احتساب سب کا، مگر کیسے اور کیونکر ؟

کیا نیب کا ادارہ واقعی حقیقی احتساب کے لیے راہ ہموار کر لے گا ؟ اس سوال پر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ عوامی حلقوں کی طرف سے بھی خوب ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ نیب کی کہانی گزشتہ دنوں اس وقت شروع ہوئی جب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے پاکستان کے چند بڑے بڑے سرمایہ داروں نے نیب کے بارے میں شکایت کی

جمعہ 26 فروری 2016

Ehtesaab Sab Ka Magar Kaise
احمد کمال نظامی:
کیا نیب کا ادارہ واقعی حقیقی احتساب کے لیے راہ ہموار کر لے گا ؟ اس سوال پر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ عوامی حلقوں کی طرف سے بھی خوب ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ نیب کی کہانی گزشتہ دنوں اس وقت شروع ہوئی جب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے پاکستان کے چند بڑے بڑے سرمایہ داروں نے نیب کے بارے میں شکایت کی تو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کے بقول وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جلسہ عام میں نیب والوں کو کھری کھری سنا دی اور انہیں اپنی اوقات میں رہنے کو کہا۔

اس پر بات نکلی ایسی چلی کہ اب تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ درحقیقت پاکستان میں احتساب ایک مذاق ہے کوئی بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اس کھیل کے پرانے کھلاڑی ہیں، اگر ان دونوں کا بس چلے تو احتساب کے عمل کو یہ بحیرہ عرب میں پھینک دیں۔

(جاری ہے)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب اور احتساب کے حوالے سے جتنے بھی بیانات عوام کی نظروں سے گزر رہے ہیں کیا ایسے ملک میں بدعنوانی ، کرپشن یا اختیارات کے غلط استعمال کو روکا جا سکتا ہے جہاں حکمران اشرافیہ (دونوں پارٹیاں) اس بات پر متفق اور راضی ہوں کہ احتساب اس وقت تک ہی بہتر ہے جب تک وہ ان کے گھر کی راہ نہ دیکھے۔

کیا ایسے ملک میں منصفانہ اور شفاف احتساب کی امید کی جا سکتی ہے۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خاں نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ پنجاب میں نیب کا شکنجہ کسنے کی تیاریاں محض افواہیں ہیں ۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی مقدس گائے نہیں، ججز ، میڈیا اور جرنیلوں سمیت سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے بزنس مین خبیر پی کے میں لوٹ مار کر رہی ہیں اور پی ٹی آئی نے وہاں جنرل (ر) حامد کو احتساب کرنے سے روکا۔

پنجاب کے وزیر قانون کے اس بیان کے برعکس یہ خبریں بھی اپوزیشن کی جماعتوں کی طرف سے گرم ہیں کہ نیب اختیارات میں کمی کے لیے حکومت آرڈنینس کا سہارا لینے پر غور کر رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اس ضمن میں کہا ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم کایہ وقت نہیں، حمایت کرنے والوں کو عوام چور کہیں گے۔ نیب آرڈنینس لانا حکومت کے لیے خطر ناک ہوگا، کوئی جماعت حمایت نہیں کر سکتی۔


ہمارے ہاں کرپشن کا ناسور حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے اور اب تو لوگوں کی طرف سے یہ کہا جانے لگا ہے کہ اس کی بات کی جائے جو کرپشن نہ کرتا ہو۔ گویا کہ اداروں سے بااثر افراد تک کرپشن کی غضب کہانیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔ فیصل آباد میں قومی اسمبلی کے گیارہ اور صوبائی اسمبلی کے 22 ارکان موجود ہیں۔ ان دنوں احتساب کی باتوں پر سیاسی حلقوں کی طرف سے برملا مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ فیصل آباد کے تمام ارکان اسمبلی اور دو وزراء وزیر مملکت پانی و بجلی چوہدری عابد شیر علی اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ سمیت سب کے اقتدار میں آنے سے پہلے اور اب کرنٹ سٹیٹس میں جائیداد اور بینک بیلنس وغیرہ کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے۔

اس سلسلے میں کرپشن کے مختلف الزامات بھی سامنے آرہے ہیں اور پیپلز پارٹی تحریک انصاف کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ فیصل آباد کے میگا ترقیاتی پیکج پر خود مسلم لیگ ن کے ایم پی اے میاں طاہر جمیل نے رانا ثناء اللہ اینڈ گروپ پر بہت سارے سنگین الزامات عائد کئے تھے۔اسی طرح رانا ثناء اللہ گروپ کی طرف سے سابق میئر چوہدری شیر علی پر ماضی میں کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

چوہدری شیر علی تو پرویز مشرف دور میں احتساب کے عمل سے گزر چکے ہیں ۔لیکن جہاں کہیں بھی احتساب کی ضرورت ہو وہ سب کا اورکڑا احتساب ہونا چاہیے۔ فیصل آباد میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے دور میں رہنے والے ارکان اسمبلی پر مسلم لیگ ن کے موجودہ ارکان کرپشن کے الزامات عائد کرتے تھے اس پر بھی احتساب کا عمل خفیہ جانچ پڑتال کے ذریعے ہونا ضروری ہے۔

کرپشن کے حوالے سے ایف ڈی اے اور واسا کو ہمیشہ ہی سفید ہاتھی کہا جاتا ہے۔ ان دونوں ارکان اسمبلی خود یا ان کے ایسے اداروں پر براجمان ہیں اور الزامات کا بازار بھی گرم ہے۔ موجودہ حکومت نے جب گیس چوری کے خلاف مہم چلائی تو وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اکٹھے فیصل آباد آئے تھے جہاں انہوں نے میڈیا کے سامنے بڑے پیمانے پر گیس چوری کرنے والے اداروں کے خلاف کارروائی کروائی تھی۔

گزشتہ دنوں نیب کی طرف سے فیصل آباد ترقیاتی ادارے (ایف ڈی اے) کے رہائشی پر اجیکٹ ایف ڈی اے سٹی کے حوالے سے انکوائری کی خبریں منظر عام پر آئی تھیں۔ فیصل آباد میں کرپشن کی قیاس آرائیوں میں اس قدر غضب کہانیاں بیان کی جاتی ہیں کہ شہر کے تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں۔جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کانیا کیمپس جسے جھنگ روڈ پر پھینک دیا گیا تھا اس کی تعمیر، تو سیع او اپ گریڈیشن کیلئے اربوں کروڑوں روپے کے فنڈ پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں ۔

اسی طرح زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایکڑوں پر مشتمل اراضی پر نیزہ بازی کے لیے زیر تعمیر جو سٹیڈیم اور دیگر منصوبہ جات سے متعلق بھی بہت ساری افواہیں گردش میں ہیں ۔ احتساب اس جمہوریت کا حسن ہے جس کی ابتداء اسلام کے ساتھ ہی ہو گئی تھی۔ سرورکائنات حضرت محمد ﷺ نے فرمایا تھا کہ کہ اگر میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی چوری کرتی پکڑی گئی اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور پھر زمین و آسمان گواہ ہے کہ یہ وہی اسلام کا جمہوری نظام تھا کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نام اس حوالے سے رہتی دنیا تک مثال رہے گا۔ چنانچہ پنجاب سمیت پورے ملک میں احتساب کرنا ہوگا چاہے اس کی ابتداء فیصل آباد سے کر لی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Ehtesaab Sab Ka Magar Kaise is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 February 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.