حقِ خود ارادیت و مودی یاترا !

پانچ جنوری کو دنیا بھر میں یومِ ”حق خود ارادیت“ کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے کیونکہ 1949 میں اسی دن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اتفاق رائے سے یہ قرار داد منظور کی تھی کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے استصواب رائے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔

منگل 5 جنوری 2016

Haq e Khud Iradiat o Modi Yatra
اصغر علی شاد:
پانچ جنوری کو دنیا بھر میں یومِ ”حق خود ارادیت“ کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے کیونکہ 1949 میں اسی دن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اتفاق رائے سے یہ قرار داد منظور کی تھی کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے استصواب رائے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ اس سے پہلے اگست 1948 میں بھی اسی ضمن میں ایک قرار داد منظور کی جا چکی تھی۔

اسی تناظر میں ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ اگر عالمی برادری کی موثر قوتیں اور بھارتی حکمران تعمیری روش کا مظاہرہ کریں تو مستقبل قریب میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کیمطابق تنازعہ کشمیر کا منصفانہ حل وہاں کے عوام کی خواہشات کیمطابق نکالا جا سکتا ہے خصوصاً مودی کے دورہ لاہور کے بعد بظاہر باہمی تعلقات کی صورتحال بھی کسی حد امید افزا قرار دی جا سکتی ہے۔

(جاری ہے)

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سارے منظر نامے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیا جائے۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مودی نے اپنی حلف وفاداری کی تقریب میں وزیر اعظم پاکستان کو مدعو کر کے ساری دنیا کو کسی حد تک چونکا دیا اور پاکستان کی جانب سے بھی بہت سے تحفظات کے باوجود اس پیش رفت کا مثبت جواب دیا گیا تھا مگر اسکے فوراً بعد مودی سرکار نے پچیس اگست 2014 کو طے شدہ خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات کو یک طرفہ طور پر جس طرح منسوخ کیا اس سے دہلی کے عزائم بڑی حد تک واضح ہو گئے تھے۔

اور پھر اپنے اقتدار کے ابتدائی چھ ماہ میں LOC اور ورکنگ باوٴنڈری پر اشتعال انگیز گولہ باری کو جاری رکھ کر بھارت نے صورتحال کو مزید کشیدہ کر دیا۔ یہ ایک الگ امر ہے کہ اپنی اسی پالیسی کے نتیجے میں مودی مہاراشٹر ، ہریانہ ، جھارکھنڈ اور مقبوضہ کشمیر کے صوبائی انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے مگر شاید وہ بھول گئے تھے کہ ا نہوں نے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی محض پاکستان دشمنی کے ایجنڈے پر حاصل نہیں کی تھی بلکہ بھارتی عوام سے اقتصادی خوشحالی کے وعدے پر وہ کامیاب ہوئے تھے جسمیں وہ کوئی پیش رفت نہ کر پائے تو دس فروری 2015 کو دہلی کی اسمبلی کے انتخابی نتائج نے BJP سرکار کو ہلا کر رکھ دیا۔

جب 70 میں سے 67 سیٹیں وہاں کی علاقائی جماعت ”عام آدمی پارٹی“ کے حصے میں آئیں مگر تب بھی مودی غالباً بھارتی عوام کے موڈ کو سمجھنے میں بڑی حد تک ناکام رہے اور انھوں نے اپنی ساری توانائی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کیخلاف پراپیگنڈے پر صرف کرنیکو ترجیح دی۔ مگر جب آٹھ نومبر کو بہار اسمبلی کے انتخابی نتائج میں 243 میں سے 52 سیٹیں BJP کے حصے میں آئیں اور 178 پر علاقائی جماعتوں RJD اور JDU جیت گئیں تو تب شاید انھیں خطرے کا احساس ہوا اور انھیں یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ شکست کا یہی سلسلہ جاری رہا تو BJP بھارتی داخلی سیاست میں عبرت کا نشان بن کر رہ جائیگی۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ستائیس نومبر 2014 کو کھٹمنڈو (نیپال) اور دس جولائی کو اوفا میں مودی نواز شریف ملاقات ہوئیں۔ مگر بہار کی شکست کے پس منظر میں موصوف نے تیس نومبر کو پیرس میں ہونیوالی ”کلائمیٹ چینج سمٹ“ میں پاک وزیر اعظم ”نواز شریف “ سے خود ملاقات کی۔ اگرچہ اس ملاقات کا دورانیہ محض 120 سیکنڈ پر مشتمل تھا مگر نتائج کے اعتبار سے یہ نہایت اہم ثابت ہوئی اور چھ دسمبر کو بنکاک میں دنوں ممالک کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ملے جسکے نتیجے میں نو دسمبر کو وزیر خارجہ ہند ”سشما سوراج “ اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیاء کانفرس میں شرکت کیلئے آئیں اور پاکستانی قیادت سے ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے مابین ”کمپری ہینسیو بائی لیٹرل ڈائیلاگ“ کی بحالی کی فیصلہ کیا گیا۔

اسکے بعد پندرہ دسمبر کو بھارتی فوجی سربراہوں کی کوچی میں منعقدہ سالانہ کانفرنس جسے ”کمبائنڈ کمانڈر کانفرنس “ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ کانفرنس پہلی بار دہلی سے باہر انڈین نیوی کے طیارہ بردار جہاز ”وکرم آدتیہ“ پر منعقد ہوئی تھی۔ ساڑھے تین گھنٹے کی اس کانفرنس کے دوران مودی نے اپنے فوجی کمانڈرز سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ” Engaging Pakistan to Try and Trun the Cousre of History “ کے الفاظ استعمال کیے۔

ظاہری طور پر یہ انکی روایتی حکمت عملی میں ایک بڑی تبدیلی کا غماز تھی اور پھر پچیس دسمبر کو کابل سے واپسی کے بعد جس طرح لاہور پہنچے۔ وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بھارتی داخلی سیاست کے طالب علم ہونے کے ناطے راقم کی رائے ہے کہ مودی پالیسی میں اس تبدیلی کے دو پہلو ہیں۔ ایک داخلی جسکے مطابق تین ماہ بعد اپریل میں بھارتی صوبوں ” آسام “ ، ” مغربی بنگال “ ، ”کیرالہ “، تامل ناڈو“ اور ”پانڈی چری“ میں صوبائی انتخابات ہونا طے ہیں جہاں پر مسلم آبادی کا تناسب بالترتیب 34.5 فیصد، 27 فیصد، 20 فیصد، 7 فیصد اور ساڑھے چھ فیصد ہے۔

مودی کو امید ہے کہ پاکستان کیساتھ بہتر تعلقات کی صورت میں ان صوبوں کے بھارتی مسلم ووٹر وں کی بڑی تعداد نے اگر BJP کے حق میں ووٹ نہ بھی دیا تو متحد ہو کر کم ز کم BJP کیخلاف ووٹ نہیں دیں گے۔ یوں BJP کی جاری شکستوں کا سلسلہ رک سکتا ہے اور اسکے کچھ ماہ بعد آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے بھارتی صوبے یو پی میں بھی BJP کی یہی حکمت عملی جاری رہ سکتی ہے۔

مودی اس عرصے کے دوران اب اپنی توجہ اقتصادی ایجنڈے پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں تا کہ اس ضمن میں کوئی نظر آنیوالی پیش رفت کر سکیں۔ دوسرے خارجی عوامل میں سر فہرست امریکہ ، روس اور چین سمیت موثر عالمی قوتوں کا مودی پر دباوٴ ہے۔ خاص طور پر تیرہ نومبر کو پیرس میں ہونیوالے دہشتگردی کے بعد ان ملکوں کا پریشر دہلی پر بہت بڑھ گیا ہے کہ وہ پاکستان کیجانب سے جاری آپریشن ضرب عضب میں رکاوٹ کا سبب نہ بنیں اور باہمی تعلقات میں نسبتاً بہتری لائیں۔

واضح رہے کہ مودی کی حالیہ تبدیلی کو کسی بھی طور حتمی یا مستقل قرار نہیں دیا جا سکتا البتہ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ کم از کم وہ یو پی الیکشن کے نتائج تک اس حکمت عملی کو جاری رکھیں گے البتہ اگر آنیوالے پانچ صوبوں اور یو پی میں انکو حسب خواہش نتائج نہ ملے تو وہ پاکستان کیخلاف دوبارہ محاذ آرائی اور مہم جوئی کی پالیسی اختیار کرنے میں ذرا سا بھی تامل نہیں کرینگے ۔

ایسے میں پاکستان کیلئے غالباً یہ طرز عمل اپنانا بہتر ہو گا کہ وہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے نسبتاً محتاط اور متوازن لائحہ عمل اپنا کر بھارت کیساتھ باہمی تعلقات میں پیش رفت کرتا نظر آئے اور اپنی ساری توجہ پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل اور آپریشن ضرب عضب کی کامیابی پر مرکوز کرے تا کہ بھارتی رویہ میں تبدیلی کی اس مہلت سے خاطر خواہ ڈھنگ سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔

علاوہ ازیں پاکستان مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کیساتھ ساتھ ” عمر عبداللہ “ اور ” محبوبہ مفتی “ کیساتھ بھی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی جانب متوجہ ہو کیونکہ اٹھائیس نومبر کو فاروق عبداللہ نے بھارتی ٹی وی چینل ” NDTV “ کو دیئے اپنے انٹر ویو میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ دہلی سرکار مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنی پارلیمنٹ میں منظور ایک قرار داد کا تو بار بار ذکر کرتی ہے مگر جموں کشمیر کے حوالے سے منظور کردہ اقوام متحدہ کی بہت سی قرار دادوں کا نام تک نہیں لیتی “۔

ان کی اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کی جانب سے خاطر خواہ ڈھنگ سے پیش رفت ہو تو کشمیر کے دیرینہ تنازعہ کے حل کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔ یومِ حق خود ارادیت کے موقع پر توقع کی جانی چاہیے کہ عالمی برادری اور پاکستانی سول سوسائٹی و میڈیا بھی اپنا قومی کردار ادا کریگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Haq e Khud Iradiat o Modi Yatra is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 January 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.