ضروریات زندگی میں ملاوٹ اور لا علاج لوگ!

لاکھ عذر تراشے جائیں مگر اس حقیقت کا اظہار غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان میں جعلی ادویات کی بھرمار، اشیائے ضرورت بالخصوص دودھ میں ملاوٹ ایسے مکروہ دھندوں کو عصر حاضر میں فروغ ملا اسکی وجوہ کچھ بھی ہوں مگر ایسے گھناوٴنے کاروبار کو حالیہ برسوں میں پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آئے۔ اب جبکہ قومی صحت سے کھیلنے والے ایسے دھندوں کی جڑیں معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکی ہیں

پیر 16 جنوری 2017

Zaroriyat Zindagi Main Milawat
خالد کاشمیری:
لاکھ عذر تراشے جائیں مگر اس حقیقت کا اظہار غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان میں جعلی ادویات کی بھرمار، اشیائے ضرورت بالخصوص دودھ میں ملاوٹ ایسے مکروہ دھندوں کو عصر حاضر میں فروغ ملا اسکی وجوہ کچھ بھی ہوں مگر ایسے گھناوٴنے کاروبار کو حالیہ برسوں میں پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آئے۔ اب جبکہ قومی صحت سے کھیلنے والے ایسے دھندوں کی جڑیں معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکی ہیں اور اس کے ہولناک نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں توایوان اقتدار کے مکینوں نے بھی اپنے فرائض سے عہدہ براء ہونے کے بارے غور کرنا شروع کیا ہے اسی حوالے سے گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سول سیکرٹریٹ لاہور میں ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس سے خطاب اور اپنے ہی قائم کر دہ ایک نئے ادارے پنجاب ایگریکلچر فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کے قیام کو ایک اہم اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ مضر صحت دودھ تیار یا فروخت کرنا ایک سنگین جرم ہے۔

(جاری ہے)

ایسا گھناوٴنا کاروبار کرنے والے عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دودھ یا دیگر ضروریات زندگی میں ملاوٹ کا کاروبار کوئی ایک دم یا دو چار ہفتوں اور مہینوں میں پھلا پھولا نہیں اس کاروبار کو پھلنے پھولنے میں کچھ برس لگے ہیں ایسے میں ارباب اقتدار سمیت ایسے مکروہ کاروبار کا سدباب کرنے والے محکمے اپنے فرائض سے عہدہ براء ہونے میں بری طرح ناکام رہے جس کی بڑی وجہ ان کے حقیقی فرائض کی انجام دہی کے حوالے سے باز پرس نہ ہونے کے برابر رہی ارباب حکومت بھی اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے بجائے اپنے اقتدار کو دوام دینے کی خاطر حزب اختلاف کی طرف سے کی جانے والی تنقید پر دفاعی بیان بازی کی طرف اپنی توجہ کو مرکوز کرتے رہے۔

کون نہیں جانتا کہ دودھ میں مضر صحت اجزاء کا شامل کرنیوالے بدنہاد عناصر انسانیت کے دشمن ہیں۔ دودھ میں ملاوٹ کرنے والا مافیا پابند سلاسل کیا جانا چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ یہ مافیا اتنا طاقتور کیوں ہوا؟ ان کی حوصلہ افزائی کیونکر ہوئی؟ جب یہ مافیا طاقتور ہو رہا تھا تو ارباب اقتدار نے آنکھیں کیوں بند رکھی تھیں؟ اب جبکہ یہ ملاوٹ مافیا قومی صحت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔

تو محض خوشنما الفاظ سے عبارت مخالفانہ بیانات دینے سے حکومت کی کارکردگی پر لگے دھبے صاف نہیں ہوں گے۔ اس حوالے سے کسی بھی قسم کا عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہی قرار دیا جائیگا۔ اشیائے خوردنوش میں ملاوٹ کے سدباب کیلئے مخصوص شعبے میں فوڈ انسپکٹروں کی فوج ظفر موج موجود ہے جن کی کارکردگی پر نظر رکھنا براہ راست حکومت کی ذمہ داری ہے۔

مگر ارباب حکومت کی اپنے حقیقی فرائض سے عدم دلچسپی کا نتیجہ یہ ہے کہ پورا نظام ہی تلپٹ ہو کر رہ گیا ہے۔جہاں تک جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں کا تعلق ہے یہ انتہائی گھناوٴنا اور مکروہ دھندہ بھی حالیہ عہد حکومت میں پروان چڑھا ہے۔ جب اسکے نتیجے میں پورے ملک کے عوام میں چیخ و پکار کی گونج سنی گئی تو پھر ارباب اقتدار نے اس سنگین صورتحال پر توجہ دی ہے اور اسکے سدباب کیلئے بیان بازی کا سلسلہ دراز ہوا اور اس مقصد کیلئے ڈرگ ایکٹ میں سزاوٴں، جرمانوں وغیرہ میں اضافہ وغیرہ کی نوید سنائی جا رہی ہے۔

درحقیقت ملکی معاشرے میں جڑ پکڑنے اور ایسی سنگین نوعیت کی وارداتیں ارباب اقتدار کی ”ارتکاز اختیارات“ کی خواہش کا منطقی نتیجہ ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اعلٰی سے ادنیٰ حکومتی اہلکاروں میں ارباب اختیار کی خوشنودی طبع کیلئے خوشامدی ، چاپلوسی اور قصیدہ گوئی کے رجحانات کا نہ صرف قلع قمع ہوتا بلکہ ان میں دیانتداری سے اپنے فرائض منصبی انجام دینے کا جذبہ اْجاگر ہونا۔

کس قدر افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے آبادی والے صوبہ پنجاب میں جعلی ادویات تیار کرنیوالی فیکٹریوں کی بھرمار ہے۔ گزشتہ دنوں حال ہی میں صوبائی وزیر صحت بننے والے خواجہ عمران نذیر نے ”ایوان وقت“ میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ صوبے میں جعلی ادویات تیار کرنے والی فیکٹریوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہے جن پر چھاپے مارے گئے۔

گزشتہ آٹھ برسوں سے پنجاب میں مسلم لیگ ن برسر اقتدارچلی آ رہی ہے ارباب اختیار سے ان جعلی فیکٹریوں کا گھناوٴنا کاروبار بھی پوشیدہ رہا۔ کیا یہ حقیقتیں ”گڈ گورننس“ میں شمار کی جا سکتی ہیں؟
حکومت کی طرف سے ڈیڑھ ہزار جعلی ادویات تیار کرنے والی فیکٹریوں کو چھاپہ مار کر بے نقاب کرنے کے باوجود اس امر کی کون ضمانت دے سکتا ہے کہ ان ڈیڑھ ہزار فیکٹریوں سے جو جعلی ادویات پنجاب سمیت ملک بھر کے ادویات فروشوں کو سپلائی کی جا چکی ہیں ان کی تعداد کتنے ہزار اور ایسی ادویات کا حجم کتنا ہوگا اب ابھی تک کتنے لاکھوں مریض انہیں خرید چکے ہوں اور خرید رہے ہوں گے؟ستم ظریفی ہے کہ "حکومت کی اپنی دکانوں"یوٹیلٹی سٹوروں میں ناقص کوکنگ آئل کی فروخت ہو رہی ہے۔

جس کا عدالت عظمیٰ کے چیف جج مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لے لیا ہے فاضل چیف جسٹس نے یہ میڈیا رپورٹ پر لیا ہے جبکہ اسکے دو یوم بعد وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی کوکنگ آئل میں ملاوٹ کے خاتمے کا خیال آیا اور انہوں نے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے اشیائے خوردنوش اور گھی میں ملاوٹ کے خاتمے کو بھی ضروری قرار دیا۔جس معاشرے میں غریب اور فاقہ کش کروڑوں لوگوں کو اپنے مریضوں کیلئے گھر کا سامان بیچ کر بھی جعلی ادویات ملتی ہوں۔

دودھ سمیت اشیائے خورد و نوش ملاوٹ شدہ غیر معیاری دستیاب ہوں وہاں کے عوام کا شفاخانوں کی طرف رجوع کرنا لازمی امر ہے اور اس بارے سرکاری ہسپتالوں کی جو حالت زار ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسکی تصویر کچھ یوں بنتی ہے کہ قصور کی ساٹھ سالہ زہرہ بی بی دل اور گردے کے عوارض میں مبتلا تھی چند سرکاری شفاخانوں سے ہوتی ہوئی جناح ہسپتال لاہور پہنچی مگر وہاں بھی بیڈ نہ ملا اور اس بے وسیلہ مریضہ کو وارڈ کے دروازے کے باہر فرش پر لٹا کر ڈرپ لگا دی گئی ۔

ٹھنڈے فرش پر لیٹنے کی وجہ تیزبخار میں اس نے جان دے دی 3 جنوری کو قوم کی اس ماں، بہن اوربیٹی نے جان ہاری اسکے چھ یوم بعد وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف مرحومہ کے گھر قصور گئے اور ورثا کو قومی خزانے سے دس لاکھ روپے کا چیک دیا۔ اس موقع پر لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے بڑے دل پسیج دینے والے فقرے بھی اپنی زبان سے ادا کئے مگر کیا ہی اچھا ہوتا یا اب بھی ہو کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سرکاری ہسپتالوں میں ضرورت کیمطابق بستر، ادویات، ڈاکٹر اورر دیگر ضروری مشینری مہیا کرنے کے عملی اقدامات اٹھاتے اور کروڑوں غریب عوام کو علاج معالجے کی تسلی بخش سہولتوں کی فراہمی یقینی بناتے میگا پروجیکٹ پر خرچ ہونیوالا بھاری بھر کم سرمایہ عوام کو بہتر طبی سہولتوں کی فراہمی کیلئے ہسپتالوں کی ضروریات پورے کرنے پر صرف ہوں تو یقیناً آئندہ قوم کی کسی بیٹی اور بیٹے کو ہسپتالوں تک پہنچ کر لاعلاج نہ رہنا پڑے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Zaroriyat Zindagi Main Milawat is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 January 2017 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.