فراہمیِ انصاف ضروری ہے

جرائم کی بیخ کنی، تفتیش اور جرائم پر قابو پانا پولیس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ پولیس ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو رہی ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔ جس کا جواب جب بھی پولیس کے اعلیٰ حکا م سے پوچھا جاتا ہے تو وہ رٹی رٹائی بات کہہ کر جواب گول کر جاتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہیں۔ لیکن کم نفری اور کم وسائل کے سبب ان میں ”کریکس“ پڑ جاتے ہیں

جمعرات 22 دسمبر 2016

Farahmi e Insaaf Zaroori Hai
سعد اختر:
جرائم کی بیخ کنی، تفتیش اور جرائم پر قابو پانا پولیس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ پولیس ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو رہی ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔ جس کا جواب جب بھی پولیس کے اعلیٰ حکا م سے پوچھا جاتا ہے تو وہ رٹی رٹائی بات کہہ کر جواب گول کر جاتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہیں۔ لیکن کم نفری اور کم وسائل کے سبب ان میں ”کریکس“ پڑ جاتے ہیں۔

ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی ”کارکردگی“ کومزید بہتر کر سکیں۔“ اسکے آگے فل سٹاپ۔ہم یہ بات کئی مرتبہ آئی جی لیول سے ڈی آئی جی لیول تک اور ایس پی سطح کے افسران سے بارہا سن چکے ہیں۔ لیکن عوام ہیں کہ پھر بھی شدید عدمِ تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں اور یوں پھر بار بار یہ سوال پیدا ہوتا ہی ہے کہ پولیس کہاں سوئی ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان آئینی طور پر چار حصوں یا چار صوبوں میں تقسیم ہے۔

اس میں گلگت ، بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی شامل کر لیا جائے تو کوئی مذائقہ نہیں کیونکہ یہ بھی پاکستان ہی کا حصہ ہیں۔ تقابلی جائزہ لیا جائے تو پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے برعکس آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں جرائم کا تناسب بہت کم ہے، نسبتاً پولیس کا رویہ بھی یہاں دیگر چاروں صوبوں سے کہیں بہتر ہے۔چند سال پہلے آزاد کشمیر کے کیپٹل مظفر آباد جانے کا اتفاق ہوا اور عام لوگوں سے میری بات چیت ہوئی تو مقامی لوگوں نے بتایا کہ آزاد کشمیر میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اکثر تھانے ویران پڑے ہوتے ہیں اور کئی ماہ تک کوئی ایک مقدمہ بھی درج نہیں ہوتا۔ یہاں کی پولیس بھی بڑی مختلف ہے۔ اْن کا رویہ مدعیوں سے ہمدردوں جیسا ہوتا ہے رشوت نام کو نہیں۔ ایک عام آدمی کو بھی آسانی کے ساتھ ایس پی اور آئی جی کے دفتر تک رسائی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے آزاد کشمیر کا پولیس سسٹم جس ضابطے کا مرہون منت ہے وہ اْس کی حدود و قیود سے کبھی باہر نہیں گیا۔

کراچی جو کافی سالوں سے جرائم کا گڑھ تھا، بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ اور ڈکیتی کی وارداتیں عام تھیں۔ اب رینجرزآپریشن کے باعث گزشتہ چند ماہ سے اْس میں کافی ٹھہراؤ آ گیا ہے۔ لیکن پنجاب کا کیپٹل لاہور جو جرائم کے اعتبار سے کافی پرسکون سمجھا جاتا تھا۔ اس میں ہونیوالی حالیہ پے درپے ڈکیتی اور جرائم کی دیگر وارداتوں نے جہاں عوام الناس میں اضطراب پیدا کیا ہے وہاں انتظامیہ بھی فکرمند دکھائی دیتی ہے۔

شہری اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ سڑکوں پر ہی نہیں، اپنی اقامت گاہوں میں بھی محفوظ نہیں۔جرائم کی ابتداء ازل سے ہے اور ابد تک جرائم کو ہوتے رہنا ہے ۔ لیکن مناسب منصوبہ بندی اور قانون پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونے سے ان میں کمی ضرور لائی جا سکتی ہے۔ ہم مغربی معاشروں کیساتھ ساتھ سعودی عرب کی بھی مثال دے سکتے ہیں۔ جہاں قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہاں جرائم کا تناسب انتہائی کم ہے اور اگر کہیں کوئی جرم ہوتا بھی ہے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جرم کرنیوالا سزا سے بچ سکے۔ وہاں کا پولیس اور عدالتی سسٹم بڑا مضبوط اور مربوط ہے جس میں اقربا پروری، سفارش یا رشوت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پورے پاکستان میں اس وقت پولیس کیساتھ ساتھ جو عدالتی نظام موجود ہے۔ اس میں بہت سے نقائص ہیں ۔

جس کا اظہاراعلیٰ پولیس حکام اور چیف جسٹس آف پاکستان بھی بارہا کر چکے ہیں۔ حال ہی میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس منصور علی شاہ نے بھی بعض ایسے معاملات کی نشاندہی کی جس سے ظاہر ہوا کہ ہمارے ہاں فراہمی عدل کا سسٹم کتنا کمزور ہے؟ابتداء پولیس سے ہوتی ہے ۔ جہاں ایک ایف آئی آر درج کرانے کیلئے کسی بھی شخص کو نجانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔

ایف آئی آر درج ہو جائے تو اسکی تفتیش صحیح نہیں ہوتی۔ تفتیشی ”تفتیش“ میں اتنے قانونی سقم پیدا کر دیتا ہے کہ جس کا فائدہ ملزمان ٹرائل کورٹ میں اٹھاتے ہیں۔ انکی ضمانت ہو جاتی ہے یا مقدمات سے بری کر دئیے جاتے ہیں۔پولیس یا عدالتوں میں اب فرشتے تو نہیں آئیں گے؟ یہ تو ایک حقیقت ہے لیکن اس حقیقت سے قطع نظر ہمیں یہ ضرور سوچنا ہو گا اور فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم اپنے عدل کے سسٹم کو کب تک کمزور بنیادوں پر چلائیں گے؟ عدل کے اس نظام میں بہتری لانے کیلئے ہمیں اس معاشرے سے بہتر لوگوں کا انتخاب کرنا ہو گا۔

ایسے لوگوں کا انتخاب، جو میرٹ کی کسوٹی پر پورا اتر سکیں۔ ہمارے معاشرے میں اچھے لوگوں کی کوئی کمی نہیں۔ بس انہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ تلاش ہو جائے تو اْن کی بہتر تربیت بھی اتنی ہی ضروری ہو گی جتنی کسی زندگی کیلئے ہوا اور پانی کی ضرورت ہے۔ جب ”پازیٹو لوگ“ نظام عدل کا حصہ بن گئے تو ہم اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ ہمیں اس کیلئے جہادی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ نظام عدل میں سب سے پہلا کام تحقیق و تفتیش ہے۔ کسی جرم کی درست سمت میں صحیح تحقیق و تفتیش ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا نظامِ تفتیش یا نظام ِعدل لوگوں کو فراہمی انصاف میں ناکام رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Farahmi e Insaaf Zaroori Hai is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 December 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.