”پاکستان امن روشنیوں اور امید کے سفر پر“

معاملات میں شکوک ہیں حل کی جانب رجحان میں خلوص نظر نہیں آرہا ،صنعت کاری سے لیکر کاشت کاری تک عجیب قسم کی بے یقینی زوبوں حالی کا شکار ہے بابرکت کاروبا رکے لیے حالات سازگار نہیں رہے

منگل 23 فروری 2016

Pakistan Aman Roshniyoon Or Umeed K Safar Per
مسرت قیوم:
وزیر اعلی پنجاب میا ں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان روشنیوں اور امن کے سفرپر گامزن ہو چکا ہے حکومت ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے پر چل نکلی ہے۔بالکل بجا فرمایا امن روشنی کے سفر کے ہم خود عینی شاہد ہیں جن اداروں میں جاتے ہیں وہاں پر و رونق چہروں والے خوشحال لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے ،راہداری برآمدے کمرے ضرورت مند اور مریضوں سے بھرے ہوئے دفتر جانے کے لیے راستہ مشکل سے ملتا ہے ،خوشی کے اس سفر کی اپوزیشن نے بھی تصدیق کر دی ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے اعدادوشمار سے بنایا کہ اڈھائی سال میں 46ارب روپے قرض لیا گیا جبکہ برآمدات میں 25فیصد کمی واقع ہوئی ہے ان تمام اعدادوشمار کو ایوان کے فلور پر رکھ کر اپوزیشن نے سوال اٹھایا کہ معیشت کیسے بہتر ہو گی ؟اپوزیشن کا موقف تھا کہ حکومت عوام کو 250ارب روپے کا انجکشن لگا رہی ہے اور اپوزیشن نے حکومت سے وضاحت بھی مانگی کہ” قرض اتارو ملک سنوارو “ سکیم کا پیسہ کہاں گیا ،اپوزیشن لیڈر نے وضاحت چاہی اورساتھ ہی بتایا کہ سرکلر ڈیٹ 400ارب تک پہنچ چکا ہے۔

(جاری ہے)

اپوزیشن کا متفقہ موقف تھا کہ سرکاری اداروں بشمول پی آئی اے سے حکومت کا رویہ درست نہیں۔معاملات میں شکوک ہیں حل کی جانب رجحان میں خلوص نظر نہیں آرہا ،صنعت کاری سے لیکر کاشت کاری تک عجیب قسم کی بے یقینی زوبوں حالی کا شکار ہے بابرکت کاروبا رکے لیے حالات سازگار نہیں رہے۔پٹرولیم مصنوعات کے معاملے میں بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا شاید عوام کی خوشحالی اتنی بڑھ گئی ہے کہ 5روپے کمی کا اعلان بھی” حاتم طائی “والا ”معاملہ “ہی لگتا ہے پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ سرکاری اداروں میں 10لاکھ سے12لاکھ افراد دہری ملازمتیں کر رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کا حکومت کے پاس ریکارڈ نہیں، شاید خوشحالی اتنی ہو چکی ہے کہ مزید لوگوں کو ملازمتیں چاہیں ہی نہیں ،اسی لیے10سے 12لاکھ افراد کو دہری ملازمتیں کرنا پڑھ رہی ہیں،امید کی طرف بڑھتے قدم اور سفر کی ایک نشانی ملاحظہ کریں کہ پچھلے 7ماہ میں بیرونی سرمایہ کاری میں 94کروڑ ڈالر کمی ہوئی ہے۔

بجٹ دستاویزات کے مطابق پاکستان پر ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 16936.5 ارپ روپے ہے۔ اس قرضے میں ملکی قرضوں کا حجم 11932 روپے جبکہ بیرونی قرضے 5004 ارب روپے ہیں۔ مالی سال 16- 2015 میں حکومت پاکستان کو ان قرضوں پر 1279.895 ارب روپے سود دینے ہوں گے۔آئندہ مالی سال ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں 1168 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ غیر ملکی قرضوں پر 111 ارب روپے کا” سود“ ادا کرنا ہو گا۔

پچھلے مالی سال میں پاکستان نے اندرونی اور بیرونی قرضوں پر 1325 ارب روپے سود دیا تھا۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں کا حجم خام ملکی پیدوار 62 فیصد ہیں جبکہ قانون کے تحت حکومت جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زائد قرضہ نہیں لے سکتی ہے۔لیکن یہاں پوری قوم کو قرض کی ”مئے “پہ لگا دیا گیا ہے ، خام ملکی پیداوار کے مقابلے میں اندرونی قرضوں کی شرح 43.6 فیصد ہے جبکہ بیرونی قرضوں کی یہ شرح 18.3 فیصد ہے۔


موجودہ وفاقی حکومت کے ابتدائی27ماہ کے اقتدار کے دوران ہر پاکستانی شہری پر قرضوں کے بوجھ میں مزید 24ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق جون 2013 میں مجموعی قرضوں کی مالیت 16ہزار 338ارب روپے تھی جو ستمبر 2015 تک بڑھ کر 20ہزار 706ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، اس طرح وزیر اعظم نواز شریف کے دور اقتدار میں قرضوں کی مجموعی مالیت میں 4368 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

جون 2013تک کے مجموعی قرضوں کے لحاظ سے پاکستان کا ہر شہری 90ہزار 700روپے کا مقروض تھا تاہم پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنانے کا دعوی لے کر اقتدار میں آنے والی حکومت کے ابتدائی 27 ماہ کے دوران مقامی اور غیرملکی ذرائع سے بے تحاشہ قرض گیری کی وجہ سے اس بوجھ میں مزید 24ہزار روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے اور ہر پاکستانی شہری 1لاکھ 15ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے، ہمیں ملکی قرضے اتارنے کے لیے ہر وقت ایک ارب ڈالر کی ضرورت رہتی ہے۔

اس وقت نجی شعبے کے لوگ بھاری اداروں کو چلا رہے ہیں۔ تھر میں جاری ماہ میں مرنے والے بچوں کی تعداد 58ہو گئی ہے شاید یہ علاقہ امید روشنی اور خوشحالی کی حدودسے باہر ہے کچھ ہی دن پہلے امید کی طرف بڑھتے ہوئے پاکستان نے یہ منظر دکھا کہ لاٹھی بردار خواتین نے شاہ کوٹ ننکانہ روڈ دو گھنٹے بلاک کیے رکھی ،سوئی گیس کی بندش کے خلاف احتجاج کیا اور گھروں میں ”امڈ امڈ“ پڑھنے والا خوشحالی کے خلاف سینہ کوبی کی۔

بجلی بند رہنے سے کئی علاقوں میں پانی بھی” نایاب“ ہو گیا لیکن خوش قسمت ہیں ہماری سڑکیں کہ ایک ہمسائیہ ملک سے میٹرو بسیں” دھڑا دھڑ“ درآمد کی جارہی ہیں۔لاہور میں 100جدید ٹیکسیاں چلانے کا کچھ دن قبل” معاہدہ“ ہوا ہے۔وزیر اعلیٰ نے فرمایا کہ یہ شہریوں کے لیے تحفہ ہے” تحفہ“لفظ کی وضاحت ضروری ہے کہ کیا یہ مفت میں دی جائیں گی؟اورنج لائن ٹرین کے معاہدے کے موقع پر بھی یہی کہا گیا تھا کہ یہ تحفہ ہے لیکن اس نے صدیوں پرانی عمارتوں کے ”بخیے ادھیڑ“ دیے ہیں ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت کیسی ہے؟اس وقت پنجاب میں35 ہزار سکولوں میں چاردیواری اور چوکیدار نہیں ہیں۔

پنجاب کے6514سرکاری سکولوں کی عمارتیں خستہ حال ہیں ۔ 5486سکولوں میں پینے کاصاف پانی میسرنہیں۔2706سرکاری سکولوں کی چاردیواری موجود نہیں۔12970سکولوں میں بچوں کیلئے کرسیاں اور ڈیسک موجود نہیں ہیں جبکہ اس وقت سرکاری سکولوں میں62ہزار775اساتذہ کی آسامیاں خالی پڑی ہیں۔9فیصد سرکاری سکولوں میں صرف ایک کمرہ موجود ہے۔کئی سکولوں کی توعمارت تک نہیں۔

عملہ ناکافی اور ناتجربہ کار ہے۔ اساتذہ کی تربیت کا موزوں بندوبست نہیں۔ سائنس لیبارٹریز نہیں اور اچھی ٹریننگ کا فقدان ہے۔ان سکولوں کی حالت بہتر بنانے کی بجائے دانش سکولوں کے نام پر اربوں روپے خرچ کرنیوالے اب تک ان سکولوں سے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کرسکے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ وطن عزیز میں اب تک کوئی تعلیمی پالیسی نہیں بن سکی۔ فی الوقت تو حالات ایسے ہیں کہ کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ دعا ہے کہ آنے والا وقت حکمرانوں کے اعلانات کے مطابق آسان ہو ،وقت مشکل ہے لیکن ہمت کی جائے تو سب آسان ہو جائے گا،

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan Aman Roshniyoon Or Umeed K Safar Per is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 February 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.