چھوٹو گینگ کا خاتمہ

سہولت کاروں کیلئے خطرے کی گھنٹی۔۔۔ چھوٹو گینگ کے خلاف کامیاب آپریشن کے بعد پاک فوج کے ترجمان نے اعلان کر دیا کہ اب چھوٹو کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی ہو گئی جبکہ اس سے قبل ہی علاقے کے سیاسی عمائدین نے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی گنگا بہادی

بدھ 4 مئی 2016

Chotu Gang Ka Khatma
خالد جاوید مشہدی:
چھوٹو گینگ کے خلاف کامیاب آپریشن کے بعد پاک فوج کے ترجمان نے اعلان کر دیا کہ اب چھوٹو کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی ہو گئی جبکہ اس سے قبل ہی علاقے کے سیاسی عمائدین نے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی گنگا بہادی۔ذرائع کے مطابق چھوٹو کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے کے لیے سرداروں کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔

غلام رسول المعروف چھوٹو کا تعلق بلوچ قبیلے مزاری کی ذیلی شاخ بکھرانی سے ہے اور یہ سالہا سال سے اس علاقے میں مصروف جرائم تھا۔ علاقہ پولیس پوری طرح اس کے کاموں سے آگاہ تھی اور اگر اس کے خلاف فیصلہ کن کاروائی آج تک نہ ہو سکی تو یقینا اس کے سرپرست بھی ایسے بااثر ہوں گے کہ پولیس جن کے سامنے دم نہ مارسکتی تھی اور اب اگر پنجاب حکومت نے کارروائی شروع کی تو اس کا بڑا سبب بھی یہ تھا کہ جس طرح لاہور دھماکہ کے بعد آرمی چیف نے پنجاب میں آپریشن کا حکم دے دیا تھا اور پنجاب حکومت کو اسے قبول کرنا پڑا۔

(جاری ہے)

اگرچہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ”پورے دعویٰ کے ساتھ“ یہ اعلان کیا تھا کہ پنجاب میں کوئی نوگرایریا“ نہیں مگر ان کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہو گیا اور اب چھوٹو گروپ فوج کی تحویل میں ہے جو یقینا اپنے سرپرستوں کے نام فوج کو بتائے گا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ چھوٹو نے اس شرط پر ہتھیار ڈالے تھے کہ اسے پولیس کے حوالے نہیں کیا جائے گا اور وہ فوج کے سامنے سرنڈر کر دے گا۔

اللہ کا شکر ہے کہ انتہائی صبرآزما لمحات میں فوج نے انتہائی دانشمندی سے بغیر خون بہائے یہ معرکہ سر کیا ورنہ بعد میں جو تصویر سامنے آئی کہ کچہ جمال میں ڈاکو تو صرف 13 تھے باقی ان کے اہلخانہ اور چھوٹے موٹے جرائم پیشہ لوگ تھے جو چھوٹو کو سر پرست مان کر یہاں مقیم تھے۔ فوجی ترجمان کے مطابق 200 کے قریب افراد میں 24 عورتیں اور 44بچے بھی مقیم تھے اور کُھلے ایکشن میں ان کی بڑی تعداد ماری جاتی تو کتنا بڑا انسانی المیہ ظہور پذیر ہو سکتا تھا ۔

پوری دنیا پاکستان پر چڑھ دوڑتی اور یہ کارروائی مسلم لیگ ن کی حکومت کے تابوت میں آخری کیل بھی ثابت ہو سکت تھی۔ فوج نے اکر مسلم لیگ ن کی حکومت پر بہت احسان کیا ہے ورنہ جس ناقص طریقے سے پولیس کارروائی کرنے جاری تھی وہ ایک المناک انجام کا نکتہ آغاز ثابت ہوسکتی تھی۔ جزیرہ جس پر یہ لوگ مقیم تھے کم وبیش 22، 23 روز محاصرے میں رہا اور اس دوران اندر مقیم لوگوں کو خوراک وغیرہ کی کوئی کمی محسوس نہ ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ اندر کافی خوراک موجود تھی ۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ آخر اتنے لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے بازار تو جانا پڑتا ہوگا اور کم وبیش 10 سال سے یہ گینگ یہاں موجود تھا تو یہ معاملہ پولیس کی نظر سے کیسے اوجھل رہا۔ اب یہ اتفاق کہیں یا بد قسمتی کہ جن سرداروں کا نام گینگ کے ساتھ لیا جا رہاہے ان میں سے بیشتر مسلم لیگ ن میں شامل ہیں۔دراصل یہ مسلم لیگ ن میں شامل نہیں مگر حکمران جماعت میں شامل ہیں کیونکہ بیشتر سردار تمام حکمران جماعتوں کے گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں۔

انہوں نے جب دیکھا کہ آپریشن کامیابی کی طرف بڑھ رہا ہے تو ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دی۔ پی پی 247 سے منتخب ایم پی اے علی رضا دریشک نے بیان دیا کہ 2008 میں ان کا سیاسی اتحاد مزاریوں کے ساتھ تھا تو انہوں نے دھمکی دی تھی کہ چھوٹو کے خلاف آپریشن کیا گیا تو وہ (مزاری) ہمارے ساتھ اتحاد ختم کردیں گے۔ علی رضا دریشک نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ مرید السکانی سمیت دیگر جرائم پیشہ گروپوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے ۔

انہوں نے سوال کیا کہ 2013 میں جب چھوٹو گینگ نے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا تو کون سا سردارتاوان کی رقم لے کر چھوٹو نے کھولے تھے۔ کیا اس سے پتہ نہیں چلتا کہ چھوٹو کے سر پرست اور سہولت کار کون ہیں؟ اس کے علاوہ سابق ای ڈی اوہیلتھ ڈی جی خان اور ڈپٹی سیکرٹری قومی اسمبلی معظم علی کالرو کو علی گل باز گیر اور دیگر اغوا کاروں سے کس نے دلوایا ؟ اس کے جواب میں مسلم لیگ ن کے ایم پی اے عاطف مزاری نے کہا کہ (ق) لیگ کے دور میں چھوٹو سارا دن تھا نے میں بیٹھا رہتا تھا۔

مزاری خاندان کو نقصان پہنچانے کے لیے 2002 میں نہ صرف چھوٹو بلکہ عمرانی اور لانگ گینگز بنائے گے۔ چھوٹو گینگ میں بلوچستان لبریشن آرمی کے دہشت گردوں کے علاوہ کے پی کے ، سندھ اور پنجاب کے مختلف جرائم پیشہ افرا د بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ہی بھی الزام لگایا کہ نصراللہ دریشک نے 2008 میں چھوٹو گینگ کو بھاری مقدار میں اسلحہ فراہم کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت میں ایک معزز عہدے پر فائز شخصیت کو بھی چھوٹو گروپ کے سرپرستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

فوجی ترجمان نے کہا کہ آخری ڈاکو کے خاتمے تک فوج علاقہ میں موجود رہے گی۔ ذرائع کے مطابق علاقے میں دس بار چھوٹے بڑے گینگز میں، جو مکینوں کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں، ابھی بھی موجود ہیں اور انہوں نے ہتھیار بھی نہیں ڈالے۔ اس کا مطلب ہے کہ فوج کو طویل عرصہ تک قیام کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Chotu Gang Ka Khatma is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 May 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.