پانی کا بحران اور پنجاب واٹر پالیسی

پاکستان کی زرعی معیشت کے فروغ واستحکام میں پنجاب کے دوآبوں کا اہم کردار ہے۔ پنجاب کے زیرکاشت علاقہ نے برصغیر کی زراعت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا کام کیا۔ مگر پاکستان بننے کے بعد بتدریج پنجاب صوبائی تعصب کی بھینٹ چڑھتا گیا۔ کیونکہ پاکستان میں کبھی بھی پانی کے بارے میں غیر جانبدار اور مربوط پالیسی مرتب نہیں کی گئی۔ ایسی پالیسی جس میں ملک کی تمام اکائیوں کی حق رسی ہوسکے اور کسی ایک صوبہ کو قربانی کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے

جمعہ 10 فروری 2017

Paani Ka Bohran
محمد سلیمان خان:
پاکستان کی زرعی معیشت کے فروغ واستحکام میں پنجاب کے دوآبوں کا اہم کردار ہے۔ پنجاب کے زیرکاشت علاقہ نے برصغیر کی زراعت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا کام کیا۔ مگر پاکستان بننے کے بعد بتدریج پنجاب صوبائی تعصب کی بھینٹ چڑھتا گیا۔ کیونکہ پاکستان میں کبھی بھی پانی کے بارے میں غیر جانبدار اور مربوط پالیسی مرتب نہیں کی گئی۔

ایسی پالیسی جس میں ملک کی تمام اکائیوں کی حق رسی ہوسکے اور کسی ایک صوبہ کو قربانی کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم نے دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب کو بھی حق دیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ خود انصاف کر سکے اور اپنے حقوق کے حصول اور تحفظ کے لئے واٹر پالیسی مرتب کر سکے۔ پنجاب کی پانی پالیسی (Punjab Water Policty) تیار کرتے وقت ضروری ہے کہ پانی کی ہر قسم کی جزئیات اور اس سے پیدا ہونے والے فوائد کا احاطہ کیا جائے۔

(جاری ہے)

بلکہ ایسے عوامل کا جائزہ بھی لیا جائے جس کے ذریعے ہم پانی سے متعلق ہر شعبہ میں سبقت حاصل کر سکیں۔ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پنجاب کی زرخیز ترین وادی جو راوی، بیاس اور ستلج کے درمیان تھی۔ اس وادی کے تینوں دریا بھارت کے حوالے کر دیئے گئے تھے۔ اس کے عوض تربیلا اور منگلا ڈیم کی صورت میں Headworks Replacement ملے۔ ان حالات میں بہت ضروری تھا کہ1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کا مکمل جائزہ لیا جاتا بلکہ مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے مکمل اور جامع پانی پالیسی تیار کی جاتی جس کے ذریعے تمام چیلنجز سے نبٹا جا سکے۔

مگر افسوس! اس طرف کوئی توجہ نہ دی گئی۔ جس کی وجہ سے نہ صرف انوائرمنٹ کے مسائل کی شدت میں اضافہ ہوا بلکہ زیر زمین پانی کی ری چارجنگ کے لئے کوئی لائحہ عمل بھی طے نہ کیا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد گر چکی ہے۔ اگر یہی حال رہاتوپنجاب بھر میں پانی کے مسائل کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور پھر اس پر قابو پانا مشکل ترین ہو جائے گا۔

اری گیشن ڈیپارٹمنٹ میں نہ تو محکمہ کا کوئی سربراہ (سیکرٹری) ہے۔ ارسا کے اہم ادارے میں بھی پنجاب کی طرف سے کوئی ممبر نامزد نہ کیا گیا ہے۔حتیٰ کہ تمام چیف انجینئرز کی سیٹیں بھی تقریباً خالی ہیں جن پر ایس ای صاحبان کا ایڈہاک تقرر کیا گیا ہے۔ یہی حال نیچے کا بھی ہے۔ SE کی سیٹوں پر XEN اور XEN کی سیٹوں پر ایس ڈی او صاحبان کام کر رہے ہیں۔ واٹر پایسی کے خدوخال واضح کرتے ہوئے پانی کے ہر اس وسیلہ کا احاطہ ضروری ہے جو اس ایریا میں موجود ہے۔

1۔سندھ طاس (Indus Basin) کے دریاووٴں سے پانی کی مکمل فراہمی کی مقدار کا تعین کرنا از بس ضروری ہے۔ 2۔یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ دریاووٴں سے ملنے والے پانی کے حصہ میں سے کتنا پانی مستعمل ہے۔3۔ جبکہ صوبوں کے درمیان ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوئی قومی آبی پالیسی تیار نہیں ہو رہی ہے تو ہر صوبے کا فرض ہے کہ وہ اپنے فاضل پانی کو مستعمل بنانے کے لئے اپنی مربوط واٹر پالیسی تیار کرے۔

4۔ صوبہ کا مکمل زرعی قابل کاشت اور ناقابل کاشت رقبہ کا تعین اور ناقابل کاشت رقبہ کا تعین کرنا اور ناقابل کاشت رقبہ مکمل طور پر قابل کاشت بنانے کے لئے پلان اس منسوبہ بندی کا لازمی جزو ہے۔ 5۔ بارشوں سے دستیاب(بارانی پانی) کی صوبہ میں سالانہ مقدار کا جائزہ لینا اور اس کے باقاعدہ استعمال کیلئے پالیسی وضع کرنا۔6۔ سیوریج کے پانی کی آمیزش سے ز ہریلے مادے اور آرسینک کی زیر زمین پانی میں ملاوٹ اور اس جیسے اثرات سے بچاوٴ کے لئے مکمل منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔

7۔ پوٹھوہاری علاقہ میں جنگلات/ باغات کی افزائش جس سے یہ علاقے واٹر بینک کا کام دے سکیں اور ان کے باعث بارشیں زیادہ ہوں۔ 8۔ دریاووٴں میں سلٹ کے خاتمہ کے لئے مکمل پلان بنایا جائے۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ لاہور شہر میں دریائے راوی سے مشرقی جانب تقریبا 400 مربع کلومیٹر یعنی ایک لاکھ ایکڑ میں سالانہ اوسط بارش ۲۱انچ یعنی ایک فٹ ہوتی ہے۔

اس طرح صرف لاہور میں سالانہ ایک لاکھ ایکڑ فٹ پانی بارش کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ برطانوی دور میں جب لاہور کو میونسپلٹی بنایا گیا تو شہر کے برساتی پانی کے نکاسی آب کے لئے چھ(6) نالے بنائے گئے جو بارش کا پانی دریائے راوی میں ڈالتے تھے۔ لیکن افسوس! پاکستان بننے کے بعد ان ڈرینز کو گندے پانی کی ترسیل کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ اس طرح یہ صاف ترین پینے کا پانی سیوریج کے گندے پانی میں مل کرنہ صرف زیر زمین پانی کی آلودگی کا باعث بن رہا ہے اگر لاہور سالڈ ویسٹ کے منصوبوں کو دیکھا جائے تو اس گندے پانی سے نہ صرف30 سے 50 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے بلکہ اربوں روپے سالانہ کی کھاد بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن انتظامی بے حسی نے ہمیں بے بسی کا شکار کر دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Paani Ka Bohran is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 February 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.