پاکستانی طلبہ نے امریکہ میں الیکٹرک رکشہ متعارف کرادیا

سابق صدر بل کلنٹن سے دس کروڑ کا انعام حاصل کیا۔

منگل 3 اکتوبر 2017

Pakistani Tulba ny America me Electric Rikhsa Mutarif Krwaya
راحیلہ مغل:
طالب علم ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں انہوں نے کئی بار بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔حالیہ ہونے والے ہلٹ پرائز مقابلے کو بھی پاکستانی طلبا کی ٹیم ”روشنی رائیڈر“ نے جیت کر ایک بار پھر پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کردیئے ہیں۔ واضح رہے کہ رٹگرز یونیورسٹی کے تحت ہر سال منعقد کئے جانے والے ہلٹ پرائز میں ایک ملین ڈالر کی رقم دی جاتی ہے ۔

اسے دنیا بھر کے طالب علموں کے درمیان ایک اہم مقابلہ سمجھا جاتا ہے۔ جس میں طلبا وطالبات معاشرے کی بھلائی کیلئے مختلف اور انوکھے خیالات پیش کرتے ہیں۔ اس مقابلے کو اب تک 5 سال گزرچکے ہیں ۔ حالیہ چھٹا مقابلہ یونائیٹڈ نیشن کمپلیکس نیویارک میں16 ستمبر کو منعقد ہوا ۔

(جاری ہے)

جسے پاکستانی طلبا کی ٹیم ”روشنی رائیڈرز“ نے جیتا اور سابقہ صدر بل کلنٹن کے ہاتھوں ٹرافی وصول کی ۔

یہ ایک ہائی پروفائل گلوبل مقابلہ تھا جس میں پوری دنیا سے طلبا نے شرکت کی ۔ حالیہ”ہلٹ پرائز“ کے سلسلے میں ہونے والا مقابلہ مہاجرین کی مدد کیلئے منعقد کیا گیاتھا کیونکہ اس وقت پوری دنیا میں ایک بلین سے زائد لوگ مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا ملک چھوڑ چکے ہیں اور کسی دوسرے ملک میں زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔

انکی زندگیاں مشکلات کا شکار ہیں ۔ انہیں مشکلات کو کم کرنے کے لئے ایسا کام کرکے دکھائیں جن سے مہاجرین کی بھلائی کا پہلو نکلتا ہو۔ ”روشنی رائیڈرز “ کی ٹیم نے پاکستان کے شہر کراچی کے علاقہ اورنگی ٹاؤن کے مہاجرین کی مدد کیلئے اپنا پلان تیار کیا کیونکہ اس علاقے میں 25 ملین مہاجرین آباد ہیں۔ روشنی رائیڈرز کی ٹیم نے جب اورنگی ٹاؤن کا دورہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ اس علاقے کے رہنے والوں کیلئے ٹرانسپورٹ ایک اہم مسئلہ ہے۔

یہاں کی گلیاں تنگ اور پچیدہ ہیں ۔ ان لوگوں کو Main سڑک تک آنے کیلئے 30 سے 45 منٹ تک کا سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔ اسکے علاوہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے انہیں 3 سے 4 سواریاں تبدیل کرنی پڑتی ہیں ۔ جبکہ اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے انکی ماہانہ آمدنی کا ایک بڑا حصہ سفر کے کرائے پر خرچ ہوجاتا تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ”روشنی رائیڈرز“ کی ٹیم نے چھوٹے الیکٹرک رکشے متعارف کروائے جو روشنی بجلی کی بجائے شمسی توانائی سے چارج کئے جاتے ہیں۔

ان رکشوں کو سکولوں ، ہسپتالوں اور تجارتی مراکز کیلئے چلایا جارہا ہے۔ انھوں نے اس سال موسم گرما میں اپنے پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز کیا جسکی روداد انہوں نے فیس بک پر بھی پوسٹ کی۔ روشنی رائیڈرز کے ممبران میں جیافاروقی، حسن عثمانی، منیب میاں اور ہانا لاکھانی شامل ہیں ہم نے ان سے آن لائن بات چیت بھی کی۔ جیافاروقی نے بتایا کہ انہوں نے ابھی گریجوایٹ کیا ہے وہ مستقبل میں پولیٹکل سائنس اور وومین جنڈر سٹڈیز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ”ہماری ٹیم کو رکشہ بنانے کا خیال تب آیا جب ہم نے اپنی ٹیم کے ایک ساتھی کے انکل سے بات چیت کی جو اورنگی ٹاؤن میں رہائش پذیر تھے۔ اس طرح ہمیں ان مہاجرین کے مسائل کا اندازہ ہوا جو ٹرانسپورٹ کی قلت کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوارہے تھے اور نہ ہی اپنے مریضوں کو ہسپتالوں تک لے جاسکتے تھے، اسکے علاوہ وہ اپنی تنخواہ کا 30 فیصد ٹرانسپورٹ کے کرائے پر بھی خرچ کررہے تھے جسکے بعد انکی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ کرایوں پر خرچ ہوجاتا اور انکے پاس میڈیکل اور تعلیم پر خرچ کرنے کے لئے کچھ نہیں بچتا“۔

ہانا لاکھانی نے کہا کہ”الیکٹرک رکشہ سولرانرجی سے چلتا ہے ہم چاہتے ہیں کہ اس تمام کمیونیٹر کے استعمال کے قابل بنائیں ۔ ہمیں توقع ہے کہ اس رکشے کی مدد سے مہاجرین کے لئے زندگی کی دوڑ میں شامل ہونا آسان ہوجائے گا اور اس رکشے کے استعمال کے بعد ان کے پاس معقول رقم بھی بچ جائے گا جو وہ اپنے بچوں کی تعلیم اور بہتر مستقبل پر خرچ کرسکیں گے“۔

انہوں نے مزید کہا کہ ” ہمارا مقابلہ دیگر پانچ ٹیموں کے ساتھ ہوا ہم مہینوں کی محنت والدین کی سپورٹ اور دوستوں کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں یہ منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اس وقت ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ ہم اپنی خوشی بیان کرسکیں۔“مُنیب میاں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ”رکشہ بنانے کے بعد ہم نے رکشہ چلانے والوں سے رابطہ کیا اس طرح وہ لوگ اور نگی ٹاؤن والوں کو سکول ‘ کالج‘اور انکی بزنس پلیس تک پہنچانے لگے۔

دیکھتے ہی دیکھتے اس رکشے نے منی بس کی جگہ لے لی اور لوگوں کی ضروریات پوری ہونے لگی“۔ حسین عثمانی نے اس موقع پر کہا کہ ” اس ایجاد سے ہمارا مقصد ان خواتین کی خصوصی مدد کرتا تھا جو آدمیوں کی وجہ سے عام بسوں میں سفر نہیں کرسکتی تھیں اور گھروں میں مقید ہوکر رہ گئی تھیں۔ اب اس رکشے کی وجہ سے سفر کررہی ہیں اور اپنا مستقبل بہتر بنارہی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ رکشہ سولر انرجی سے چلتا ہے لیکن اسے نیچرل گیس پر بھی چلایا جاسکتا ہے“۔ ہلٹ پرائز جیتنے والی پانچ ٹیمیں بھی اب تک اپنے بزنس کامیابی سے چلارہی ہیں ان سابقہ ونر ٹیموں کا تعلق Waterloo یونیورسٹی Calgary یونیورسٹی، ہاروڈ یونیورسٹی ،پارک یونیورسٹی اور ITAM یونیورسٹی سے تھا۔ اس سال یہ انعام پاکستانی طلبا نے اپنے نام کیا ہے اُمید کی جاسکتی ہے کہ یہ ٹیم بھی دیگر ٹیموں کی طرح اپنا اور اپنے ملک کا مستقبل روشن کریں گیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistani Tulba ny America me Electric Rikhsa Mutarif Krwaya is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 October 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.