کیا دہشت گردی ختم ہوجائے گی؟

حکومت نے ’گرینڈ آپریشن“ کی تیاریاں شروع کردیں پہلے حکومت مذاکرات کی بات کررہی تھی لیکن اب حکومتی بیانات میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے

Syed Badar Saeed سید بدر سعید جمعرات 30 جنوری 2014

KIya DehshaatGardi Khatam Ho Jaye GI

دہشتگردی کے خلاف حکومت کے ہنگامی اقدامات جاری ہیں۔ قانون سازی کے ساتھ ساتھ مختلف فورسز بھی تیار کی جارہی ہیں۔ جدید اسلحہ کیلئے بل منظور کروانے کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔ پہلے حکومت مذاکرات کی بات کررہی تھی لیکن اب حکومتی بیانات میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ وزیر داخلہ نے گزشتہ دنوں صاف صاف کہہ دیا کہ مذاکرات کا جواب گولی سے دینے والوں کے خلاف جنگ کریں گے۔ حکومتی شخصیات بار بار یہ بھی واضح کررہی ہیں کہ آخری آپشن آپریشن ہی ہے۔ وزیر اعظم نے حال ہی میں بتا یا کہ کراچی آپریشن ہر حال میں جاری ہے گا۔ حکومتی اقدامات طوفان سے پہلے کی خاموشی کا منظر پیش کررہے ہیں۔ لگتا ہے جیسے اعلیٰ سطح پرکوئی اہم فیصلہ کرلیا گیا ہے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی تیاریاں ہیں۔

(جاری ہے)

یہ تمام اقدامات بہت اچھے ہیں لیکن اگر ماضی کی طرح صاحبان اقتدار نے انہیں اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا تو ملک میں جنگل کاقانون رائج ہوسکتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران طالبان یا جہادی عناصر کے علاوہ دیگر جرائم پیشہ افراد کو بھی پنپنے کا موقع دیا گیا۔ وطن عزیز کے گوشے گوشے میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی ۔ ہے۔ حالیہ چند سالوں میں تو صورتحال اس قدر ابتر ہوگئی تھی کہ اہم شخصیات بھی محفوظ نہ رہی۔ جب اعلیٰ شخصیات بھی محفوظ نہ ہوں تو عوام کس کھیت کی مولی ہیں۔ بنک ڈکیتیاں عام ہوچکی تھیں۔ حالات انتخابات کے بعد بھی تبدیل نہ سکے۔ موجودہ صدر کے بھانجے تک کو بھتے کی پرچی بھیج دی گئی ۔ یہ رپورٹ بھی آئی کہ پولیس میں بھی دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے حکم پر بھرتیا ں کی جاتی رہی ہیں۔ آہستہ آہستہ کئی علاقے پولیس اور عام افراد کیلئے ” نوگوایریا“ بنتے چلے گئے۔ محب وطن پاکستانیوں کے دل ان حالات پر خون کے آنسو رورہے تھے لیکن محافظ بے بس نظر آتے تھے۔ دو مرتبہ اہم جیلوں پر منظم حملے کر کے خطرناک قیدیوں کو بھی رہا کرایا جاچکا ہے۔
منتخب حکومت نے ان حالات پر قابو پانے کیلئے سب سے پہلے کراچی میں آپریشن شروع کیا۔ اس بار سیکیورٹی اداروں کو دباؤ سے محفوظ رکھتے ہوئے بلا تفریق کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔ آغاز میں لگتا تھا کہ جیسے یہ آپریشن کراچی تک محدود رہے گا لیکن حالات و واقعات ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت اس حوالے سے مزید منصوبوں پر بھی کام کرنے جارہی ہے۔ اعلیٰ قیادت اب کی بار ددہشت گردوں کو شکنجے میں کسنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اس حوالے سے تیزی سے اہم اقدامات کئے جارہی ہیں۔ سب سے پہلے انسداد دہشت گردی ایکٹ 2013ء کو منظور کیا گیا۔ اس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات مزید بڑھا دئیے گئے ہیں۔ اسی طرح ان چور راستوں کو بھی بند کردیا گیا جن کی مدد سے دہشت گرد رہائی پاجاتے ہیں۔
انسداد ہشت گردی ایکٹ 2013ء کے فوراََ بعد ہی تحفظ پاکستان آرڈیننس (پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس) جاری کردیا گیا اس کے مطابق خوف و ہراس پھیلانے والے عناصر کو ملک دشمن تصور کی اجائیگا۔ اس میں یہ بھی کہاگیاہے کہ نئے قانون کے تحت بھتہ خوری‘اغوا برائے تاوان‘ دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث عناصر سے نمٹنے کیلئے رینجر‘ فرنٹئیر کور‘ فرنٹئیر کانسٹیبلری اور قانون نافذ رکنے والے دیگر اداروں کو سول انتظامی کی مدد کیلئے بلایا جائے گا تو انہیں پولیس کے اختیارات بھی مل جائیں گے۔ دہشت گردوں کیلئے خصوصی عدالتیں اور الگ تھانے ہوں گے۔ جرائم کی تحقیقات کیلئے سیکورٹی ایجنسز کی مشترکہ ٹیم بنائی جائے گی۔ اس سے قبل غیر ملکی عموماَ دہشت گردی کی وارداتوں میں بچ نکلنے تھے لیکن اب غیر ملکیوں کا ٹرائل اس نئے قانون کے تحت ہوگا۔ بنیادی طور پر یہ قانون ایسے ہی عناصر کو قابو کرنے کیلئے ہے جنہیں ”بے شناخت“ کہا جاتا تھا۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے چند دن بعد ہی صدر کی جانب سے تحفظ پاکستان آریننس پر دستخط کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب حکومت پاکستان سنجیدگی سے دہشت گردوں کے خاتمے کا منصوبہ بنارہی ہے اور وہ تمام قانونی سقم ختم کیے جارہے ہیں جن کا فائدہ اٹھا کر دہشت گرد خود کو بچا لیتے تھے۔
بات صرف آرڈیننس پاس کرنے یا زبانی دعوؤں تک ہی محدود نہیں ہے۔ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی کراچی آپریشن کے ذریعے واضح پیغام دے دیا تھا لیکن اب اس حوالے سے ہنگامی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم کی ہدایت پر پنجاب میں انسداد دہشت گردی فورس کی تشکیل کیلئے لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ اس کے بنیادی ڈھانچے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ یہ فورس دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے مختص ہوگی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس فورس میں سے بھی ماہر نشانہ بازوں اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کی فہرست تیار کی جارہی ہے تاکہ انہیں بھی ایک فورس میں اکٹھا کیا جاسکے ۔ انسداد دہشت گردی فورس کے اہلکاروں کی تربیت فوج کے اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کی طرز پرہو گی جو کہ کم از کم ڈی آئی جی کی تنخواہ کے برابر ہے ۔ اس کے علاوہ انہیں دیگر مراعات بھی حاصل ہوں گی۔ اطلاعات کے مطابق اس کا ابتدائی تجرہ پنجاب میں کی اجائے گا اور بعد میں اس اک دائرہ کار پورے ملک میں پھیلا دیا جائے گا۔ اس فورس کے لئے ابتدائی بجٹ کے طور پر آٹھ ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اسے نہ صرف فوج کے بہترین انسٹرکٹروں سے بھاری اور ہلکے ہتھیاروں کی تربیت دلوائی جائے گی بلکہ بعد میں یہی ہتھیار اس فورس کے زیر استعمال رہی گے۔
دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے تیار کی جانے والی اس فورس کی اہمیت اور اختیارات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ فورس ائی جی کو جوابدہ نہیں ہوگی بلکہ براہ راست وزیر اعلیٰ کو رپورٹ کر ے گی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس فورس کے جوان وی آئی پیز کی ڈیوٹی پر تعینات نہیں کیے جائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس فورس کیلئے صوبہ بھر کے آرپی اوز ، ڈی پی اوز سے ماہ نشانہ باز اور دلیر افسروں کی فہرست طلب کر لی گئی ہے۔ یہ تفصیلات ظاہر کرتی ہیں کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف ایک خطرناک فورس تیار کرنے جارہی ہے جو ہتھیار ، تربیت، تنخواہ اور مراعات کے حوالے سے واقعی اس قابل ہوگی کہ دہشت گردوں کا خاتمہ کر سکے۔ اس فورس کی رہائش اور ٹرانسپورٹ بھی حکومت کے ذمہ ہوگی۔ دوسری جانب پنجاب پولیس نے بھی سو افراد پر مبنی سنائپر سکواڈ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں آئی جی پنجاب نے سنائپر رافلرز کی خریداری کیلئے پانچ کروڑ پچاس لاکھ کا مطالبہ کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق سنائپر سکواڈ کیلئے لی گئی یہ رائفلیں وی آئی پی کے گھروں پر سیکورٹی کے لئے دی جائیں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فوج کی خصوصی رائفلز ہوتی ہیں جن کے استعمال کیلئے خصوصی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پنجاب پولیس میں ایک بھی سنائپر ایکسپرٹ موجود نہیں ہے اور لاہور میں محض چار افراد سنائپر ایکسپرٹ ہیں جو کہ پوائیویٹ افراد ہیں۔ اسی طرح غیر ملکیوں کی حفاظت کیلئے بھی خصوصی سکواڈ تشکیل دینے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ حالات اور واقعات کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ کہیں اعلیٰ سطح پر کوئی اہم اور بڑا فیصلہ کیا جاچکا ہے جسے عملی جامہ پہنانے کیلئے ہنگامی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ حالات دہشت گردوں کے حق میں اچھے نظر نہیں آرہے اور بہت بڑے پیمانے پر ان کا گھیراؤ کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔
صورتحال کا جائزہ لیں تو ایک طرف ایکیٹ فورس اہم شخصیات کی حفاظت کرتی نظر آتی ہے اور آئی جی نے بھی مزید سنائپر ز سکواڈ کی تشکیل کیلئے فنڈ کا کہا ہوا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں مختلف پراجیکٹ پر کام کرنے والے 623غیر ملکیوں کی حفاظت کیلئے بھی ایک ارب سے خصوصی سکواڈ تیار کیا جارہا ہے۔
اب تک کے حکومتی انتظامات ستائش کے قابل ہیں لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ اگر ان کا غیر قانونی استعمال ہوا تویہی فورس انتہائی خطرناک روپ میں بھی سامنے آسکتی ہے۔ ماضی میں کئی حکمرانوں نے ایسی فورز صرف اپنے ذاتی مقاصد کیلئے تشکیل دی تھیں جن سے ملک اور عوام کو ہی نہیں بعض اوقات خود ان کو بھی نقصان پہنچا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایسی ہی مزید کئی مثالیں بھی موجود ہیں۔ اسی طرح ایکیٹ فورس بھی کسی اور مقصد کیلئے تیار کی گئی تھی لیکن اب اس فورس کے اہلکار محض وی آئی پیز کے قافلے میں ”باڈی گارڈ“ کے طور پر عوام کو منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ پولیس کے اہم افسروں سمیت کئی لوگ نئی تیار کی جانے والی فورسسز اور قوانین کے حوالے سے تحفظات کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ اب یہ حکومت اورانتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ ان کے تحفظات کے دور کرے اور ان اقدامات کو نیک نیتی سے صرف اور صرف عوام اور ملک کی فلاح کیلئے مختص کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

KIya DehshaatGardi Khatam Ho Jaye GI is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 January 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.