پانی بحران اور پاکستان کا مستقبل

وطن عزیز پاکستان میں زیرزمین پانی کی سطح جس تیزی سے کم ہو رہی ہے اس صورت حال میں اگر صاف پانی کے استعمال میں غیرمعمولی احتیاط اور اس کے ذخائر میں اضافے کے لئے منصوبہ بندی نہ کی گئی

منگل 7 اپریل 2015

Pani Bohraan Or Pakistan Ka Mustaqbil
احمد جمال نظامی:
اکنامک سروے آف پاکستان 2013-14ء کے مطابق پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 1947ء میں 5650کیوبک میٹر سالانہ تھی جو کم ہو کر اب 964کیوبک میٹر سالانہ رہ گئی ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں زیرزمین پانی کی سطح جس تیزی سے کم ہو رہی ہے اس صورت حال میں اگر صاف پانی کے استعمال میں غیرمعمولی احتیاط اور اس کے ذخائر میں اضافے کے لئے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو آنے والے عشروں کے بعد ملک میں پانی کا ایک خطرناک بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

سماجی کارکن میاں عبدالکریم ادارہ صوت الاسلام ٹرسٹ فیصل آباد کے صد رہیں انہوں نے ملک میں پانی کے بحران کے پیش نظر سیاست دانوں کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ محب وطن سیاست دانوں کو پانی کے حوالے سے مستقبل قریب میں ملک میں پیدا ہونے والی بحرانی صورت حال کو سامنے رکھ کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے اپنے تحفظات پر خود نظرثانی کرنی چاہیے۔

(جاری ہے)

پانی نہ صرف ملک میں سستی ترین بجلی کے حصول کا ذریعہ ہے بلکہ زرعی شعبے کے لئے بھی لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک کی پائیدار ترقی کے لئے پانی کی محض دستیابی ہی کافی نہیں ہے بلکہ پانی کی وافر دستیابی بہت ضروری ہے۔ ورلڈبینک کے مطابق پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بہتر کی ہے جبکہ پاکستان کی یہ صلاحیت 1950 ء کے عشرے میں موجود فی کس پانی کی دستیابی کے مقابلے میں بھی کم ہو گئی ہے۔

اس وقت ہماری حکومت کی ترجیح موٹروے اور سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ بجلی و توانائی کے حصول کے منصوبے ہیں۔ جن کے مکمل ہونے سے ملک میں بجلی و توانائی کی قلت پوری بھی ہو گئی تو یہ مسئلے کا کوئی مستقل ھل نہیں ہو گا۔ لہٰذا میاں عبدالکریم نے بالکل درست سمت میں حکومت کی رہنمائی کی ہے حکمرانوں کو ملک میں ترقیاتی کاموں کا جال پھیلانے کی بجائے ملک کو مستقبل میں درپیش پانی کے چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کا سوچنا چاہیے۔

آئندہ دس پندرہ برسوں میں پاکستان کو پانی کے شدید بحرانوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ارسا کے چیئرمین نے بھی اس سلسلہ میں حکومت کو ایک تفصیلی خط لکھا ہے اور انہوں نے اپنے اس مراسلہ میں وفاقی وزیر بجلی و پانی کی طرف سے اس سلسلہ میں انتہائی واشگاف الفاظ میں انتباہ کیا ہے کہ اگر مناسب انتظامات نہ کئے گئے تو ملک اور قوم کو پانی کے کتنے بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے پاکستان میں مستقبل قریب میں رونما ہونے والے پانی کے قحط سے بچنے کے لئے حکومت کی طرف سے کسی قسم کی تیاری نہ کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ آبی ذخائر کی تعمیر کا معاملہ سیاست کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے اور اب بھی ملک کی بعض مقبول سیاسی جماعتیں ملک میں ڈیمو ں کی تعمیر کے سلسلہ میں سنجیدہ نہیں ہیں۔

خصوصاً کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ان سیاسی جماعتوں کو شدید تحفظات ہیں حالانکہ ان تحفظات کا حقائق سے کوئی بھی واسطہ نہیں ہے۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی کا خیال ہے کہ بجلی کے بحران سے تو آئندہ تین چار برسوں میں نپٹ لیا جائے گا لیکن پانی کا مسئلہ طویل مدتی ہے اور پھر یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جو آئندہ دو تین یا چار پانچ برسوں میں حل نہیں ہو گا۔

پانی کے مسئلہ کے حوالے سے بات کی جائے تو اسے پاکستان کی بدقسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز کو ہر سال سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سیلاب کے نتیجے میں نہ صرف بے حساب جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں بلکہ دریاوٴں کے کٹاوٴ سے زرعی زمینیں دریا برد اور زرعی فصلیں تباہ و برباد ہوتی رہتی ہیں۔ اگر ملک میں زیادہ آبی ذخائر تعمیر کئے جاتے تو ہمیں ہر سال آنے والے سیلابوں کا کبھی سامنا نہ کرنا پڑتا بلکہ اس سیلابی پانی کو ذخائر میں اکٹھا کر لینے کی صلاحیت کے حامل ہوتے۔

ہمارے مقابلے میں بھارت نے آبی ذخائر کی تعمیر میں کوئی دقیقہ فروگذاشت اٹھا نہیں رکھا اور وہ ڈیم پر ڈیم تعمیر کرتا رہا۔ اس نے کئی ڈیم تعمیر کر لئے اور اب بھی ڈیموں کی تعمیر بھارت کی ترجیحی پالیسی ہے۔ وہ سیلابی پانی سے اپنے آبی ذخائر کو لبریز کرتا ہے اور ہمارے ہاں اس حوالے سے مایوسی ہی مایوسی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زیرزمین پانی کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اور سطح زمین کے اوپر نئے آبی ذخائر کے نہ ہونے کی بدولت پانی کا ضیاع ہو رہا ہے۔

پھیلتی ہوئی صنعتوں اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے آزادی کے بعد 2000 ء تک نہروں کی تعمیر کی وجہ سے پاکستان کے زرعی علاقوں میں دوگنا اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان کے زمینی آبی وسائل کا انحصار وہی 1960ء کے عشرے والا ہے۔ انڈس سسٹم یا دریائے سندھ کے نظام میں آبی وسائل کا انحصار ان دریائی ریلوں پر ہے۔ دریائے سندھ کے لئے کالاباغ بیراج یا بعض اوقات تربیلا کے ذخائر، دریائے جہلم کے لئے منگلا، دریائے چناب کے لئے مرالہ بیراج، دریائے راوی کے لئے بلوکی بیراج اور دریائے ستلج کے لئے سلیمانکی بیراج اور دریائے سندھ کے مغرب کی جانب کئی دیگر آبی راستے بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔

ان میں سب سے بڑا آبی راستہ دریائے کابل ہے۔ ان تمام دریاوٴں میں پانی کا بہاوٴ موسم بہار اور اوائل گرما میں مون سون کی بارشوں اور پہاڑوں پر برف کے پگھلنے سے شروع ہوتا ہے اور جولائی اگست میں اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ نومبر سے فروری تک دریاوٴں میں پانی کی کمی آ جاتی ہے اور گرمیوں کے مقابلے میں دسواں حصہ رہ جاتا ہے۔ ان بڑے دریاوٴں کے علاوہ ندی نالے موسمی نوعیت کے ہیں جن کا انحصار بارش کے پانی پر ہے۔

سردیوں میں ان میں پانی بالکل نہیں ہوتا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مجموعی دریائی پانی کا 65فیصد حصہ اکیلا دریائے سندھ مہیا کرتا ہے۔ دریائے جہلم اور دریائے چناب کا حصہ بالترتیب 17فیصد اور 19فیصد ہے۔ پاکستان میں آبپاشی کا نظام بہترین نظام ہے جو کہ تین بڑے آبی ذخائر 16بیراجوں، 2ہیڈ ورکس، 12باہم طور پر منسلک نہروں اور 44نہری نظام راجباہوں اور 107000 آبی کھالوں پر مشتمل ہے۔

نہروں کی کل لمبائی 56073کلومیٹر اور آبی کھالوں کی کل لمبائی 16لاکھ کلومیٹر ہے جبکہ نہری پانی کا اوسط بہاوٴ 104 ایم اے ایف ہے۔ آبپاشی کے تمام ذرائع جن میں ٹیوب ویل اور نجی کنوئیں بھی شامل ہیں ان سے حاصل کردہ پانی سے سیراب ہونے والا رقبہ 18ملین ہیکٹرز پر مشتمل ہے۔ پانی نہ صرف زراعت و خوراک کی پیداوار کے لئے ناگزیر ہے بلکہ ملک کی صنعتیں اور توانائی کے شعبوں کی کامیابی کا بھی ضامن ہے۔

یو این او ورلڈ اسسمنٹ پروگرام کے مطابق عالمی آبادی میں سالانہ آٹھ کروڑ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث پانی کی سالانہ طلب 1.5فیصد 64ارب کیوبک میٹر کے تناسب سے بڑھ رہی ہے جبکہ گذشتہ پچاس سالوں کے دوران آبادی میں اضافہ کے باعث پانی کا استعمال پہلے ہی تین گنا بڑھ چکا ہے۔ عالمی سطح پر ایک ارب سے زائد افراد کو صاف اور محفوظ پانی تک رسائی نہیں جبکہ دوسری جانب دنیا کے 60 فیصد قابل استعمال پانی کے ذخائر مشترکہ طور پر 10ممالک کے استعمال میں ہیں۔

ملک میں پانی کے استعمال کا موازنہ کیا جائے تو پاکستان زراعت میں پانی کے استعمال کے حوالے سے دنیا کا چوتھا ملک ہے۔ حکومتی ذرائع سے آبادی کو پانی کی فراہمی اور اس کے استعمال کو دیکھا جائے تو دنیا میں پاکستان 8ویں نمبر پر ہے۔ صنعتوں میں پانی کے استعمال میں ملک کی 41ویں پوزیشن ہے جبکہ پاکستان پانی چوری کے حوالے سے 81واں ملک ہے۔ اس لحاظ سے حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے مستقبل کو پانی کے حوالے سے محفوظ بنانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pani Bohraan Or Pakistan Ka Mustaqbil is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 April 2015 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.