کراچی آپریشن

مزید اقدامات کی ضرورت۔۔۔ کراچی آپریشن سے پہلے تو عام شہریوں کی عزت ،جان ،مال کچھ بھی محفوظ نہیں تھا لیکن اب کبھی کبھار دہشت گرد بوکھلاہٹ میں کبھی رینجرز‘ کبھی ملٹری پولیس اور کبھی ٹریفک و عام پولیس پر حملے کرتے ہیں۔

پیر 7 مارچ 2016

Karachi Operation
رحمت خان وردگ :
کراچی آپریشن سے پہلے تو عام شہریوں کی عزت ،جان ،مال کچھ بھی محفوظ نہیں تھا لیکن اب کبھی کبھار دہشت گرد بوکھلاہٹ میں کبھی رینجرز‘ کبھی ملٹری پولیس اور کبھی ٹریفک و عام پولیس پر حملے کرتے ہیں۔ اب کراچی میں عوام کو سیکورٹی فراہم کرنیوالے خود بھی محفوظ نہیں۔ کراچی میں گزشتہ 3 سال سے آپریشن جاری ہے۔ اس سے قبل بدامنی کیس میں بدامنی کے کئی پہلو سامنے آئے جس میں کراچی پر قبضے کی جنگ کی نشاندہی ہوئی اور کراچی میں بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرز‘ لینڈ مافیا‘ ڈرگ مافیا اور سیاسی مافیاز موجود ہونے کی وجہ سے بدامنی کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہاتھا۔


کراچی میں کاروبار ی افراد بہت زیادہ غیر محفوظ تھے اور آئے روز بھتہ کی پرچیاں و اغواء کی وارداتیں عام تھیں جن کا سلسلہ کچھ عرصے کیلئے رک گیا تھا مگر ایک بار پھر بھتے کی پرچیوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور شیرشاہ کباڑی مارکیٹ و پاک کالونی میں بھتہ خوروں نے تاجروں پر حملے بھی کئے ہیں۔

(جاری ہے)

اس سلسلے میں تحقیقاتی اداروں کا کہنا ہے کہ بھتہ کیلئے فون کالز غیر ملکی نمبروں سے آتی ہیں اس لئے موثر کارروائی زیادہ مشکل ہے۔

اس صورتحال میں کاروباری افراد کو تحفظ کس طرح مل سکتا ہے؟ اگر غیر ملکی نمبروں سے بھتہ کی کالز آتی ہیں تو انٹرپول کے ذریعے تیز کارروائی ہونی چاہئے تاکہ کراچی میں خوف و ہراس پھیلانے والوں کو لگام دی جاسکے۔ چند کاروباری افراد نے یہ بھی کہا ہے کہ بھتہ کی پرچی آنے پر جب ہم نے پولیس و سیکورٹی اداروں سے رابطہ کیا توانہوں نے کارروائی کی یقین دہانی کرائی مگر مجرموں کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی اسی لئے خوف و ہراس کا شکار ہیں۔


کراچی آپریشن کے بارے میں اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ بھتہ خوری و ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ سیکورٹی اداروں کا دعویٰ اپنی جگہ مگر گرفتار کئے گئے افراد اس وقت تک ”ملزم“ رہیں گے جب تک ان پر عدالتوں میں جرم ثابت نہیں کردیا جاتا۔ چند لوگوں کی جانب سے بے گناہوں کی گرفتاریوں کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں اس لئے گرفتار افراد پر تیز رفتار تفتیشی عمل سے باقاعدہ جرم ثابت ہونا چاہئے ورنہ بے گناہوں کو بلاوجہ گرفتار رکھنا ظلم بھی ہے اور اس کا شدید ترین ردعمل بھی آتا ہے۔


بدقسمتی یہ ہے کہ ہزاروں افراد کی سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتاری کے باوجود اب تک کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جس کو عدالتوں سے باقاعدہ ”سزا“ ہوئی ہو۔ جب تک سنگین جرائم کے مجرموں کو قرار واقعی سزا نہیں ملے گی اس وقت تک معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کا مورال بلند ہی رہے گا۔ کراچی میں ججوں کے ساتھ ساتھ تفتیشی افسران اور گواہوں کو تحفظ حاصل نہیں اس لئے روایتی ٹرائل ناممکن سی بات ہے جس کی وجہ سے سنگین جرائم میں ملوث افراد بے دھڑک جرائم کرتے پھرتے ہیں۔

کراچی میں مستقل امن کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ ہر ضلع میں خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں جو بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کا جیل میں ہی ٹرائل کرکے انکے مقدمات کا فیصلہ ہر صورت ایک ہفتے کے اندر اندر کرنے کی پابند ہوں۔ جیل میں مجرموں کے ٹرائل کے دوران ہر صورت میں ججوں‘ تفتیشی افسران اور گواہوں کی شناخت پوشیدہ رکھی جانی چاہئے کیونکہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو کوئی بھی تفتیشی افسر سنگین مجرموں کے مقدمات کی تفتیش کیلئے تیار ہی نہیں ہوگا اور نہ ہی ان افراد کے جرائم سے مکمل طور پر آگاہ و عینی شاہدین کبھی گواہی دینے پر آمادہ ہونگے۔


سپریم کورٹ کو کراچی بدامنی کیس میں مبہم ہدایات دینے کی بجائے باقاعدہ کراچی میں بدامنی کے ذمہ داروں کے نام لیکر فیصلے دینے چاہئیں اور پولیس و انتظامیہ میں موجود کرپٹ و جرائم پیشہ افراد کے سرپرستوں کیخلاف بھی سپریم کورٹ فوری فیصلے کرے۔ سپریم کورٹ کو چاہئے کہ عدالتی حکم پر ہٹائے گئے نااہل پولیس افسران کی دوبارہ تعیناتی کے ذمہ داروں کیخلاف بھی موثر فیصلہ دے کیونکہ کراچی میں بہت سے موثر اقدامات و دلیرانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔

روایتی فیصلوں سے کراچی میں اسی طرح سے چند ماہ کا عارضی امن تو قائم کیا جاسکتا ہے لیکن مستقل امن قائم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
گزشتہ روز یہ خبر بھی سامنے آئی کہ وفاق نے سندھ سے جن سینئر پولیس افسران کو وفاق میں فرائض کی انجام دہی کیلئے منتخب کیا تھا انہوں نے وفاق میں خدمات انجام دینے سے انکار کردیا ہے کیونکہ سندھ میں وہ اپنے اختیارات کے ذریعے ”مال“ بنانے میں مصروف ہیں جبکہ وفاق میں خدمات کی انجام دہی میں جوابدہی بہت زیادہ اور آمدنی نہ ہونے کے برابر ہوجائیگی اسی لئے وفاق میں خدمات انجام دینے کیلئے افسران نے سندھ میں ہی رہنے کو ترجیح دی ہے۔

رینجرز کی جانب سے صرف کراچی میں آپریشن کیا جارہا ہے جبکہ باقی ماندہ سندھ میں تو کسی قسم کا آپریشن نہیں ہورہا اسی لئے پولیس افسران کراچی کے بجائے سندھ کے دیگر شہروں میں اپنی تعیناتی کو ترجیح دیتے ہیں۔
رینجرز کے ذریعے پورے سندھ میں آپریشن ہونا چاہئے اور سندھ بھر میں ایسے راشی پولیس و انتظامی افسران کے خلاف کارروائی ضروری ہے جو جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں۔ رینجرز کو کراچی میں ایک بار پھر جرائم کی شرح میں اضافے پر توجہ دینی ہوگی۔ اس لئے مزید تیزی سے آپریشن کی ضرورت ہے اور جن پولیس اسٹیشنوں کی حدود میں واقعات ہورہے ہیں وہاں پولیس افسران سے بازپرس ہونی چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Karachi Operation is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 March 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.