ہوئے ”وہ“ دوست جس کے۔۔

امریکہ پاکستان کا روایتی ”دوست“ ہے جس کے بارے میں حضرت اسد اللہ خاں غالب ڈیڑھ صدی پہلے کہہ گے ہیں ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟۔ 13 مئی2016 کو پاکستان کوفوجی امداد دینے سے متعلق امریکی ارکانِ کانگریس کے تحفظات سامنے آئے

جمعرات 2 جون 2016

Hue Wo Dost Jiss K
محسن فارانی:
امریکہ پاکستان کا روایتی ”دوست“ ہے جس کے بارے میں حضرت اسد اللہ خاں غالب ڈیڑھ صدی پہلے کہہ گے ہیں ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟۔ 13 مئی2016 کو پاکستان کوفوجی امداد دینے سے متعلق امریکی ارکانِ کانگریس کے تحفظات سامنے آئے اور اگلے روز امریکی محکمہ خارجہ کی عہدیدار الزبتھ ٹروڈیو نے کہ دیا کہ ”پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے۔

امریک اس ضمن میں پاکستان پر اپنا نقطہ نظر واضح کر چکا ہے اور اسلام آباد کو پتہ ہے کہ اسے کیا کرنا ہے“ اور گزشتہ ہفتے امریکی سینٹ نے ایک قرار داد کے ذریعے فوجی امداد کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی اور شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کر دیا ہے۔
یہ ہے ”پاک امریکہ دوستی“ کے نئے دور کا ڈراپ سین جس کے متعلق مشیر خراجہ سرتاج عزیز نے تسلیم کیا ہے کہ ”پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات 3ماہ سے سرد مہری کا شکار ہیں۔

(جاری ہے)

“اس سر دمہری کے پیچھے حقانی نیٹ ورک کے علاوہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا وہ مکر وہ کردار بھی ہے جس نے بلال ٹاون ایبٹ آباد میں ویکسینیشن کی جعلی مہم چلا کر اسامہ آپریشن کے لیے امریکہ کی مدد کی تھی اور امریکہ اپنے اس اہم ترین ایجنٹ کو رہا کروانے اور حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کو ایف 16 طیاروں کی سپلائی روک کر اسلام آباد پر دباو ڈال رہا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کر بھی نے افغانستان میں امریکی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان اور حقانی نیٹ ورک پرڈالتے ہوئے کہا ہے ”پاکستان اور افغانستان کو دہشت گرد نیٹ ورک کے خطرے کا سامنا ہے۔ دہشت گرد آج بھی دونوں ممالک کو محفوظ پناہ گاہو کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور دہشت گرد گروپوں کی وجہ ہی سے افغانستان میں امریکی فوج آج بھی موجود ہے۔


امریکہ نے افغانستان سے روس کی رسوا کن پسپائی بھلا کر سانحہ نائن الیون کی آڑ میں افغانستان پرجو ننگی جارحیت کی اور آج پندرہ سال بعد بھی واشنگٹن کو مہنگی پڑ رہی ہے۔ طالبان امریکی کٹھ پتلی اشرف غنی کی حکومت کو ٹکنے نہیں دے رہے اورصدر اوباما کے افغانستان سے انخلاء کے اعلان کے باوجود امریکہ اپنی دس ہزار فوج ابھی تک وہاں پھنسائے ہوئے ہے ۔

اس دوران میں وہاں دو اڑھائی ہزار امریکی فوجی مارے گے ہیں اور دسیوں ہزاروں زخمی ہوئے۔ خود کردہ را علاجے نیست۔ تاہم امریکی کس قدر ڈھنائی سے پاکستان اور حقانی گروپ کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں جبکہ مولانا جلا ل الدین حقانی کی تنظیم سے پاکستان کو ہرگز کوئی خطرہ نہیں۔ پاکستان نے وزیرستان میں دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی کے خلاف کامیاب آپریشن کیا ہے لیکن امریکی ڈومور مطالبے پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کسی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں جبکہ امریکہ طے شدہ اسلحے کی فراہمی روک کر دباو ڈالنے کے ہتھنکڈے استعمال کر رہا ہے۔

اب پینٹا گان نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے بجائے پاکستان کے لیے80 کروڑ ڈالر کے خصوصی فنڈ کا اعلان کیا ہے جس کے لیے وہ کڑی شرائط وہی ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔
امریکی ترجمان کا کہنا ہے کہ”پاکستان سے امریکہ کے تعلقات اہم اور ضروری ہیں جو بعض اوقات پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔“ لیکن اس پیچیدگی کے پیچھے ساٹھ ستر سال کی امریکی عیاریاں اور وعدہ خلافیاں ہیں ۔

پاک امریکہ تعلقات وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ 1950 سے استوار ہوئے تھے۔ اس وقت ری پبلکن صدر ٹرومین کا دور تھا۔ اگلے ری پلکن صدر جنرل آئزن ہاور کے عہد (1953-60) میں پاکستان امریکہ ساتھ دفاعی معاہدوں سینٹو اور سیٹو میں شامل ہوا۔ 1959 میں صدر جنرل ایوب نے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ فوجی تعاون کا ایک معاہدہ کیا۔ اس دوران میں پاکستان کو امریکی پٹین ٹینک، لڑاکا ایف 86 سیبرجیٹ اور سی 130 ہر کو لیس طیارے ملے اور امریکہ کو بڈبیر نزد پشاور کا فضائی اڈا دیا گیا جہاں سے اڑنے والا یوٹو جاسوس طیارہ 30اپریل 1960 کو روس نے اپنی فضائی میزائل داغ کر گرالیا، تب روسی لیڈر نکیتا خروشیف نے دھمکی دی کہ انہوں نے پشاور کے گرد سرخ نشان لگا لیا ہے۔

اس کے باوجود امریکہ کے ڈیمو کریٹک صدر لنڈن بی جانسن (1963-69)نے پاکستان کی فوجی امداد جنگ ستمبر 1965 کے وقت بند کر دی اوردفاعی معاہدے دھرے کے دھرے رہ گے۔ پھر 1971 میں بھی دفاعی معاہدے پاکستان کے کسی کام نہ آئے اور امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا خلیج بنگال پہنچنا تھا نہ پہنچا، البتہ ری پبلکین امریکی صدر نکسن کا یہ دعویٰ ضرور سامنے آیا کہ انہوں نے سقاط ڈھاکہ کے بعد روس کو انتباہ کرک ے اندرا گاندھی کو مغربی پاکستان پر یلغار کرنے سے باز رکھا۔

شاید اس لیے کہ پاکستان نے جون 1971 میں امریکی مشیر قومی سلامتی ہنری کسنجر کے خفیہ دورہ چین کا بندوبست کر کے امریکہ چین تعلقات کی راہ ہموار کی تھی۔
اس کے بعد فوجی معاہدے ختم ہو گے اور بھٹو دور میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی خبر نکلی تو امریکہ نے پاکستان کی ہر نوع کی امداد بند کر دی۔ ی ڈیمو کریٹک صدر جمی کارٹر کا دور تھا۔ پھر دسمبر 1979 میں سوویت روس افغانستان پر حملہ آور ہو اور کارٹر نے صدر جنرل ضیاء الحق کو 40 کروڑ ڈالر کی دفاع امداد پیشکش کی تو صدر ضیاء نے اسے مونگ پھلی کہ کر ٹھکرا دیا۔

آخر کار جنوری 1981 میں ری پبلکن صڈر رونا لڈریگن وائٹ ہاوس میں داخل ہو ا تو اس نے 3ارب 20کروڑ ڈال کا پیکج پیش کر دیا جس کے تحت پاکستان کو 40 ایف 16 طیارے ملے۔ پر امریکی صدر ہر سال کا نگرس میں یہ سرٹیفکیٹ پیش کرتا رہا کہ اس کے علم کی حد تک پاکستان ایٹمی اسلحہ تیار نہیں کررہا جو کہ پاکستان دراصل دسمبر 1984 تک تیار کر چکا تھا اس دوران میں افغان امریکہ نے پاکستان کو دیے جانے والے مزید ایف 16 طیاروں کی کھیپ روک لی جن کے لیے پاکستان تقریباََ 70 کروڑ ڈالر ادا کر چکا تھا ۔

مئی 1998 میں 5 بھارتی ایٹمی ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان 6ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا جبکہ صدر کلنٹن نے وزیراعظم میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے ذاتی اکاونٹس میں دس دس کروڑ ڈالر جمع کرانے کی پیشکش کے ساتھ پاکستان کو خطیر دفاعی امداد دینے کی یقین دہانی کرائی کرائی تھی مگر میاں صاحب نے اسے ٹھکرادیا تھا۔ اس کے بعد اکتوبر 1999 میں جنرل مشرف گن پوائنٹ پر نواز شریف کو برطرف کر کے پہلے چیف ایگز یکٹو اور پھر صدر مملکت بن بیٹھے تو پاک امریکہ تعلقات میں مزید سرد مہری آگئی۔

اس دوران میں جنوری 2001 میں کڑصلیبی ری پبلکن صدر جارج بش جو نیئر وائٹ ہاوس میں براجمان ہوچکا تھا اور پھر”بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا“ کے مصداق سانحہ نائن الیون برپا ہوا تو افغانستان پر حملے کے لئے امریکہ کے ساتوں ناجائز مطالبات جنرل مشرف نے مان لیے ادریوں امریکی خوشنودی حاصل کرلی۔ مشرف نے ملک کے ہوائی اڈے اور شاہراہیں فوجی رسل اور سائل اور افغانستان پر بمباری کے لیے پیش کر دیے اس کے بعد مشرف واشنگٹن کی آنکھ کے تارے بنے فخر سے کہتے تھے کہ میں جب چاہوں فون اٹھا کر صدر بش سے بات کر لیتا ہوں۔

اس دوران میں پاکستان کو ”سپورٹ فنڈ“ کے تحت محدود مالی و فوجی امداد بھی ملی لیکن مطلب نکل جانے کے بعد ایک بار پھر ڈیمو کریٹک صدر اوباما نے آنکھیں پھیر لی ہیں اور ایف 16 طیاروں کی فراہم کا نیا وعدہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ پاکستان سے بار بار بے وفائی کرنے والا امریکہ بھارت سے سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی کا معاہدہ کرچکا ہے مگر پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے سے مسلسل انکاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Hue Wo Dost Jiss K is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 June 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.