کراچی صوبے کا مطالبہ۔۔کالا باغ ڈیم حمایت مہم

کراچی کے ضمنی انتخابات متحد قومی موومنٹ نے اور نوشرو فروز کا انتخابی معرکہ پیپلز پارٹی نے جیت لیا ہے۔ پی پی اور ایم کیو ایم کے مخالفین انہیں شکست دینے میں ناکام رہے ۔ کراچی میں ٹرن آوٹ ساڑھے آٹھ فیصد رہا جبکہ نوشہرو فیروز میں بھی صورتحال قابل رشک نہ تھی

بدھ 15 جون 2016

Karachi Sobe Ka Mutaliba
الطاف احمد خان مجاہد:
کراچی کے ضمنی انتخابات متحد قومی موومنٹ نے اور نوشرو فروز کا انتخابی معرکہ پیپلز پارٹی نے جیت لیا ہے۔ پی پی اور ایم کیو ایم کے مخالفین انہیں شکست دینے میں ناکام رہے ۔ کراچی میں ٹرن آوٹ ساڑھے آٹھ فیصد رہا جبکہ نوشہرو فیروز میں بھی صورتحال قابل رشک نہ تھی۔یہاں مجموعی ووٹ ایک لاکھ 35 ہزار 587 ہزار سے زائد اور ن لیگ کے حمایت یافتہ عارف مصطفی جتوئی نے 28 ہزار سے زائد حاصل کئے۔

گویا نصف سے زائد رائے دہندگان تو پولنگ اسٹیشن ہی نہیں پہنچے۔ یہاں متحدہ قومی موومنٹ نے وفاق میں حکمران مسلم لیگ ن کی سپورٹ کا اعلان کیا تھا جبکہ 2013 میں متحدہ خود یہان سے امید وار تھی اور اس کے امیدوار کو 5 ہزار ووٹ بھی ملے تھے ۔ کراچی میں متحدہ کے محفوظ یار خان اور قمر عباس نے پی ٹی آئی، جے یو آئی اور پاسبان کے امیدواروں کو ہرایا۔

(جاری ہے)

جماعت اسلامی ، جو کراچی میں کو متحدہ کا سب سے بڑا حریف ظاہر کارتی ہے اس لیکشن سے دور رہی۔ ن لیگ نے جے یو آئی کی حمایت کر دی اور پاسبان کراچی صوبے کا مطالبہ لے کر میدان میں آئی تھی لیکن اس انتخابی منشور پر بھی لوگوں کو اپنی سمت راغب نہ کر سکتی حالانکہ کراچی کی اردو اسپیکنگ آبادیوں میں یہ مطالبہ گوکہ ماضی کی طرح دلکش نہیں رہا لیکن پھر بھی پذیرائی پاسکتا ہے ۔

محفوظ یار خان ماضی میں درجن بھر الیکشن ہار چکے تھے کہ تحریک استقلال سے عوامی مسلم لیگ تک کے پلیٹ فارم استعمال کئے لیکن اس بار متحدہ کا جادو جتا گیا انہیں 18 ہزار سے زائد ووٹ ملے۔ سیاسی مجبوریاں اپنی جگہ متحدہ اپنے حامیوں اور حریفوں کا تعین ہنوز نہیں کرپائی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک بار پھر وہ 85 کی حکمت عملی اپنا رہی ہے جب اس نے مہاجر قومیت کا نعرہ بلند کیا تھا۔

اب اطلاعات ہیں کہ وہ عید کے بعد کراچی صوبے کا مطالبہ لے کر عوامی رابطہ مہم چلانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ متحدہ کے لیڈر فاروق ستار نے حال ہی میں ایک بار پھر کہا ہے کہ منصفانہ مردوم شماری ہوئی تو سندھ کا آئندہ وزیر اعلیٰ متحدہ کا ہوگا جس پر سندھی قوم پرست برہم ہیں اور بعض حلقے اسے ناقابل قبول بھی قرار دیتے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی ہے کہ سندھ میں پی پی کے مخالفین بھی ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ نئے چہروں کی رونمائی کرنے والے ہیں۔

حال ہی میں تبدیلی پسندموومنٹ کے قائد علی قاضی نے جو سندھ کے ایک سیاسی خاندان سے تعلق ہونے کے ساتھ ساتھ موثر میڈیا گروپ بھی رکھتے ہیں ،سکھر میں اپنے موقف کے حامیوں کو جمع ہونے کی کا دی ہے۔ اس سے قبل وہ بھٹ شاہ میں بھی ایک اجتماع کر چکے ہیں جہاں قابل ذکر لوگ جمع نہیں ہو سکتے تھے۔ ماضی میں ماروی میمن بھی ان کے ساتھ تھیں جو آج کل ن لیگ کا حصہ ہیں۔

قیاس آرائیاں یہ ہیں کہ متحدہ کا نئے صوبے کا مطالبہ تبدیلی پسندوں کا پی پی کے خلاف مورچہ ار پیر پگارہ کی زیر قیادت سیاسی اتحاد اور سندھی قوم پرست جب الگ الگ میدان میں آئیں گے تو اسی دوران کالا باغ ڈیم کی حمایت میں ایک بھر پور مہم شروع ہو چکی ہو گئی۔” کچھ لو کچھ دو“ کی بنیاد پر مفاہمتی سیاست کی مذاکراتی ٹیبل سجائی جائے گی اور ممکن ہے کہ ایسے مرحلے پر متحدہ قوم موومنٹ اپنی صفوں سے کسی سندھی اسپیکنگ کا نام بطور وزیراعلیٰ پیش کر دے ۔

ایسی صورت میں قادرمگسی، جلال محمود شاہ اور ایاز لطیف پلیجو کیا کریں گے؟ یہ سوال بعض محفلوں میں ایک اور انداز سے بھی اٹھایا گیا لیگ فی الوقت تویہ سازشی تھیوریاں ہیں البتہ آگے چل کر مقتدر حلقوں کی زنبیل سے کچھ بھی برآمد ہو سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں جیکب آباد کا انتخابی معرکہ بھی پی پی کے مخالفین کے لیے ٹیسٹ کسی وہ سکتا ہے۔ یہ نشست پی پی کے سردار مقیم کھوسہ کے انتقال کے بعد خالی ہوئی۔

اس پر الیکشن رمضان ہی میں ہوگا اور توقع یہ ہے کہ ماضی میں 2 بار پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر اسے داغ مفارقت دے جانیوالے سردار منظور پنہور کے صاحبزادے زیب پنہور الیکشن جیت جائیں گے لیکن عمومی تاثر یہ ے کہ پی پی مقیم کھوسہ کے متعلقین کو بھی کسی نہ کسی منصب سے نواز دے گی کہ وہ جیکب آباد میں اسلم ابڑوکو ریلیف نہیں دینا چاہتی جو ن لیگ کے پلیٹ فارم سے صوبے میں حکمران جماعت کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں لیکن یہ سب کچھ جیکب آباد سٹی کی سطح پر ہے۔

مختلف اضلاع میں مختلف بااثر خاندان پی پی کے لیے مسئلہ ہیں لیکن آصف زرداری کی کوشش ہے کہ اندرون سندھ پی پی کے مخالف بااثر سیاستدانوں کو مفاہمتی سیاست کے تحت پیپلز پارٹی میں شمولیت کی آفر کی جائے۔ کراچی میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب وزیرمملکت عبدالحکیم بلوچ بھی وزارت سے استعفیٰ دے چکے ہیں اور ان کے قریبی حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر پی پی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں جبکہ بدین، ٹھٹھہ ، تھر، نوشہرو فیروز، سانگھڑ اور مٹیاری اضلاع میں بھی انفرادی رابطے جاری ہیں۔ مٹیاری میں مخدوم امین فہیم مرحوم فیملی کے سیاسی مخالف پیرپگارا گروپ کے حامی جاموٹ خاندان میں کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور اس ضلع میں کوئی خوش خبری جیالوں کو مل سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Karachi Sobe Ka Mutaliba is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 June 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.