پاکستان اور ترکی کے تعلقات

ترکی کے ہردلعزیز صدر رجب طیب اردوان نے مشترکہ پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کو پاکستان کا حقیقی معنوں میں برادر ملک قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس عزم کو دہرایا کہ ہم پاک ترک تعلقات کو مثالی بنائیں گے جہاں صدر اردوان نے توانائی، انفراسٹرکچر، ہاؤسنگ اور زراعت و صنعت کے شعبوں میں دونوں ممالک کے باہمی تعاون پر زور دیا وہیں اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کا حجم ایک ارب ڈالرز تک بڑھانے کا ارادہ کیا

بدھ 23 نومبر 2016

Pakistan Or Turkey K Taluqat
نعیم قاسم:
ترکی کے ہردلعزیز صدر رجب طیب اردوان نے مشترکہ پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کو پاکستان کا حقیقی معنوں میں برادر ملک قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس عزم کو دہرایا کہ ہم پاک ترک تعلقات کو مثالی بنائیں گے جہاں صدر اردوان نے توانائی، انفراسٹرکچر، ہاؤسنگ اور زراعت و صنعت کے شعبوں میں دونوں ممالک کے باہمی تعاون پر زور دیا وہیں اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کا حجم ایک ارب ڈالرز تک بڑھانے کا ارادہ کیا ۔

اور سب سے اہم بات یہ کہ انہوں نے کشمیر کے متعلق پاکستان کے موٴقف کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے اور انہوں نے ہندوستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اظہارتشویش کیا علاوہ ازیں انہوں نے ترکی میں فوجی بغاوت پر پاکستان کی حکومت اور عوام کی حمایت پر شکریہ ادا کیا جبکہ وزیراعظم نوازشریف نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں پاکستان کی رکنیت کے لئے ترکی کی حمایت کا شکریہ ادا کیا تاہم ایک بات ترک صدر کی عجیب لگ کہ گولن موومنٹ پاکستان کے لئے خطرہ ہے اور یہ داعش اور القاعدہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

(جاری ہے)

پتہ نہیں کیوں وہ فتح اللہ گولن سے خوفزدہ ہیں۔ حالانکہ فتح اللہ گولن کے نظریات تو بے حد معتدل ہیں وہ اسلام میں محبت، بھائی چارہ اور اخوت پر زور دیتے ہوئے اسلام کے ویلیو سسٹم کو اپنانے میں زور دیتے ہیں۔ بہرحال ترک صدر نے خواہ مخواہ گولن تنظیم کو اپنے حواس پر سوار کیا ہوا ہے اور بغیر کسی کے پاکستان میں ان کی تعلیمات سے متاثر ہو کر قائم کردہ پاک ترک سکولز پر قبضے کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں اور گزشتہ 25 سالوں سے پاکستان میں مقیم سو سے زائد ترک اساتذ کو پاکستان سے نکالا جا رہا ہے وہ واپس جونہی ترکی پہنچیں گے انہیں گرفتار کر لیا جائے گا کیونکہ وہ محض گولن کی فکر اسلام سے متاثر ہیں۔

اس طرح تو مصر میں بھی نہیں ہو رہا ہے جہاں صدر مرسی کی حکومت کو فوج نے ختم کر دیا ہے مگر وہاں لاکھوں لوگ حسن النبا اور سید قطب سے متاثر ہیں اور اخوان کہلاتے ہیں وہ اقتدار سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ صدر مرسی اور ان کے ساتھی جیلوں میں قید ہیں مگر عام لوگ جو اخوان کی تحریک سے متاثر ہیں وہ وہاں پر اپنی معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔اسی طرح جو لوگ ترکی پاکستان یا دنیا کے کسی بھی حصے میں رہتے ہیں اور گولن کے نظریات سے متاثر ہیں مگر پرامن عام شہری ہیں اور قانون کے مطابق اپنی معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں مشغول ہیں تو کیسے ہم ان کو القاعدہ اور داعش کے لوگوں کے ہم پلہ کھڑا کر سکتے ہیں۔

اسی ایک مسئلے پر پاکستانی عوام کی اکثریت ترکی کے صدر کے موقف سے بصد احترام اختلاف رکھتی ہے وگرنہ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ ترکی اور پاکستان قدیم تاریخی، مذہبی ثقافتی، تجارتی اور تہذیبی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی علامہ اقبال جلال الدین رومی کو اپنا فکری مرشد خیال کرتے تھے۔
پاکستان کو تسلیم کرنے والے ممالک میں ترکی صف اول میں شامل تھا جب دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کا قیام عمل میں آیا تو ترک سفیر کی اسناد وصول کرتے ہوئے قائداعظم نے دونوں ممالک کے مابین موجود روحانی، جذباتی اور تہذیبی رشتوں کا بالخصوص ذکر کیا۔

ترکی دنیائے اسلام کا واحد ملک ہے جس سے ہمارے انتہائی گہرے مراسم گزشتہ 70 سال سے تسلسل سے قائم ہیں۔ ترکی اور پاکستان میں دوستی کا باضابطہ معاہدہ 1951ء اور باہمی تعاون کا معاہدہ 1954ء میں وجود میں آیا جس کے الفاظ کچھ یوں تھے ”ترکی اور پاکستان کے درمیان دوستی کے جذبے کے ساتھ طے پایا ہے کہ سیاسی، ثقافتی اور معاشی دائروں کے اندر اور اس کے ساتھ امن اور تحفظ کی خاطر ہم زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعاون حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہیں گے“۔

ترکی میں دائیں بازو یا بائیں بازو یا فوجی آمریت ہی کیوں نہ ہو، ہمارے ساتھ ترکی کے تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں جہاں ترکی ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی غیر مشروط حمایت کرتا رہا ہے وہیں 1954ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان نے قبرص کے مسئلے پر ترکی کا بھرپور ساتھ دیا اور قبرص پر ترکی کے حق کو فائق گردانا۔ 1962ء میں ترک اور یونانی قبرصیوں کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔

ترکی نے مسلم قبرصیوں کے تحفظ کے لئے افواج روانہ کر دیں۔ جس سے یونانی اور ترکی میں بہت بڑی جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ تاہم اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی مداخلت کے سبب جنگ ٹل گئی۔ پاکستان نے اِس سارے دور میں ترکی کا ہر طرح سے ساتھ دیا۔ سیاسی اور سفارتی سطح پر ترک موقف کی حمایت کی اور ترکی کو مکمل فوجی تعاون کا یقین دلایا۔ ترک حکومت پاکستان کی حمایت سے بے حد متاثر ہوئی کہ انہوں نے وزیر خارجہ فریدوں کمال کو خصوصی دورہ پر کراچی بھیجا گیا تاکہ حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا جا سکے۔

اگرچہ کشمیر کی طرح قبرص کا مسئلہ بھی ابھی تک حل طلب ہے تاہم ترک قبرصیوں کی حمایت میں پاکستان کا موقف ہمیشہ ترکی کی حمایت میں اٹل رہا۔ 1984ء میں قبرص کا مسئلہ نئے سرے سے اقوام متحدہ کے سامنے آیا تو پاکستانی مندوب شاہ نواز نے ترک قبرصیوں کے مسلمہ حقوق کی بازیابی کے حق میں زوردار تقریر کی۔
پاکستان دفاعی معاہدہ بغداد میں ترکی اور عراق کے ساتھ شریک رہا ہے۔

1965ء کی جنگ میں ترکی نے پاکستان کو فوجی سازوسامان، اسلحہ گولہ بارود اور توپیں فراہم کیں۔ پاکستانی زخمی فوجیوں کے لئے ڈاکٹرز اور نرسوں کے وفود 1965ء اور 1971ء میں ترکی سے پاکستان آئے۔ 1964ء میں معاہدہ استنبول کے تحت ترکی، ایران اور پاکستان کے درمیان علاقائی تعاون برائے ترقی (آر۔سی۔ڈی) کے نام سے موسوم تنظیم وجود میں آئی۔ اگرچہ اس تنظیم نے تینوں ممالک کے درمیان تجارتی، سیاحتی اور ذرائع آمدورفت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

آج کل یہ تنظیم علاقائی معاشی کونسل کہلاتی ہے۔ آج کل پاکستان خصوصاً پنجاب کے بڑے بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد میں ویسٹ مینجمنٹ اور کئی بجلی گھر سڑکوں کی تعمیر جیسے منصوبے ترکی کے تعاون سے چل رہے ہیں۔ میاں نواز شریف ترک صدر رجب اردوان سے بے حد متاثر ہیں مگر انہیں اپنے عوام پر اس قدر دسترس حاصل نہیں ہے کہ ان کے ایک اشارے پر عوام ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں گے۔ یہ خوش نصیبی صرف اردوان کے لئے ہی خدا نے مخصوص کی۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan Or Turkey K Taluqat is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 November 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.