پاکستان میں بار بار مارشل لا کیوں؟

پاکستان میں مختلف مارشل لاادوار پر بات کرنے سے پہلے کچھ حقیقی باتوں پر غور کرتے ہیں پھر مارشل لا لگنے کے اسباب ہمیں صاف نظر آ جا ئیں گے۔(ق) لیگ کے جنرل سیکرٹیری اور پارلیمنٹ کے دفاعی کمیٹی کے انچارج مشاہد حسین سید صاحب کے بیان اور اس پر غور کرتے ہیں۔مشاہد نے کچھ دن پہلے اخبار میں بیان دیا تھا کہ ”امریکا کے پاکستانی سفارت خانے کو امریکا منتقل کر دیں

ہفتہ 19 نومبر 2016

Pakistan main Bar Bar Marshal Law Kiyon
پاکستان میں مختلف مارشل لاادوار پر بات کرنے سے پہلے کچھ حقیقی باتوں پر غور کرتے ہیں پھر مارشل لا لگنے کے اسباب ہمیں صاف نظر آ جا ئیں گے۔(ق) لیگ کے جنرل سیکرٹیری اور پارلیمنٹ کے دفاعی کمیٹی کے انچارج مشاہد حسین سید صاحب کے بیان اور اس پر غور کرتے ہیں۔مشاہد نے کچھ دن پہلے اخبار میں بیان دیا تھا کہ ”امریکا کے پاکستانی سفارت خانے کو امریکا منتقل کر دیں تو یہ سفارت خانہ امریکا میں بھی مار شل لا لگوا دے گا“ اس کا صاف مطلب ہے کہ ہمارے ملک میں امریکا ہی مارشل لا لگواتا رہا ہے۔

ظاہر ہے امریکا ہمارے ملک میں خود تو نہیں آتا بلکہ وہ کچھ ہمارے ہی لوگوں کو غلط راستے پر ڈال کر اقتدار پر قبضہ کا راستہ بتاتاہے۔ اس کا مشاہدہ مجھے (ر) لیفٹنیٹ جنرل شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کب تک“ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہوا۔

(جاری ہے)

وہ اپنی کتاب صفحے 831 میں لکھتے ہیں کہ امریکا میں فوجی ٹرنینگ کے دوران مجھ پر امریکی خفیہ کے ایجنٹوں نے کام کیا اور کہا کہ آپ اور آپ کے بچوں کا خیال رکھا جائے گا آپ امریکی مفادات کے لیے کام کرنے کا وعدہ کریں۔

فری میسن یہودی تنظیم کے کچھ ایجنٹوں نے بھی یہی کوشش کی مگر اللہ کا شکر ہے کہ میں ان دونوں کے جھانسے میں نہیں آیا۔ ایسا ہی مسلم لیگ کے مرکزی رہنما(ر) جنرل مجید ملک کی کتاب میں بھی ذکر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی سفیر نے مجھے کہا کہ آپ امریکی مفادات کے لیے کام کریں مگر میں نے کہا کہ میری وفاداری پاکستان کے ساتھ ہے۔انہوں نے مزید لکھا کہ قادیانیوں نے بھی مجھے ورغلانے کی کو شش کی تھی مگر اللہ نے مجھے محفوظ رکھا۔

نہ جانے اور کتنی کتابیں کتنی داستانیں ہونگی۔ ہماری تو صرف ان دو کتابوں تک پہنچ تھی جوہم نے بیان کر دی۔ امریکی مفادات کا کیا مطلب ہے کہ ایٹمی پاکستان میں فوج اور سیاستدان ہمیشہ لڑتے رہیں اور ملک ترقی نہ کر سکے اور امریکا کے سامنے ہاتھ پھیلائے رکھے اور امریکا اپنی مرضی کے کام پاکستان سے کرواتا رہے۔ جیسے ایک فون کال پر ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے کیا تھا۔

اس میں چاہے کوئی فوجی ہو یاسیاستدان۔(ر) جنرل اسلم بیگ صاحب جس کو پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں تمغہِ جمہوریت دیا تھا نے کل ہی ایک نجی ٹی چینل پر کچھ انکشافات کیے ہیں۔ اینکر نے ڈان لیک پر بات کی تو اْنہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے ڈان میں ہی ایک ایسا ہی مضمون چھپا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مضمون نگار نے سپہ سار راحیل شریف کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ سیاست دانوں نے جس طرح اسلم بیگ کوقوم کے سامنے ذلیل کیا ہے تمہیں بھی ریٹائر منٹ کے بعد ایسے ہی ذلیل کریں گے۔

مارشل لا لگا دو اور ان سیاستدانوں کو سبق سکھاوٴ۔ آپ غور کریں کہ کہاں کہاں پاکستان کے دشمن موجود ہیں۔جو بین الاقوامی ایجنڈے گریٹ گیم کے تحت پاکستانی فوج کا گھیراوٴ کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے نجی ٹی وی کا اینکر یہ بھی کہہ رہا تھا سرل المیڈا کو خبر لیک کرنے کے لیے اس لیے منتخب کیا گیا ہے کہ اس کی مدد میں بین الاقوامی صحافی شور مچا دیں گے اور بات رک جائے گی۔

کیا یہ میمو گیٹ جیسی کوئی سازش تو نہیں؟پہلا مارشل لاڈکٹیٹر ایوب خان نے لگایا تھا۔6591ء کا آئین جس کو متحدہ پاکستان کے سارے صوبوں نے مل کر بنایا تھا منسوخ کر دیا گیا جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت بڑھی۔ سیاست دانوں پر پابندی لگائی گئی۔اپنا ایجاد کردہ بنیادی جمہورتوں کا نظام قائم کر کے اس کے نمایندوں کی بنیاد پر اپنے آپ کو پاکستان کا صدر منتخب کرا لیا۔

جب سیاستدانوں نے اس کے غیر جمہوری کاموں کا محاسبہ کیا تو اس نے ڈکٹیٹریحییٰ خان کوا قتدار پر بیٹھا کر خود رخصت ہوا۔ ڈکٹیٹر یحییٰ نے متنازعہ اور قومیت اور صوبائیت کی بنیاد پر الیکشن کروائے۔ بٹھو صاحب کے کہنے پر جیتنے والوں کو اقتدار منتقل نہیں کیا۔ فوجی آپریشن شروع کیا جس سے مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ ہو گیا۔ پھر درمیان میں کچھ عرصہ کے لیے اقتدار کے رسیا مرحوم بھٹو تاریخ کے پہلے سولین ماشل لا ایڈ منسٹریٹر بن بیٹھے تھے۔

بھٹو کا فسطائی دور جیسے تیسے گزرا۔ ڈکٹیٹرضیاالحق نے مارشل لا لگا دیا۔ ڈکٹیٹرپرویزمشرف کہتے ہیں کہ بھائی ایک کلرک کو بھی نکالا جاتا ہے تو اسے نوٹس دیا جاتا ہے کیا پاکستانی فوج کا سپہ سالار ایک کلرک سے بھی کم تر ہے کہ اسے بغیر نوٹس دیے نکال دیا جائے۔ اسی پر ڈکٹیٹرپرویز مشرف نے مارشل لا لگا دیا۔ ڈکٹیٹر مشرف نے اپنا بھونڈے خیالات کا سرے عام اعلان کر دیا تھا کہ میں نواز شریف اور بے نظیر بٹھو کو واپس پاکستان نہیں آنے دوں گا۔

پھر لوگوں نے دیکھا کہ دونوں واپس پاکستان آئے اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف بے بس ہو گیاتھا۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ایک ٹیلیفون کال پر امریکا کو بحری ،بری اور فضائی راستے دے دیئے۔ تاریخ کا واحد مسلمان حکمران ہے جس ن مسلمانوں کو اعلانیہ ڈالر کے عوض صلیبیوں کے حوالے کیا۔ خود اپنی کتاب میں اس کا اعترف بھی کیا۔ پڑوسی برادر اسلامی ملک افغانستان کو تورا بورا بنانے میں امریکا کے ساتھ شریک ہوا۔

اسی وجہ سے ملک میں دہشت گردی پھیلی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بار بار کے مار شل لا سے فوجیوں اور سیاستدانوں میں دشمن نے ایک کفیت پیدا کر دی ہے۔ جب فوجی آپس میں گپ شپ کرتے ہیں توسیاستدانوں کو برابھلا کہتے ہیں اور جب سیاست دان آپس میں گپ شپ کرتے ہیں تو فوجیوں کوبْرا بھلا کہتے ہیں اورایسی باتوں سے دشمن کے مفادات پورے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے دشمن کبھی فوجی کو کبھی سیاست دان کو اپنے شکنجے میں جھکڑ لیتے ہیں۔

جیسے پاکستان میں ہوتا آیا ہے اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب کام امریکا کا سفارت خانہ انجام دیتا رہتا ہے۔ہمارے مقتدرحلقوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ملک سب کا ہے۔ فوج کا کام آئین کے مطابق سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور سیاستدانوں کا کام ملک کے سیاسی معاملات چلانا ہے۔ جب مقتدر حلقوں کو یہ بات سمجھ آ جائے گی تو ملک کے ادارے مضبوط ہو نگے۔

ہمیں اس وقت بہت خوش ہوئی تھی اور ہم نے ایک مضمون بھی لکھا تھا کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کے سپہ سالار پرویز کیانی صاحب نے اپنے آئی ایس آئی کے چیف کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں بھیجا تھا اور اس نے اعلان کیا تھا کی آئی ایس آئی نے سیاسی ونگ ختم کر دیا ہے۔ اور اب خوشی اپنے سپہ سالار راحیل شریف صاحب کے اس کردار پر کہ موجودہ سیاسی حکومت کی طرف سے کئی بار فوج کے خلاف بے وقوفیوں کے با وجود سمجھداری کا ثبوت دیا۔

پاکستانی قوم کے اندر اپنے لیے سیاست دانوں سے زیادہ عزت کا مقام حاصل کیا ہے۔ دشمن پھر سیاستدانوں اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں ڈالنے کی کوششیں کر رہے ہیں تاکہ پاکستان کو جمہوریت کے راستے سے ایک بار پھر ہٹایا جائے۔ڈان لیک اس کا ثبوت ہے۔ دوسری طرف ہمارے ازلی دشمن نے لائن آف کنٹرول پر بغیر اشتعال کے توپیں چلا کر ہمارے سات فوجی جوانوں کو شہید کر دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج نے دشمن کو اس سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ان حالات میں کوئی بھی دشمن پاکستان کو غلط راستے پر نہیں ڈال سکتا۔ عوام اپنی پاکستانی فوج کا احترام کرنا جانتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan main Bar Bar Marshal Law Kiyon is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 November 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.