اقوام متحدہ مئوثر کردار ادا کرنے میں ناکام

مقبوضہ کشمیر پر بھارتی لشکر کشی کے 70 سال وادی میں سیاہ قوامین کا راج،کشمیری بددستور فوجی نرغے میں

بدھ 30 اگست 2017

Aqwame MutHida Mowasr Karddar Adda Karny Main Nakamm
محمد عبداللہ گل:
70 برس قبل ایک گہری سازش کے تحت بھارت نے کشمیر پر لشکر کشی کرتے ہوئے اس پر اپنا ناجائز تسلط جمالیا تھا۔ جس کے بعد آج تک وہاں فوجی راج قائم ہے اور بھارت جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے کشمیری عوام کو ان کے حق خودارادیت سے محروم رکھنے کے لئے تمام حربے آزما رہا ہے۔ اسی روز سے بھارتی غاصب افواج کی کشمیر پر قبضے کے خلاف پوری وادی سراپا احتجاج ہے۔

کٹھ پتلی حکومت نے اب جدوجہد آزادی کو کچلنے کیلئے حریت کانفرنس کی تمام قیادت کو گھروں میں قید رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود کشمیریوں کے احتجاجی مظاہروں کو روکنے میں بھارتی قابض فوج ناکام رہی ۔ دوسری جانب بھارت دنیا کی توجہ کشمیر کا ذ سے ہٹانے کیلئے وقفے وقفے سے ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ کرتا رہتا ہے جس سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں اورمکانات کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔

(جاری ہے)

در اصل بھارتی حکمران بوکھلاہٹ کے عالم میں سرحدوں پر گولہ باری کرکے اور پھر پاکستان کے موردالزام ٹھہرا کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مذاکرات سے فرار بودا جواز میں کرنے کیلئے کوشاں ہیں تا ہم مذاکرات سے فرار کا راستہ اختیار کرکے وہ دنیا کے سامنے خود ہی اپنے موقف کے بے بنیاد ہونے کا اشتہار بن گئے ہیں۔ اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت پوری عالمی برادری کو اس صورتحال کا بلاتاخیر نوٹس لے کر کشمیری عوام کو عالمی ادارے کی قرار دادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دلانا اور بھارت کو جنگ کی آگ بھڑکانے سے روکنا ہوگا اور ورنہ جنوبی ایشیا میں ہی نہیں پوری دنیا کا امن خراب ہوسکتا ہے، آئی ایس پی آر کے مطابق بھارت رواں سال 400 مرتبہ کنٹرول لائن پر گولہ باری کرچکا ہے۔

دراصل 1947ء کو بھارت نے جو حملہ کیا وہ ریاست جموں کشمیر پر نہیں بلکہ براہ راست پاکستان پر تھا۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اہل کشمیر نے اپنا تعلق و ناطہ پاکستان سے جوڑا ہوتا تو بھارت کبھی کشمیر پر حملہ نہ کرتا اس کامطلب یہ کہ اہل کشمیر کو صرف پاکستان نے محبت کی سزاملی ہے۔ سزاوجفا کا سلسلہ 70 سالوں سے جاری ہے اس کے باوجود اہل کشمیر کی پاکستان کے ساتھ محبت میں کمی واقع نہیں ہوئی ، اس لئے کہ اس محبت کی بنیاد دینوی اعراض ومفادات پر نہیں بلکہ دین اسلام پر ہے۔

سید علی گیلانی ، سید بشیر احمد شاہ، میر واعظ عمر فاروق، مسرت عالم بٹ،یٰسین ملک، محترمہ سیدہ آسیہ اندرابی،حریت کانفرنس کے دیگر قائدین و کارکنان کشمیری عوام بھارتی عزائم کی راہ میں چٹان بنے کھڑے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں سینے پر گولیاں کھا رہے ہیں اور عہد وفا نبھا رہے ہیں۔ تاریخی جغرافیائی قومی اور تقسیم ہند کے طے شدہ اصولوں کے مطابق ریاست کا پاکستان سے الحاق ہونا تھا۔

مگر گہری سازش کے نتیجے میں بھارت نے اپنی افواج کشمیر میں داخل کردیں یہ سب اچانک نہیں ہوا کشمیریوں کی خواہش کے برعکس کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے پاکستان سے الحاق کے اعلان کو مئوخر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو کشمیری عوام نے اس کے خلاف احتجاج شروع کردیا تھا، تاہم اس دوران انہیں بھارتی بیوروکریٹ وی پی مینن کے راجہ کے گھر میں موجود گی اور کشمیر کے بھارت سے الحاق کے لئے بھارت اور راجہ کے مابین ہونے والی سودے بازی کی اطلاع ملی تو اسکے خلاف احتجاج کے لئے ہزاروں کشمیری زخمی ہوگئے۔

صورت حال کو بے قابو ہوتا دیکھ کر وی پی مینن نے مہاراجہ ہری سنگھ کو فوری طور پر جموں منتقل کرنے کا حکم دیا، اس حکم کے نتیجے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مہاراجہ عملاََ بھارت کاقیدی بن چکا ہے اور ڈوگرہ فوج بھارت کی وفاداری کر رہی ہے، وی پی مینن کے حکم پر مہاراجہ ہری سنگھ کی جموں منتقلی نے کشمیریوں کے اشتعال میں مزید اضافہ کردیا، کیونکہ وہ بھانپ چکے تھے کہ بھارت کشمیر پر تسلط جمانے کی کوشش کررہا ہے، جس کے خلاف احتجاج نے پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔

مہاراجہ نے 26 اکتوبر 1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ایک خط لکھا جس میں مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے بھارت کے سربراہ کے طور پر ماؤنٹ بیٹن سے مدد کی درخواست کی تھی۔ مذکورہ خط وی پی مینن نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن تک پہنچایا تھا۔ بخشا اس کا جواب نہیں جسے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے الحاق کے ااعلان میں تاخیر اور اس سے قبل باؤنڈری کمیشن کی طرف سے مغربی پنجاب میں مسلمان اکثریتی آبادیوں والی چند اہم تحصیلوں کو پاکستان سے کاٹ کر بھارت میں شامل کرنے کے اعلان کو ماؤنٹ بیٹن کی مکمل تائید وحمایت حاصل تھی ورنہ بھارت کا کشمیر سے زمینی راستہ منقطع ہوجاتا۔

ریاست کو ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کر مہاراجہ نے جو ظالمانہ اقدامات کئے اس کی مثال نہیں ملتی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا جبکہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اسلحہ سرکار کو جمع کروادیں چاہے وہ لائسنس یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔ بعد ازاں مہاراجہ کی ایماء پر آر ایس ایس نے ہندو راج سبھا ودیگر ہندوفرقہ پرست تنظیموں کے پچاس ہزار کارکن کشمیر میں پہنچائے گئے جنہوں نے جموں کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر پوری ریاست میں خفیہ شاخیں قائم کرلیں۔

مہاراجہ کی فوج افسروں نے ان بلوائیوں کو ہتھیار بنانے،چلانے،مسلمانوں کے قتل خواتین کی آبروریزی کی تربیت دی ان ہندو بلوائیوں نے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا آبادیاں ویران کر دیں، مسجدیں جلا دیں،گھر لوٹ لئے،درجنوں دیہات ایسے تھے جہاں کے تمام مرد و اور بچوں کو گولیوں سے اڑا دیا گیا تھا ، ایک صرف ریاست کے اندر مسلمانوں کی نسل کشی اور دوسری جانب بھارتی فوج نے ریاست پر چڑھائی کرتے ہوئے کشمیر پر اپنے پنجے گاڑھ لئے اور آج 70 سالوں سے بھارتی قابض افواج نے کشمیریوں کا محاصرہ کررکھا ہے مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا ایسا خطہ ہے جس میں دس لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے اور نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھانے میں کوئی کس نہیں چھوڑی گئی ۔

جو برقرار داد بھارت سلامتی کونسل میں یکم جنوری 1948ء کولے کر گیا تھا اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا جو کہ اقوام عالم کی بے حسی اور ہندوستان کی عکاسی کو ظاہر کرتا ہے۔قرارداد خود ہی پیش کی اور آج تک اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہے، اس قرارداد کے اہم نقاط یہ تھے۔
(1) فوری طور پر جنگ بند ہو
(2) ریاست جموں وکشمیر سے دونوں ممالک کی افواج اور دیگر متحارب عناصر نکل جائیں۔


(3) ریاست میں ایک مخلوط حکومت قائم ہو جس میں مختلف جماعتوں کو نمائندگی دی جائے۔
(4) صورتحال معمول پر آجائے تو ریاست میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کی جانے سے اگست 1949ء تک بھارت نے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی اپنے نمائندے مشترکہ کمیٹی کیلئے پیش کئے۔ اقوام متحدہ نے آسٹریلیا کے ایک جج سراوون ڈکسن کو جولائی 1950ء میں اپنا نامزد نمائندہ بھیجا۔

اسکے مطابق طے کیا گیا کہ پاکستان کی افواج کشمیر سے نکل جائیں اور کچھ روز بھارتی افواج بھی چلی جائیں ، بھارتی مقبوضہ کشمیر کی افواج اور ملیشا کو توڑ دیا جائے، رائے شماری کیلئے پورے کشمیر میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹوں کے تحت ایک تنظیم عمل میں لائی جائے اور ہر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ اقوام متحدہ کا ایک مبصر ہوتا کہ رائے شماری میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو۔

افسوس اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا اور 70 برس گزرنے کے بعد بھی کشمیریوں کو حق رائے شماری نہیں مل سکا۔ اقوام متحدہ کے نامزد نمائندے سراوون ڈکسن نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ” بھارت کی افواج کشمیر کے چپے چپے پر موجود ہے ۔ ایسے میں اگر ریاستی ملیشا اور ریاستی پولیس کو اپنا اثر قائم کرنے کا موقع دیا گیا تو کشمیری عوام اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیں کرسکیں گے ڈسکن کی ناکامی کے بعد ڈاکٹر گراہم اقوام متحدہ کے نمائندے بن کر کشمیر آئیں۔

سلامتی کونسل نے 30 مارچ 1951ء کو ایک اور قرار داد منظور ی اور بتایا کہ وادی سے تمام بھارتی فوج نکل جائے۔ ڈاکٹر گراہم نے تین ماہ تک دونوں ممالک نمائندوں اور کشمیریوں کے مختلف گروپوں سے ملاقات کی، تاہم ڈاکٹر گراہم نے اپنی رپورٹ میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت فوج واپس بلانے پر آمادہ نہیں ڈاکٹر گراہم نے مزید لکھا کہ پاکستان نے مکمل تعاون فراہم کیا لیکن بھارت کا رویہ منفی رہا۔

کشمر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط کا مقصد پاکستان کے لئے مشکل ترین حالات پیدا کرنا ہیں جیسا کہ پاکستان کو صحرا میں بدلنے کے لئے کشمیر سے بہنے والے دریاؤں بالخصوص دریائے سندھ اور دریائے نیلم ، جہلم، کے پانی پر ناجائز قبضہ کرنا ہے ، جبکہ دفاعی لحاظ سے بھی کشمیر پاکستان کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور یوں کشمیر پر قبضے کی سازش دراصل پاکستان کے وجود اور سا لمیت کیخلاف بھارت کے جارحانہ عزائم کی علامت بھی ہے، ساری دنیا بخوبی جانتی ہے کہ کشمیر پاکستان کا لازمی جزو ہے اور اس کے بغیر پاکستان ابھی تک نامکمل ہے۔

بھارتی لشکر کشی کے منحوس دن سے لیکر آج تک کشمیری عوام کو آزادی کی لڑائی سے روکنے کیلئے ان پر سیاہ قوانین کے تحت گھیرا تنگ کردیا گیا ہے۔ جب سے بھارتی درندہ صفت فوج کو وادی میں اتارا گیا تب سے یہ فوج کشمیری آواز کو دبانے کے لئے ان پر بے پناہ مطالم ڈھا رہی ہے۔ آج تک 6 لاکھ انسانوں کو موت گھاٹ اتار جاچکا ہے، دس ہزار کو حراست میں لیکر قتل اور دس ہزار کو لاپتہ کردیا گیا ہے، سات ہزار سے زائد شہریوں کو بے نام قبروں میں دفن کردیا گیا ہے اور ان کا نام وپتہ بتانے سے مسلسل انکار کیا جارہا ہے ۔

ساڑھے سات ہزارخواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ ریاست میں افسپا،ڈسٹربڈائر یا ایکٹ اور پی ایس اے جیسے کالے قوانین نافذ ہیں اور ان کی وجہ سے پولیس اور فوج کو ستم ڈھانے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ آزادی پسندوں کی سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی ہے ، اور انہیں ملسل گھروں اور جیلوں میں نظر بند رکھا گیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Aqwame MutHida Mowasr Karddar Adda Karny Main Nakamm is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 August 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.