زندہ دلان لاہور کا بکرمنڈیوں میں روایتی جوش و خروش ماند

بیوپاری اور جانور دھوپ میں بیٹھنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے جانور بیمار پڑ رہے ہیں جانوروں کا معالج بھی نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ نے منڈی میں جگہ دینے کیلئے ایک ہزار روپے وصول کئے ہیں

ہفتہ 4 اکتوبر 2014

Zinda Dillan e LahoreKa Bakar Mandiyoon Main Rawayiti Josh o Kharosh Maand
صابر بخاری:
عید الضحیٰ کی آمد آمد ہے۔ خوشنودی خدا کیلئے زندہ دلان لاہور بھی قربانی کیلئے جانوروں کی خریداری میں مصروف ہیں۔ لاہور کے کئی مقامات پر چھوٹی بڑی مویشی منڈیاں لگی ہوئی ہیں مگر لاہور کی سب سے بڑی مویشی منڈی شاہ پور کا نجراں میں ہے۔ راقم الحروف نے شہریوں‘ بیوپاریوں کے تاثرات اور انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے مویشی منڈی شاہ پور کا نجراں کا دورہ کیا۔

میاں محمد طارق اور نواز بشیر بھی اس موقع پر راقم الحروف کے ہمراہ تھے۔مویشی منڈی کا احوال نذر قارئین ہے۔ جب ہم مویشی منڈی پہنچے تو وہاں میلہ کا سا سماں تھا۔مختلف قسم کی دکانیں لگی ہوئی تھیں۔رنگ برنگی سجاوٹ سے ملبوس جانور گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے۔شہری ٹو لیوں کی صورت میں جانوروں کو دیکھ اور ریٹ طے کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

مٹی،گرد ، گوبر اور مچھر کی بہتات تھی۔

ڈھابوں میں کھانا ،مشروب اورچائے دستیاب تھی مگر مکھیاں کثرت سے وہاں موجود تھیں۔ہم نے وہاں موجود کچھ بیوپاریوں سے بات چیت کی
نذر گل کرک سے اونٹ فروخت کرنے کیلئے مویشی منڈی میں موجو د تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اونٹ کی کئی اقسام ہوتی ہیں جن میں سندھی‘ پنجابی‘ دیسی‘ بلوچی نسل شامل ہیں۔ سندھی و بلوچی نسل کے اونٹوں کی مانگ زیادہ ہوتی ہے اور ان کی قیمتیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔

نذر گل نے بتایا کہ سندھی اور بلوچی نسل کے اونٹ 4 سے 5 لاکھ میں بھی فروخت ہوتے ہیں۔ وہ 24 اونٹ لیکر آئے تھے مگر ابھی تک کوئی بھی فروخت نہیں ہوا۔ اس بار منڈی میں 5 سے چھ ہزار اونٹ آئے ہیں۔ اس لئے اونٹ کی قیمت کم ہے۔ منڈی میں شہریوں کا رجحان بھی کم ہے اس لئے اس کو نقصان ہو رہا ہے۔ نذر گل نے بتایا کہ منڈی میں انٹری کیلئے ان سے سو روپے فیس لی گئی ہے۔

لودھراں سے آئے ہوئے محمد سلیم بھی بڑے انہماک سے شہریوں کو چھوٹے جانور چیک کروا رہے تھے۔ نوائے وقت کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ بکروں میں راجن پوری‘ احمد پوری زیادہ مشہور ہیں۔ ٹیڈی جانور سستے فروخت ہوتے ہیں کیونکہ ان کا سائز اور قد چھوٹا ہوتا ہے۔ جس جانور کا قد لمبا اور سائز بڑا ہوتا ہے‘ اس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ عام طورپر بکروں کی قیمت 15 ہزار سے لیکر لاکھ سے اوپر تک جاتی ہے۔

محمد سلیم نے بتایا کہ منڈی میں چھوٹا اور بڑا جانور اکٹھے فروخت ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے بڑے جانور چھوٹے جانوروں سے ٹکرا جاتے ہیں اور چھوٹے جانور زخمی ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گرمی بہت زیادہ ہے۔ انتظامیہ نے ٹینٹ بھی نہیں دیئے۔ بیوپاری اور جانور دھوپ میں بیٹھنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے جانور بیمار پڑ رہے ہیں جانوروں کا معالج بھی نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ نے منڈی میں جگہ دینے کیلئے ایک ہزار روپے وصول کئے ہیں۔ چارہ مہنگا اور بے کار ہے جو زبردستی لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ گھاس میں جنتل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صفائی کا انتظام نہیں ہے۔ مچھروں کی بہتات ہے۔ ڈینگی کا خطرہ ہے۔ جانور اور بیوپاری ساتھ ساتھ سو رہے ہیں۔ محمد سلیم نے بتایا کہ چھوٹے جانوروں کی نسبت بڑے جانوروں کی مانگ زیادہ ہے اور وہ فروخت بھی زیادہ ہو رہے ہیں۔

لودھراں سے آئے ہوئے بیوپاری محمد شریف نے بتایا کہ ان کے پاس لیل پوری ‘ راجن پوری‘ دیسی دوغلہ‘ پہاڑی بکروں کی اقسام ہیں۔ زیادہ قیمت راجن پور ی بکرے کی ہوتی ہے۔ یہ سفید ہوتا ہے۔ اس کی قیمت 50 ہزار سے لیکر ایک لاکھ تک ہے۔ چھوٹے جانوروں کی نسبت بڑے جانوروں کی سیل بہت کم ہے۔ ہفتہ اور اتوار کو سیل زیادہ ہوتی ہے۔ محمد شریف نے بتایا کہ بڑے جانوروں گائے میں ساہیوال آسٹریلیا‘ فریزر نسل کے جانور ہوتے ہیں۔

زیادہ سیل ساہیوال اور آسٹریلیا نسل کے گائے کی ہو رہی ہے۔ ان کا گوشت 15 ہزار فی من کے حساب سے فروخت ہوتا ہے۔ لاہور اس لئے لیکر آئے ہیں شاید زیادہ قیمت پر فروخت ہو جائیں۔ انتظامیہ ویسے تو تعاون کر رہی ہے مگر ٹینٹ نہیں دیئے گئے۔ لائٹ اور صفائی کا انتظام بھی نہیں ہے۔ بیوپاری عبدالغفار چوہنگ سے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ موٹا تازہ جانور زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔

جتنا جانور زیادہ خوراک کھائے گا اتنا ہی موٹا ہوگا اور زیادہ قیمت پر فروخت ہوگا۔ منڈی میں اس بار جانوروں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ عید کے دن قریب آتے ہی بیوپاری اپنا مال منڈی سے نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چارہ ٹھیک نہیں مل رہا۔ ماشقی جانوروں کو پانی پلاتے ہیں اور ایک جانور کو پانی پلانے کی قیمت 20 روپے ہے۔ انتظامیہ کے چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے واش روم استعمال کرنے کا ریٹ 50 روپے ہے۔

منڈی میں جانور بہت زیادہ ہے اس لئے سستا ہے۔ مشروبات اور کھانے کی قیمتیں مناسب ہیں۔ سونے کا انتظام نہیں ہے۔ عبدالغفار نے بتایا کہ گیٹ پر موجود پولیس اہلکار بڑی گاڑی کی انٹری کا سو روپے لیتے ہیں۔ منڈی میں مچھروں کی بہتات ہے مگر انتظامیہ سپرے کرا رہی ہے۔ علی مرتضیٰ نے منڈی میں کھانے پینے کی اشیاء کا کھوکھا لگا رکھا ہے۔ انہوں نے نوائے وقت کو بتایا کہ وہ روزانہ انتظامیہ کو 50 روپے دیتے ہیں۔

یہاں پر چیزوں کی قیمتیں مناسب ہیں۔ جو بجلی فراہم کی جاتی ہے اس سے صرف 2 انرجی سیور ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ فریج وغیرہ نہیں چلا سکتے۔ اس لئے باہر سے برف منگوانی پڑتی ہے جو کافی مہنگی ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس بار شہریوں کا رش کم ہے۔ باہر کی نسبت کھانا کم قیمت پر دے رہے ہیں۔ یہاں پر روٹی پانچ روپے کی ہے۔ انتظامیہ تنگ نہیں کرتی۔ جب قربانی کے ایام میں منڈی لگتی ہے تو یہاں آجاتے ہیں۔

دوسرے ایام میں صرف منڈی والے روز بدھ کو یہاں کھوکھا لگاتے ہیں۔ اس دفعہ کاروبار کا بہت مندہ ہے۔ دکاندار پریشان ہے
قربانی کے لئے جانور کی خریداری کے لئے گلشن راوی سے مویشی منڈی شاہ کا نجرااں آنے والے خرم شاہد نے بتایا کہ منڈی میں بڑے جانوروں کی قیمت زیادہ ہے۔ بیوپاری ایک لاکھ سے اوپر بتا رہے ہیں مگر انکی رینج ایک لاکھ سے نیچے تک ہے۔

منڈی میں رش تو کم ہے مگر ریٹ بہت زیادہ ہیں‘ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ آخر میں جانور خریدیں‘ کیونکہ شہروں میں جانوروں کو چند روز پاس رکھنا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔
ایک ا ور گاہک ملک بلال نے بتایا کہ گائے‘ ویڑھا کی قیمت زیادہ ہے مگر پیسوں کی پرواہ کئے بغیر جو جانور پسند آ جاتا ہے وہ خرید لیتے ہیں موڈ پر منحصر ہے کہ کس طرح کا جانور خریدنا ہے گھر والوں کی متفقہ رائے سے ہی قربانی کا جانور خریدا جاتا ہے قربانی کے جانور منڈی لانے والے ڈالہ ڈرائیور تنویر نے بتایا کہ وہ زیادہ جانور سبی‘ کوئٹہ سے لے کر آتے ہیں بڑا جانور اونٹ ‘ گائے وغیرہ بیوپاری زیادہ لے کر آتے ہیں بیوپاری بھی ٹھیک کمائی کر رہے ہیں انکی بھی اچھی روزی روٹی بن رہی ہے۔

جب منڈی میں داخل ہونے لگتے ہیں تو پولیس اہلکار‘ سو‘ پچاس بغیر پرچی کے لے لیتے ہیں۔ انتظامیہ کے اہلکار‘ پیر علی بابر نے بتایا کہ منڈی میں پانی‘ بجلی ٹینٹ سمیت کئی سہولیات مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔ بجلی جانے کی صورت میں جنریٹر کی سہولت بھی موجود ہے۔ پانی کے لئے10 نلکے اور 7 موٹریں لگائی ہیں۔ اس دفعہ جانور زیادہ آ گئے ہیں اس وجہ سے ٹینٹ کم ہو گئے ہیں صفائی کا خاص خیال رکھ رہے ہیں مچھروں کے خاتمے کے لئے سپرے کر رہے ہیں بڑے جانوروں کی سیل زیادہ ہے۔

جگہ الاٹ کرنے کیلئے ایک ہزار رشوت لینے کے بارے میں علی بابر نے بتایا کہ اس میں صداقت نہیں ہے۔ ٹاؤن والے پارکنگ فیس لیتے ہیں۔ تازہ گھاس جانوروں کو فراہم کیا جا رہا ہے۔ چوری کی وارداتیں روکنے کے لئے بھی اقدامات کر رہے ہیں اکثر بیوپاری روڈ پر جانور‘ کھڑے کر دیتے ہیں جن کو زبردستی ہٹانا پڑتا ہے۔ عید جوں جوں قریب آ رہی ہے جانور منڈی سے نکل رہا ہے بیوپاری جانوروں کو چوکوں چوراہوں پر کھڑا کر دیتے ہیں۔

قارئین جو چیز ہم نے وہاں دیکھی وہ تشویشناک ہے مویشی منڈی کے آس پاس گندے پانی کا جوہڑ ہے جس میں مچھر اور مکھیوں کی بہتات ہے جس سے ڈینگی کا شدید خطرہ موجود ہے۔ منڈی کے انٹری پوائنٹ پر موجود کانسٹیبل کھڑے تو سکیورٹی کے لئے تھے مگر کام ہر اندر جانے والی گاڑی سے نذرانہ وصول کرنے کا کر رہے تھے ۔چوہنگ تھانے کا کانسٹیبل مقبول بڑی چالاکی سے ہر اندر داخل ہونے والی گاڑی سے مٹھی گرم کر رہے تھے جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

جب راقم الحروف نے پوچھا کہ کتنی دیہاڑی بن جاتی ہے پہلے تو ٹال مٹول کرنے لگا مگر آخر کار بولا کہ جتنا جس کا دل کرتا ہے دے دیتا ہے۔ بیوپاریوں کے سونے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ بنچوں پر جانوروں کے ساتھ ہی سو رہے تھے جگہ بہت زیادہ تعفن زدہ تھی۔ بیوپاریوں کی انتظامیہ کے خلاف شکایات کم تھیں جس سے لگتا ہے کہ انتظامیہ بیوپاریوں اور شہریوں کو بہتر سہولیات فراہم کر رہی تھی۔

جانوروں کے علاج کے لئے عملہ موجود تو تھا مگر ان کیخلاف بیوپاریوں کی شکایات کافی تھیں۔ انچارج ڈسپنسری طلحہ نے بتایا کہ جانوروں میں زیادہ کیس لنگڑا کر چلنے کا ہے جانوروں کو بخار بھی ہو رہا ہے۔ جن کا وہ علاج کر رہے ہیں اوسطاً 24 گھنٹے میں 500 جانوروں کا علاج کرتے ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر ٹی ایم او اقبال ٹاؤن کیخلاف بھی بیوپاریوں کو کافی شکایات تھیں۔ جگہ جگہ گندگی گوبر کے ڈھیر کی وجہ سے نماز پڑھنا بھی محال تھا اور اس مقصد کے لئے کوئی جگہ بھی مختص نہیں تھی۔ منڈی کے ارد گرد چار دیواری بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے جانور چوری بھی ہو جاتے ہیں جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ چار دیواری تھی جسے پیوپاریوں نے خود توڑ دیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Zinda Dillan e LahoreKa Bakar Mandiyoon Main Rawayiti Josh o Kharosh Maand is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 October 2014 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.