پانامہ لیکس اور کئی سوالات

وکی لیکس کے بعد اب پانامہ لیکس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے خصوصاً پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر الزام تراشی اور د ھمکیوں کی سیاست نے سر اٹھالیا۔ اپوزیشن پارٹیز ایک بار پھر اپنی تمام تر توانائیاں حکومت پر تنقید کرنے پر صرف کرنے میں مصروف ہیں

جمعہ 22 اپریل 2016

Panama Leaks
نازیہ جبین:
وکی لیکس کے بعد اب پانامہ لیکس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے خصوصاً پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر الزام تراشی اور د ھمکیوں کی سیاست نے سر اٹھالیا۔ اپوزیشن پارٹیز ایک بار پھر اپنی تمام تر توانائیاں حکومت پر تنقید کرنے پر صرف کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی پر الزام لگانا کوئی مشکل عمل نہیں۔ خصوصاًآج کے دور میں جب میڈیا آزاد ہے۔

انٹرنیٹ، ای میل، سوشل میڈیا اورو ٹس ایپ کی سہولت نے معلومات کی ترسیل کا کام آسان کردیا ہے۔ ایک بٹن دبانے سے ایک خبر پوری دنیا میں پھیلائی جاسکتی ہے۔ اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر کوئی انسان، تنظیم یا ملک کسی دوسرے کے بارے میں کوئی غلط بات پھیلانا چاہیے تو کوئی مشکل کام نہیں۔ یہ کاروائی جتنی آسان ہے اسکے اثرات اور نتائج اتنے ہی دوررس اور وسیع ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ ان معلومات کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہا۔

(جاری ہے)

خاص کر جب کسی ا ہم شخصیت کے بارے میں کچھ غلط بات یا اچھی بات نشر کی جاتی ہے تو لوگ اس میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں اور یقین بھی کر لیتے ہیں۔یعنی کسی بھی شخصیت یا قوم کے بارے میں رائے قائم کرنے میں موجود میڈیا اور انٹرنیٹ اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ایسا ہی کچھ معاملہ موجودہ حکومت کے ساتھ ہے، پانا مہ لیکس نے شریف فیملی کے بارے میں جو کچھ کہا اس پر سیاسی جماعتوں نے آمین کہتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف اور انکے خاندان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا حالانکہ اس رپورٹ میں وزیراعظم کانام کہیں بھی نہیں حقیقت میں پاکستان میں بہت سی اندرونی و بیرونی قوتیں برسر پیکار ہیں جو پاکستان کو جمہوری طور پر مضبوط ہوتا نہیں دیکھ سکتیں۔

انکے مفاد میں نہیں کہ پاکستان معاشی طور پر پھلے پھولے اور ایک مضبوط قوم بن کر سامنے آئے۔ اسی لیے حکومت کا جب کو ئی کمزور پہلو نظر آتا ہے تو بات صرف تنقیدتک نہیں رہتی سیاست کے نئے طریقے شروع ہوجاتے ہیں دھرنے کی سیاست اور اپنی بات پر ڈھٹائی سے قائم رہنا پاکستان کیلئے انتہائی خطر ناک ثابت ہوتاہے۔ کوئی ایک سیاست دان،تجزکار، ماہر معاشیات بتا دے کہ عمران خان کے دھرنے کی سیاست سے ملک کو کسی بھی لحاظ سے فائدہ پہنچا ہو۔

حکومت بھی وہی ہے اپوزیشن پارٹیاں بھی وہی ہیں نقصان صرف ملک کا ہے۔ اسکے امیج کے بارے میں منفی باتیں پھیلنے کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی طور پر ملک کی ساکھ کو نا قابل تلافی حد تک نقصان پہنچا ہے کیونکہ دھرنے کی سیاست میں تعمیری پہلو نظرنہیں آتا۔
اگر ہم پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک کی بات کریں تو کئی ممالک کے سربراہان کے نام بھی پانامہ لیکس میں شامل ہیں۔

ایک رپورٹ کیمطابق یہ ساری کارستانی امریکہ کی ہے جس میں خاص طور پر روس کے صدر پیوٹن کو نقصان پہنچا نا مقصد ہے۔ یہی بات پیوٹن نے خود بھی کہی ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ موجودہ دور پرانے وقتوں سے بہت مختلف ہے۔ پرانے وقتوں میں جب طاقتور ملک دوسرے ملک پر قبضہ کرنا چاہتا تو اس پر حملہ کرتا تھا۔ جو ملک فوجی قوت میں آگے ہوتا وہ کمزورممالک پر قابض ہو جاتا اور اس پر حکمرانی کرتا۔

برطانوی سامراج نے بر صغیر کے علاوہ اور بہت سی نوآبادیات پر عرصہ دراز تک راج کیا لیکن اب دوسرے ملکوں پر راج کرنے کا طریقہ ذرا مختلف اور جدید ہے اب ممالک پر معاشی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں ایران اور جنوبی کوریا کی مثال سب کے سامنے ہے۔ یہ ایک بہت ہی مہذب اور شائستہ طریقہ ہے۔ کسی شخصیت یا ادارہ کو اخلاقی لحاظ سے نقصان پہنچانا مقصود ہو تو ٹیکنالوجی نے یہ کام انتہائی آسان کر دیا ہے۔

ایک خبر پھیلائی اور سارہ کام خود بخود ہو جاتا ہے۔ مہذب قوموں میں جہاں اس بات کا شعور ہوتا ہے کہ غلط بات پر احتجاج کر نا ہے، وہاں ان میں حقائق کو چانچنے کی بھی صلاحیت ہوتی ہے۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے آئس لینڈ کے صدر کی مثال دی جاتی ہے کہ وہ مستعفی ہوگیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب کسی کی حقیقت آشکار ہوتی ہے تہ وہ خود بخود منظر سے ہٹ جاتا ہے لیکن جو سچا انسان ہو وہ اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کر دیتا ہے۔

قانونی طور پر بھی جب تک جرم ثابت نہ ہو ملزم کو مجرم نہیں کہا جاتا۔ عدالت حقائق اور ثبوتوں کی بنا پر فیصلہ کر تی ہے اور ملزم سے مجرم ثابت کرنے کیلئے حقائق اور ثبوت درکار ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر ثبوت اور حقائق اس بات کو ثابت کرتے ہیں تو وزیراعظم احتساب کیلئے تیار ہیں پھر اعتراض کیوں۔جہاں تک غیر ملکی آڈٹ کا سوال ہے تویہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اپنے اداروں پر اعتماد نہیں کرتے۔

تنقید کرنیوالے ان اداروں کو عرصہ دارز تک چلاتے رہے ہیں۔ ان کو بھی چاہیے تھا کہ ان اداروں کو اس لیول تک لیکر آتے کہ ہر شہری ان پر اعتماد کر سکتا۔ اگر عام آدمی کیلئے ان اداروں کے فیصلوں کو مان لیا جاتا ہے تو خاص لوگوں کیلئے کیوں نہیں۔ اس ملک میں ہر ملزم کو غیر ملکی عدالت میں پیش ہو نا چاہیے کیونکہ ہمارے ادارے انصاف کے قابل نہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟
جہاں تک دوسرے ملکوں مین سرمایہ کاری کا سوال ہے تو اس ملک میں جس کو بھی موقع ملتا ہے وہ اپنے بچوں کو باہر کے سکول، کالج اور یونیورسٹیوں سے تعلیم دلواتا ہے۔

جسکے پاس دولت ہے باہر کے ممالک میں سرمایہ کاری کرتا ہے کیونکہ ان کو پاکستان کے حالات پر یقین نہیں۔ یہاں ہر معاملے پر سیاست ہوتی ہے چاہے وہ خواتین کے حقوق کا بل ہو یا غیر ملکی سرمایہ کاری (CPEC) کا معاملہ ,دھرنے اور احتجاج کی سیاست ہوتی ہے۔ اس کا مقصد کرسی حاصل کرنا ہو یا دوسرے کو کرسی سے اتارنا ہو ویسے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ملک سے باہر ہے۔جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 20.88بلین ہے۔ یہ پاکستانی دوسرے ممالک میں محنت کرتے ہیں اور کما کر پیسہ پاکستان بجھواتے ہیں اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 20.5بلین ڈالر ہیں۔ اب کس پاکستانی کے پاس دوسرے ملک میں کتنا پیسہ ہے اس کا حساب کون کریگا۔ ان پاکستانیوں نے وہاں پیسہ کیسے کمایا؟ اس کا آڈٹ کون کریگا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Panama Leaks is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 April 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.