90دن کا وعدہ

عمران خان خیبر پی کے میں 7ماہ میں بھی بلدیاتی انتخابات کرانے میں ناکام علی خان جدون کی تحریک انصاف میں شمولیت ، پی ٹی آئی مزید مضبوط ہوئی

جمعہ 17 جنوری 2014

90 Din Ka Wadda

راجہ منیر خان:
بلدیاتی ادارے جمہوریت کی بنیاد ہوتے ہیں جن سے جمہوریت کو حقیقی معنوں میں طاقت ملتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اختیار کی تقسیم کے خوف سے ملک میں قائم جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانے سے راہ فرار اختیار کرتی ہیں۔ جس سے جمہوریت مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہوتی رہی ہیں جس وجہ سے بار بار ملک میں مارشل لاء کی راہ ہموار رہی اور فوجی جمہوری حکومت پر شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کرتے رہے اور اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لئے بلدیاتی انتخابات کرواتے رہے اب جبکہ بلوچستان میں قائم جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کروا کر شروعات کر دی ہے۔ اس لئے دیگر صوبے بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے اپنے اپنے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرائیں تاکہ جمہوریت کی جڑیں حقیقی معنوں میں مضبوط ہو سکیں یوں تو بلوچستان کے بعد سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے باوجود صوبے میں قائم حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے فرار کیلئے راہیں تلاش کر رہی ہیں جو کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے۔

(جاری ہے)

لیکن ابھی تک صوبہ خیبر پی کے میں بلدیاتی انتخابات کے لیے لائحہ عمل ہی نہیں طے ہو سکا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ میں برسر اقتدار آگیا تو 90 دن کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کراؤں گا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ صوبہ کے پی کے میں انکی حکومت کو قائم ہوئے 7 ماہ ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک وہاں انتخابی شیڈول ہی نہیں جاری ہو سکا انتخابات تو دور کی بات ہے صوبہ کے پی کے میں تینوں صوبوں سے مختلف بلدیاتی قوانین بنائے گئے ہیں جس میں ویلج کونسل تحصیل کونسل اور ضلع کونسل بنائی گئی ہے ضلع ایبٹ آباد کی 51 یونین کونسل کی 196 ویلج کونسل بنا دی گئی ہیں جس سے یوں تو بڑے لوگوں کو نمائندگی کا موقع میسر آئے گا۔ لیکن کے پی کے حکومت کے اعلان نہ ہونے اور بلدیاتی انتخابات کے شیڈول جاری نہ ہونے کے باعث عوام گومگوں کی کیفیت سے دوچار ہیں لیکن پھر بھی تیاریوں میں مصروف ہیں بڑی سیاسی جماعتیں ضلع میں اپنی صف بندیوں میں مصروف ہیں۔ ضلع مانسہرہ میں میں عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کامیاب ہوئیں ہیں۔ لیکن ضلعی حکومتیں قائم کرنے کے لئے دونوں جماعتیں سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہیں ایبٹ آباد کی قدآور شخصیت امان اللہ خان جدون کے بیٹے علی خان جدون کو تحریک انصاف میں شامل کیا گیا ہے جس میں سردار محمد یعقوب اور ان کے گروپ نے بھرپور کردار ادا کیا جس سے ضلع ایبٹ آباد میں تحریک انصاف مضبوط ہوئی ہے لیکن تحریک انصاف میں دھڑا بندی کا نقصان انہیں پہنچ رہا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) جو ضلع ایبٹ آباد میں قومی الیکشن میں کمزور نظر آئی خاموشی سے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے لئے جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔ جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی مل رہی ہے پی کے 45 میں ایک مضبوط دھڑا مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گیا ہے جبکہ اسی طرح پی کے 44، 46، 47 اور 48 میں بھی محمد ایوب آفریدی‘ سردار اورنگزیب سکوٹھہ‘ بیرسٹر جاوید عباسی‘ عنایت اللہ خان جدون سمیت تمام یونین تنظیم جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ سردار مہتاب احمد خان‘ ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی صدر سردار شیر بہادر‘ سردار محمد ادریس میں آپس میں اختلافات سے تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا ہے۔ جبکہ اسی طرح پی کے 46 میں معاون وزیراعلیٰ کے پی کے حاجی قلندر لودھی اور قومی انتخابات میں ٹکٹ ہولڈر سجاد اکبر میں اختلافات کی خبریں چل رہی ہیں۔ ایسے حالات میں تحریک انصاف میں تقریباً مضبوط 3 دھڑے ہیں جو اپنا اپنا ضلع ناظم لانے میں سرگرم عمل ہیں جس سے تحریک انصاف عملی طور پر کمزور ہو گی جس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اٹھا سکیں گی۔ اور ضلع میں مضبوط ضلعی حکومت نہیں بن سکے گی۔ جس سے ضلع کے عوام کو نقصان ہو گا۔ ابھی تک مسلم لیگ (ن) میں اس طرح کے اختلافات سامنے نہیں آئے لیکن مسلم لیگ (ن) میں بھی دھڑا بندی موجود ہے۔ اس لئے جب تک یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں آپس میں پائے جانے والے اختلافات ختم نہیں کر لیتی اس وقت تک انہیں کامیابی نہیں مل سکے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سردار مہتاب احمد خان کی موجودگی سے اور انکی قائدانہ صلاحیتوں سے بلدیاتی انتخاب میں کھویا ہوا مقام حاصل کر پائے گی جبکہ تحریک انصاف اپنی صوبائی حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مضبوط قدموں کے ساتھ میدان میں ہے۔ وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک ایک مہینہ میں دو دفعہ ایبٹ آباد کا دورہ کر چکے ہیں اور کچھ میگا پروجیکٹ کا اعلان بھی کر چکے ہیں اگر دو تین ماہ میں ان میگا پروجیکٹ میں سے کسی ایک پر بھی کام شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچ سکتا ہے۔ ایبٹ آباد اس وقت بڑا مسئلہ ٹریفک کا ہے۔ اگر ایبٹ آباد بائی پاس منصوبے پر عملدرآمد تحریک انصاف کی حکومت کر لیتی ہے تو یہ ان کا بڑا کارنامہ ہو گا اور آئندہ انتخابات میں اس کے مضبوط قدم ہوں گے اور مسلم لیگ کو ایسی صورت میں مقابلے میں رہنے کیلئے موٹروے اور ایکسپریس وے کے منصوبے شروع کرنے ہوں گے تب جا کر مقابلے میں رہ سکیں گے بصورت دیگر مسلم لیگ کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کونسی حکومت ہزارہ کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرتی ہے۔ جو بھی کردار ادا کرے گی وہی قومی اور بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہو گی۔ بصورت دیگر دیگر جماعتیں سر اٹھا لیں گی جس سے ہزارہ کو نقصان ہو گا۔ پاکستان بننے سے لیکر آج تک ہزارہ میں مسلم لیگ ہی کامیاب ہوتی رہی ہے۔ مسلم لیگ جب بھی اقتدار میں آئی تو انہوں نے کوئی نا کوئی میگا پروجیکٹ ضرور دیا۔ 1993ء میں ایبٹ آباد مری 1997ء میں مانسہرہ نالون سڑک کے منصوبے دئیے ہیں۔ جبکہ دیگر جتنے بھی ہزارہ میں میگا پروجیکٹ آئے وہ فوجی ڈکٹیٹروں کے دور میں شروع ہوئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

90 Din Ka Wadda is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 January 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.