چار کلومیٹر تک چھوٹی چھوٹی جھیلوں یا ایک بڑی جھیل کی شکل دیدی جائے۔


5۔ محکمہ اری گیشن چند سو ٹیوب ویل (مناسب جگہ پر) بند پر نصب کرے۔
راوی سائفن سے ریلوے پل تک دونوں اطراف میں پچاس پچاس ٹیوب ویل لگا کر دریا میں صاف پانی کی فراہمی کی جائے۔
6۔ بھارت سے انسانی بنیادوں اور ماحولیاتی بنیادوں پر اپیل۔
عالمی عدالت انصاف سے بھی رجوع کیا جائے اور بھارتی حکومت سے ڈائریکٹ انسانی اور ماحولیاتی بنیادوں پر چند ہزار کیوسک پانی باقاعدگی سے راوی میں داخل کرنے کی درخواست کی جائے۔


7۔ دریا کے بیڈ کی بھل صفائی اور مناسب گہرائی۔
میدانی علاقوں میں تمام دریاؤں کی بھل صفائی اور گہرائی بہت ضروری ہے۔ اس مٹی سے چوڑے اونچے بند بنائے جا سکتے ہیں اور سیلابوں کا خاتمہ بھی ہو سکتاہے۔ تمام دریا بحری نقل و حمل کیلئے بھی گہرائی دینے پر کام آسکتے ہیں۔ راوی کے پاکستان میں داخلے سے ہیڈ بلوکی تک 50 فٹ گہرائی دی جا سکتی ہے۔

کشتی رانی اور ماہی گیری دونوں مقاصد کیلئے دریا بہت اچھی طرح استعمال ہو سکتا ہے۔
8۔ راوی کو نیشنل ریزرو کا درجہ دیکر کناروں پر پلانٹیشن۔دریا کو وائلڈ لائف کیلئے محفوظ پناہ گاہ کا درجہ دیکر اسے (شجرکاری) کناروں پر بڑی تعداد میں درخت اْگا کر آبی ماحول میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
9۔ آبی حیات کا اجراء اور محکمہ ماہی پروری کو چارج دینا۔


دریائے راوی کو گورنر پنجاب کی زیرنگرانی تحفظ حیوانات اور فشریز ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے مچھلیوں کی کئی نسلیں متعارف کروائی جا سکتی ہیں۔ شہر لاہور کی تمام یونین کونسلز کے چیئرمین اور نئے فوجی میئر لاہور، اس سلسلے میں بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت اور وفاقی محتسب کا ادارہ اپنی ذمہ داری بھی ادا کریں۔
10۔ کشتی رانی کی سہولیات پرانے مچھیروں کو روزگار دیں گی۔


دریائے راوی کی بحالی سے بہت سے پرانے کشتی رانوں اور ماہی گیروں کو بھی روزگار کے نئے اور دوبارہ سے مواقع ملیں گے۔ اگر لاہور کے مختلف پارکوں مثلاً گلشن پارک اور لاہور پارک میں بڑے تالابوں میں لوگ کرائے پر کشتی کی سیر کر سکتے ہیں تو راوی کی جھیل تو نسبتاً بہت بڑی ہوگی۔ مچھلی کی بہت سی اقسام مثلاً پرانے آباد راوی کی ڈولا مچھلی اور مشہور راوی کھگا مچھلی کی نسل بھی شاید راوی سائفن کی طرف سے آنے والے صاف پانی کی وجہ سے بحال ہو سکی۔

Anglers جو شوقیہ مچھلی پکڑتے ہیں اور وہ بھی بنسی ڈوری کی مدد سے‘ ان کا شوق بھی پورا ہو سکے گا۔
آخر میں ارباب اختیار‘ لاہور کے عوام اور حکومت پنجاب سے دلی طورپر درخواست ہے کہ وہ اس تاریخی دریا کو مرنے سے پہلے ہی بچا لیں۔ سننے میں آیا ہے کہ پاکپتن/ دیپالپور کے علاقے میں بھی پرانے اور گمشدہ دریائے بیاس کی بحالی پر کچھ کام ہو رہا ہے۔

لاہور کی شان پرانے دریائے راوی کی بحالی اور اسے آلودگی سے بچانا کوئی ایسا بھی ناممکن کام نہیں ہے۔ سب سے پہلے اہم اور بنیادی مسئلہ سیوریج اور کیمیکل آلودہ پانی کے اخراج والے پوائنٹس پر Treatment/ Purification پلانٹ لگانا ہے تاکہ دریا کے اندر اتنا خطرناک اور آلودہ پانی داخل نہ ہو سکے۔ دریائے راوی میں گندا صنعتی آلودہ پانی داخل کرنے والی فیکٹریوں پر بھاری جرمانے کر کے اس رقم سے ہی دریا کی بحالی کا کام شروع کیا جا سکتا ہے۔

موٹروے کے ساتھ مغربی طرف گندے آلودہ پانی کی ایک جھیل بن چکی ہے۔ تمام صنعتی یونٹوں کو بہت سختی سے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کا حکم دیا جائے۔ لاہور کے ڈیڑھ کروڑ عوام میں سے لاکھوں لوگ دریائے راوی کے احیاء اور صاف شفاف قدرتی ماحول کی تفریح گاہ کو اپنی زندگیوں میں ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Ravi Ko Tabahi Se Bachane K Liye Hangami Bunyadoon per Kaam Ki Zarorat is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 July 2017 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.