خود کش حملہ۔۔۔مولانا کا وزیراعظم اور اداروں سے نوٹس لینے کا مطالبہ

ایک عینی شاہدکے مطابق مولانا فضل الرحمن کی گاڑی جب باہر آئی تو18سال کی عمرکاایک نوجوان جس نے سفیدکپڑااپنے سرسے لپیٹاتھا اس نے گاڑی کے آگے آ کراپنے آپ کواڑادیا۔جائےوقوعہ سے حملہ آور کاسرنہیں ملا تاہم پولیس کے مطابق حملہ خودکش تھا

جمعرات 30 اکتوبر 2014

KhushKash Hamla Molana Ka Wazir e Azam Or Idaroon Se Notice Lene Ka Mutaliba
ایم ریاض:
جمعیت علماء اسلام کے امیرمولانافضل الرحمن پاکستانی سیاست میں ایک ممتازحیثیت کے حامل ہیں جن کی جماعت مختلف ادوارمیں ملک کی کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحادیا حزب اختلاف میں رہی ہے۔ جے یوآئی (ف)ایک ایسی جماعت جسے ملک کے مختلف حصوں میں بیک وقت مذہبی و سیاسی حیثیت حاصل ہے اپنے نظریات کے باوجود مولانا فضل الرحمن پاکستان کی قومی سیاست میں لچک اورمفاہمت کے رویے کی شہرت رکھتے ہیں۔

صوبہ خیبرپختونخوا(اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبہ )کے وزیراعلی مولانامفتی محمودکے صاحبزادے ہونے کے ناطے یوں تواوائل عمری سے ہی وہ سیاست سے وابستہ رہے ہیں تاہم ان کی پارلیمانی سیاسی زندگی کا آغاز1988 سے ہوا جب وہ اپنے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے 63ہزارووٹ لے کرقومی اسمبلی کے رکن بنے2002کے عام ا نتخابا ت میں ان کی جماعت صوبہ خیبرپختونخوا میں برسراقتدار رہی جبکہ وہ خودقومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد رہے2008کے عام انتخابات کے بعدیہ معاملہ الٹاہوایعنی ان کی جماعت کے رہنماسابق وزیراعلی اکرم خان درانی صوبہ میں حزب اختلاف کے قائدرہے جبکہ مولانافضل الرحمن کی جماعت مرکزمیں حکومت میں شامل رہی مئی2013 کے عام انتخابات کے بعدان کی پارٹی کچھ عرصہ مرکز اور صوبوں میں اپوزیشن میں رہنے کے بعدوفاقی حکومت کاحصہ بنی ہے جبکہ مولانافضل الرحمن کے چھوٹے بھائی مولانالطف الرحمن خیبر پختونخوامیں حزب اختلاف کے قائدہیں۔

(جاری ہے)

اس وقت جب مرکز میں نوازشریف حکومت کے خاتمہ کیلئے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے دھرنوں سے صورتحال میں بگاڑ پیدا کرنے کے کوشش کی ہے ،مولانافضل الرحمن نے نہ صرف بھرپور طریقہ سے ملک میں پارلیمانی جمہوری عمل کا آگے بڑھ کردفاع کیا ہے بلکہ ان دھرنوں کے جواب میں شعلہ بیانی کے ساتھ اس کی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
مولانافضل الرحمن مختلف مقامات پرپارٹی کے جلسوں میں اسی شعلہ نوائی کے ساتھ رائے عامہ کوتحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے خلاف مسلسل بیدار رکھنے میں مصروف ہیں۔

جمعرات کے روزمولانافضل الرحمن کوئٹہ پہنچے تو اسی جوش وجذبے کے ساتھ انہوں نے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اسلام آبادمیں دن کودھرنے اوررات کومجرے ہوتے ہیں۔ملک 40سال کی کرپشن میں اتناتباہ نہیں ہواجتنا40دن کے دھرنے میں تباہ ہوچکاہے اسلام آباد میں بڑی سازش ہوئی جسے ہم نے ناکام بنادیا ، اس مغربی ایجنڈے کو ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے کہاکہ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعدامریکہ اپنے آپ کودنیاکی طاقت کامحورسمجھتاہے اورتمام وسائل استعمال کررہاہے وہ عسکری، معاشی اورسیاست پرغلبہ حاصل کرنے کیلئے حکمت عملی کے تحت بے حیائی اورفحاشی کوفروغ دے رہاہے۔ اسلام آباد کے دھرنے میں فحاشی کے مناظرمغربی تہذیب کی نمائندگی کررہے تھے یہ لوگ ہماری نئی نسل سے حیاچھین رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ مصطفوی انقلاب کی بات کرنے والا آج فرانس اورروس کو آئیڈل قرار دے رہا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں بالخصوص امن وامان کی صورتحال کے باوجودمفتی محمودکانفرنس کے نام سے اس پیمانے کے جلسہ کاانعقادایک سیاسی جرأت کی عکاسی کر رہا تھا۔تاہم ذرائع ابلاغ پرابھی یہ اندازے اورتجزیئے دئیے جارہے تھے کہ اس دوران کوئٹہ سے مولانافضل الرحمن پرخودکش بم حملہ کی خبر نشر ہونے لگی۔

مالی باغ میں لوگ ابھی جلسہ گاہ سے نکلناشروع ہوئے تھے کہ جلسہ گاہ سے 100گزکے فاصلے پرمیکا نگی روڈپر زورداردھماکہ سے مولانافضل الرحمن کی گاڑی سمیت متعددگاڑیاں تباہ ہوگئیں،پانچ افرادجاں بحق اور30سے زائدزخمی ہوگئے اور بفضل تعالیٰ مولانافضل الرحمن بال بال بچ گئے۔دھماکہ میں حملہ آورکے چیتھڑے ان کی گاڑی پرآلگے۔ دھماکہ اتناشدیدتھاکہ ان کے زیر استعمال بلٹ پروف گاڑی مکمل طورپرتباہ ہوگئی۔

ایک عینی شاہدکے مطابق مولانافضل الرحمن کی گاڑی جب باہر آئی تو18سال کی عمرکاایک نوجوان جس نے سفیدکپڑااپنے سرسے لپیٹاتھا اس نے گاڑی کے آگے آ کراپنے آپ کواڑادیاجائے۔ وقوعہ سے حملہ آور کاسرنہیں ملا تاہم پولیس کے مطابق حملہ خودکش تھاجس میں6سے8کلوگرام بارودی مواداستعمال کیاگیاکالعدم تنظیم جنداللہ نے مولانا فضل الرحمن پرحملے کی ذمہ داری قبول کرلی جنداللہ کے ترجمان کاکہناہے کہ جے یوآئی کے سربراہ مولانافضل الرحمن پرحملہ جنداللہ نے کیاہے انسپکٹرجنرل بلوچستان محمدعملیش کے مطابق انہوں نے وزیراعلی بلوچستان کی ہدایت پراپنی بلٹ پروف گاڑی مولانافضل الرحمن کواستعمال کیلئے دی تھی اوراس بلٹ پروف گاڑی کی وجہ سے مولانافضل الرحمن اوران کے ساتھ گاڑی میں سوارپارٹی قائدین محفوظ رہے۔

حملہ آور کی شناخت کیلئے اس کے اعضاء کے نمونے ڈی این اے ٹسٹ کیلئے جمع کئے جا چکے ہیں جس کی رپورٹ کے آنے کاانتظارہے۔
کوئٹہ کے میکانگی روڈپرمولانافضل الرحمن کی گاڑی پرہونے والاخودکش حملہ ان پرپہلاحملہ نہیں اس سے قبل 30 مارچ 2011 کوصوابی میں جلسہ عام سے واپسی پران پرایک خودکش بم دھماکہ کیاگیاتھاجس میں6افرادجاں بحق اور15سے زائد زخمی ہوئے تھے اوراس کے24گھنٹے کے اندران پرچارسدہ میں ان پردوسراخودکش بم دھماکہ اس وقت کیاگیاجب وہ جلسہ عام سے خطاب کرنے دارالعلوم اسلامیہ چارسدہ جارہے تھے کہ راستہ میں نہ صرف ایک خودکش حملہ آورنے ان کی گاڑی کواڑانے کی کوشش کی بلکہ دھماکہ کے بعدان کی گاڑی پرفائرنگ بھی کی گئی اس واقعہ میں12افرادجاں بحق جبکہ متعدد دیگر شدیدزخمی ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان کے گاؤں عبدالخیل میں ان کے مکان کوراکٹ حملہ کابھی نشانہ بنایا گیامولانافضل الرحمن پرہونے والے اس حملہ پر خیبر پی کے سمیت ملک بھر میں حکومت اوراپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے مذمت کاسلسلہ جاری ہے جبکہ جمعیت علماء اسلام کے کارکنان نے جمعہ کے روز جگہ جگہ احتجاجی مظاہروں میں ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیاہے۔

اس سلسلے میں مولانافضل الرحمن کی جانب سے میڈیاکودئیے جانے والے بیان کی اہمیت سے بھی صرف نظرنہیں کیاجاسکتاجس میں انہوں نے کہاکہ یہ ان پرتیسراخودکش حملہ ہے اور اگر ملک کے ادارے انہیں پاکستانی سمجھتے ہیں توان پرہونے والے حملوں کاسنجیدگی سے نوٹس لیاجائے انہوں نے کہاکہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پر ہونے والے حملوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیں۔

مولانافضل الرحمن نے ایک ڈپٹی کمشنرکے حوالہ سے کہاکہ انتظامیہ فرقہ پرست اورانتہاپسندمولویوں کو بعض مدارس میں بھیجنے میں دلچسپی لے رہی ہے جس سے بلوچستان میں فرقہ پرستی کوفروغ دیا جارہا ہے۔ اگر یہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہاں کیوں ایک پراکسی وارلڑی جارہی ہے جس پرایران کویہ کہناپڑا ہے کہ وہ تعاقب کرکے ان تخریبی عناصر پرپاکستان میں بھی حملہ کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اس ساری صورتحال کاسنجیدگی سے نوٹس لیں اورمسائل کے مستقل حل کیلئے قانون سازی سمیت تمام ضروری اقدامات ہونے چاہیے۔ مولانافضل الرحمن پرپے درپے ہونے والے خودکش حملے اس امرکی غمازی کرتے ہیں کہ یہ عناصر ہر صورت میں مولانافضل الرحمن کی جان لینے کے درپے ہیں یہ اوربات ہے کہ ان کا ایمان غیر متزلزل ہے کہ مارنے والے سے بچانے والا رب العالمین بڑاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

KhushKash Hamla Molana Ka Wazir e Azam Or Idaroon Se Notice Lene Ka Mutaliba is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 October 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.