ایٹمی پروگرام پر دوٹوک موقف کی ضرورت

امریکہ میں ایٹمی کانفرنس میں وزیراعظم کی شرکت سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔ امریکہ کی طرف سے وہاں وزیراعظم میاں نواز شریف کی غیر موجودگی میں جو کچھ کہا گیا وہ انکی موجودگی میں بھی کہا جاتا

بدھ 6 اپریل 2016

Etmi Programme Per Doo Tok Muaqaf Ki Zarorat
محمد یاسین وٹو:
امریکہ میں منعقدہ ایٹمی کانفرنس میں میاں نواز شریف نے بھی شرکت کرنا تھی مگر گلشن اقبال پارک لاہور میں دہشتگردی کی وجہ سے انہوں نے اپنی جگہ فاطمی صاحب کو بھجوا دیااس حملے میں اسی افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ وزیراعظم نے اس سانحہ پر قوم سے خطاب کرکے اس کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش بھی کی، اس پر پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ نے اعتراضات کئے، ان کو بجا یا بے جا اعتراضات ہیں کہ چارسدہ حملے پر وزیراعظم نے اپنا دورہ منسوخ کیا نہ قوم سے خطاب کیا۔

وزیراعظم اگر امریکہ میں کانفرنس میں شرکت کیلئے چلے جاتے اسی اپوزیشن نے پھر بھی پانسہ پلٹ کے تنقید برائے تنقید کرنا تھی۔ اب اگر وہ نہیں گئے تو نفرت انگیز جذبات کا اظہار شروع کر دیا۔ وزیراعظم کو بھی متوازن رویہ اختیار کرنا چاہئے۔

(جاری ہے)


امریکہ میں ایٹمی کانفرنس میں وزیراعظم کی شرکت سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔ امریکہ کی طرف سے وہاں وزیراعظم میاں نواز شریف کی غیر موجودگی میں جو کچھ کہا گیا وہ انکی موجودگی میں بھی کہا جاتا۔

ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکہ کا رویہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کیساتھ معاندانہ اور متعصبانہ رہا ہے۔ پاکستان نے کم ازکم ڈیٹرنس پر اپنا ایٹمی پروگرام محدود کر رکھا ہے اور اسکی حفاظت بھی یقینی بنائی گئی ہے جبکہ بھارت کی طرف سے اپنا ایٹمی پروگرام محفوظ بنانے کے پاکستان کی طرح فول پروف انتظامات کئے گئے ہیں نہ بھارت نے پروگرام میں پیش رفت روکی ہے۔

بھارت میں ایٹمی مواد کا چوری ہونا اور حادثات کا معمول بھارت کے ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کا ثبوت ہے۔ اسکے چھ ایٹمی سائنسدان غیر طبعی موت مرے ہیں۔ اس سب کی تصدیق گزشتہ ماہ کی امریکہ کی آرمز کنٹرول اور انٹرنیشنل سکیورٹی کی نائب سیکرٹری روز گاٹ مائلر کی سینٹ کی خارجہ امور کمیٹی کو دی گئی بریفنگ میں بھی کی۔ جس میں بتایا کہ جوہری ہتھیاروں کے تحفظ کیلئے پاکستان کا سینٹر فار ایکسی لینس ادارہ نہ صرف بہترین انداز میں کام کر رہا ہے بلکہ جوہری ہتھیاروں کے تحفظ کیلئے علاقائی سطح پر عالمی ایجنسی کے تعاون سے تربیت بھی فراہم کر رہا ہے جبکہ بھارت کی جانب سے سینٹر فار ایکسی لینسی کا قیام ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔


ان کہنا تھا اوباما انتظامیہ نے بھارت کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں پیش رفت دیکھی ہے۔ مگر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید رنگ بھرنے کیلئے امریکی صدر اور وزیر خارجہ حقیقت اور حقائق کا منہ چڑا رہے ہیں۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ”پاکستان اور بھارت کے بارے میں اس حوالے سے پیشرفت ضروری ہے کہ یہ ضمانت دیں کہ وہ دونوں ایٹمی اسلحہ کے حوالے سے غلط راہ پر تو نہیں چل رہے۔


پاکستان اور بھارت برصغیر میں ایٹمی خطرہ کم کریں۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کو بھی نتھی کرنا امریکیوں کی پاکستان کے بارے میں ا س ذہنیت کی عکاسی ہے جس کا اظہار اسکی طرف سے عموماً ہوتا رہتا ہے۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کے اقدمات پر اطمینان ظاہر کیا جاتا ہے، ایک سطح پر ایٹمی پروگرام کو روک دینے کو تسلی بخش قرار دیا جاتا ہے اور پھر عالمی فورمز پر تحفظات محض بھارت کو خوش کرنے اور بیلنس کرنے کیلئے ظاہر کئے جاتے ہیں۔


ایٹمی کانفرنس کے آغاز پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول سے ملاقات کی جس میں انہوں نے بھارت کے جوہری پروگرام‘ ہتھیاروں کے انتظام اور اسکے حوالے سے ”ذمہ دارانہ رویے“ کو سراہا دونوں کے درمیان پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی سکیورٹی اور انکی تنصیب پر بھی بات ہوئی۔جان کیری نے ایک ہفتے میں مائلر کی رپورٹ کیسے نظر انداز کر کے بھات کے ایٹمی پروگرام کے انتظام کو سراہا ہے۔

بھارت کیساتھ تعلقات کا مطلب حقائق کو جھٹلانا نہیں ہونا چاہئے۔ کیری بھارت کو خوش کرنے کیلئے حقائق سے نظریں چرا رہے ہیں۔ امریکہ سے بھارت کی قربت ہو سکتی ہے، مگر دو ممالک کی دوستی پاکستان کیخلاف سازش کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہئے پاکستان کا اسلحہ کہاں ہے کیسے ہے اس پر آئی اے ای اے بات کر سکتی ہے۔ پاکستان کے ہتھیاروں پر کیری دوول میٹنگ ان کا پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر خبث ہے جو ایسے مواقع پر باہر آتا ہے۔


اس کانفرنس میں اوباما نے ایک بات درست کی انہوں نے کہا کہ درپیش چیلنجز میں سے ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ جب تک امریکہ اور روس اپنے ایٹمی اسلحہ میں بڑے پیمانے پر کمی نہیں کرتے ایٹمی ہتھیاروں میں بڑے پیمانے پر کمی ہونا مشکل کام ہے۔ جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے کیلئے امریکہ اور روس کو پہل کرنا ہو گی۔ روس اور امریکہ اپنا اپنا ایٹمی پروگرام پاکستان کی طرح محدود کیوں نہیں کرتے۔

جنوبی ایشیاء میں بھارت یکطرفہ طور پر ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کی پاکستان کو مجبوراً اپنے دفاع کیلئے ایٹمی قوت کے حصول کیلئے سرگرم ہونا پڑا۔ پاکستان کا پروگرام آج محدود تو ہے مگر بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ معیاری ہے۔ پاکستان جیسے چھوٹے ایٹمی ہتھیار تو کسی ملک کے پاس نہیں ہیں، انکی رینج میں بھارت اور اسرائیل ہیں، اسی لئے پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھارت امریکہ اور اسرائیل کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ وہ اس کیخلاف جب اور جہاں موقع ملتا ہے معاندانہ رویے کا اظہار کرتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان امریکہ کے دباؤ کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے اپنے ایٹمی پروگرام پر جرات مندانہ اور دوٹوک موقف اختیار کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Etmi Programme Per Doo Tok Muaqaf Ki Zarorat is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 April 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.