کالا باغ ڈیم اور صحرا کے نواب

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک عرصہ قبل کہہ دیا تھا کہ دنیا میں آئندہ جنگیں پانی پر ہونگی۔ ان کا کہنا تھا کہ پانی ذخیرہ کرنے کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کو خوشحال بنایا جا سکتا ہے ۔ اگر ایسانہ ہوا تو پاکستان ریگستان میں تبدیل ہوتا چلا جائیگا

منگل 9 اگست 2016

Kala Bagh Dam
عزیز ظفر آزاد:
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک عرصہ قبل کہہ دیا تھا کہ دنیا میں آئندہ جنگیں پانی پر ہونگی۔ ان کا کہنا تھا کہ پانی ذخیرہ کرنے کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کو خوشحال بنایا جا سکتا ہے ۔ اگر ایسانہ ہوا تو پاکستان ریگستان میں تبدیل ہوتا چلا جائیگا۔ کالاباغ ڈیم کے حوالے سے ایک موقع پر مدیر اردو ڈائجسٹ جناب الطاف حسن قریشی نے صوبہ سرحد کے اختلاف کے بارے میں بتایا کہ واپڈا کے ایک عمومی سروے کے دوران نوشہرہ شہر اور گردو نواح میں 1929ء میں آنے والے سیلاب کے حوالے سے نشانات لگائے گئے۔

لوگوں کی تشویش پر محکمے نے خاموشی اختیار کی تو وہاں کے علاقائی سیاست دانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ کالا باغ ڈیم بنا تو نوشہرہ تک ڈوب جائیگا۔

(جاری ہے)

قریشی صاحب نے بتایا کہ جنرل فضل حق گورنر صوبہ سرحد سے کالا باغ ڈیم پر اختلاف کی بابت پوچھاتو انھوں نے بتایا کہ ہم اس آبی ذخیر ے سے اپنے صوبے کیلئے نہر چاہتے تھے۔ وفاقی حکومت اس حوالے سے بات کرنے کو تیار نہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے موقف میں سختی آتی گئی اور کالا باغ ڈیم متنازعہ ہوتا گیا۔

معروف ماہر آبی وسائل اور سابق چیئر مین واپڈا جناب شمس الملک نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں نے بیس برس پہلے ہی بتایا کہ کالا باغ ڈیم ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اسے جتنی جلدی بنا لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ کالا باغ ڈیم نہ بنانے کی وجہ سے ہم موسم برسات میں شدید بارشوں کے باعث سیلاب کے شکار ہوتے ہیں اور بعض علاقے کم بارشوں کے سبب خشک سالی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

شمس الملک نے بتایا کہ حکمران جمہوری ہوں یا فوجی سب سیاسی مصلحتوں کا شکار رہے۔ کسی نے جرات سے معاملات سلجھانے کی جسارت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی اس معاملے میں ہوش کے ناخن نہ لئے گئے ، تو پاکستانی عوام کے مقدر میں بوند بوند کو ترسنا اور سیلاب میں ڈوبنا ہی ہوگا اور بجلی کا استعمال تو عوام الناس کی دسترس سے دور ہوگا۔ زراعت و صنعت مزیدزوال پذیر ہوتی چلی جائیگی۔

اب تو میرے صوبے والے بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ میں دو تین عشرے پہلے جو کہتا تھا آج درست ثابت ہو رہا ہے۔ اس لئے میں نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا۔حال ہی میں واپڈا کے موجودہ چیئر مین جناب ظفر محمودنے کالا باغ کے حوالے سے 26اقساط پر مشتمل بڑے موثر اور قابل عمل کالم تحریر کئے جس میں ڈیم کی تعمیر کے حامی اور مخالف قوتوں کو باوقار طریقے پر یکجا کرنے کی ایک کوشش کی جسکے لئے وہ تحسین کے مستحق ہیں۔

انکی تحریر میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے فوائد کے ساتھ ساتھ ان تمام سوالوں کے جواب بھی ہیں جو اس کے مخالفین اٹھاتے ہیں۔مگر افسوس وفاق کی دعویدار پیپلز پارٹی کے پارلیمانی ارکان نے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی بجائے اسکی بلا سوچے سمجھے مخالفت کا علم بلند کر دیا۔ عمر کوٹ اور تھرپارکر سے منتخب ہونیوالے ممبر قومی اسمبلی یوسف تالپور جو کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بجلی و پانی کے رکن بھی ہیں نے صرف اسمبلی میں ہی اس کی مخالفت نہیں کہ بلکہ ایک روزنامہ میں اس پر مضمون بھی جڑ دیا ۔

یوسف تالپور نے اپنے مضمون میں تصویرکے دوسرے رخ کا ذکر کیا۔ حالانکہ کالاباغ ڈیم تصویر نہیں ایک حقیقی طور پر مسائل کے حل کا نام ہے۔ نواب صاحب 1960 کے سندھ طاس واٹر ٹریٹی کے ذمہ داروں کو گنہ گار اور سزاوار قرار نہ دینے کا طعنہ دیتے ہیں۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اس معاہدے کے ذمہ داروں میں صدر جنرل ایوب کے بعد جناب ذوالفقارعلی بھٹو کا نام آتا ہے۔

محترم نواب صاحب اہل پنجاب پرچشمہ رائٹ کینال کے حوالے سے بد عہدی کا الزام لگاتے ہوئے بد اعتمادی کا بار بار اظہار کرتے ہیں اور اس نہر پر ٹیل پر بسنے والوں کا حق مقدم قرار دیتے ہیں اور اسکے کنٹرول کا حق صوبہ سندھ کا فرماتے ہیں جبکہ شواہد کے مطابق پنجاب کے گورنر مصطفی کھر نے گورنر سندھ ممتاز بھٹو سے ایک معاہدے میں یہ حق ایک سال کیلئے عارضی طور پر صوبہ سندھ کو دیا۔

اگر ایسا نہیں ہے اور تالپور صاحب کا دعوی درست ہے تو انہیں اس معاملے کو عدالت عظمی سے رجوع کرکے وضاحت طلب کرلینی چاہیے تھی ۔ نواب صاحب نے کالا باغ ڈیم اور بھاشا ڈیم کے اخراجات کے اعداد و شمار درج کئے ہیں اس سے ان کی سنجیدگی اور معاملہ فہمی کا بھرم کھل جاتا ہے اور قومی اسمبلی کی کمیٹی کی فعالیت بھی فاش ہو جاتی ہے ۔ اتنی اہمیت کے حامل اور حساس قومی مسائل اتنے غیر ذمہ دار افراد کے سپرد ہونگے تو قوم لوڈشیڈنگ اور قرضوں کے بوجھ تلے کیوں نہیں دبے گی ؟ آپ قومی خدمات کیا سرانجام دیں گے اپنے علاقہ کے غریب اور نادارلوگوں کیلئے پورس کے ہاتھی ثابت ہورہے ہیں۔

آپکی بے تدبیری اور عدم دلچسپی کے نتیجے میں ہر سال ایک طرف خشک سالی کے باعث سینکڑوں بچے موت کی وادی کی جانب منتقل ہوجاتے ہیں دوسری جانب سیلاب ان کے کھیت کھلیان ویران اور گھر بازار اندھیروں میں ڈبو دیتا ہے مگر ان ہی کے افلاطون نمائندے ان کی خوشحالی کے راستے میں حائل ہیں۔پا کستانی عوام کوجب تک ووٹ کے تقدس کا شعور نھیں ہو گا حالات نھیں بدلیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kala Bagh Dam is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 August 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.