پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام کی ضرورت؟

اگر جمہوریت کا مطلب صرف اور صرف پارلیمانی نظام لیا جائے اور صدارتی نظام کوہر صورت آمریت گردانا جائے، جب قانون اربوں کی لوٹ مار میں ملوث ہر بڑی مچھلی کے سامنے بے بسی کی تصویر بن جائے مگر سائیکل چور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو،جہاں چند دہائیوں میں

جمعرات 10 مارچ 2016

Parliamani Nizam Ki Bajaye Sadarti Nizaam Ki Zarorat
ایم۔ اے سلہری:
اگر جمہوریت کا مطلب صرف اور صرف پارلیمانی نظام لیا جائے اور صدارتی نظام کوہر صورت آمریت گردانا جائے، جب قانون اربوں کی لوٹ مار میں ملوث ہر بڑی مچھلی کے سامنے بے بسی کی تصویر بن جائے مگر سائیکل چور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو،جہاں چند دہائیوں میں ملک کی نصف سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہو جائے اور غربت کے تھپیڑوں سے تنگ لوگوں میں خود کشیوں کا رحجان پروان چڑھنے لگے۔

جب بھتہ کی عدم ادائیگی ناقابل معافی جرم بن جائے اور اس جرم کی پاداش میں سینکڑوں بے گناہ افراد کو کیمیکل چھڑک کر زندہ جلا دیا جائے مگر مجرم یونہی دندناتے پھریں جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے سزائے موت کی توثیق کے باوجود ہزاروں قاتل سزاء پر عملدرآمد سے بچے رہیں، جب تعلیم غریب کی دسترس باہر ہو جائے اور غریب بے کسی میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جائے اور بیماری کی صورت میں دوائی کی بجائے ہسپتال سے دھکے اس کا مقدر بنیں،جب بے روزگاری عام ہو اور تعلیم یافتہ نوجوان ترقی یافتہ ملکوں میں گھس کر قسمت آزمائی میں عافیت محسوس کرنے لگیں،جب ٹیکس چوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے کرتوتوں کی بنا پر مہنگائی کا جن بے قابو ہو کر غریب کا جینا محال کر دے، جب سیاست خدمت کی بجائے کاروبار بن جائے، جب نظام جمہور کی بجائے اشرافیہ کے تحفظ اور فروغ تک محدود ہو کر رہ جائے، جب دشمن کو اپنے مذموم ایجنڈے کیلئے ہماری اپنی صفوں سے طاقتور کارندے بکثرت دستیاب ہوں، جب قوم بیرونی چیرہ دستیوں یا ذاتی مفادات کی جنگ کے نتیجے میں اتحاد تنظیم ایمان کی مثال بننے کی بجائے سندھی پنجابی پشتون بلوچ اور مہاجر کے علاوہ سنی شیعہ، بریلوی، وہابی اور دیوبندی یا ذات برادری میں اس حد تک منقسم ہوتی جائے کہ قومی مفاد بھول جائے تو اسے بد نصیبی کی بجائے جمہوریت کا حسن قرار دینا غلط فہمی ہی نہیں نا قابل معافی نا انصافی بھی ہے۔

(جاری ہے)

جمہوریت وہ ہے جو جمہور کے آئینی اور قانونی حقوق کی ضامن ہو۔ پارلیمانی نظام میں عوام کو صرف اپنے اراکین اسمبلی منتخب کرنے کا موقع ملتا ہے۔ صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہوتابلکہ انہیں صرف اراکین اسمبلی ہی چن لیتے ہیں۔ظاہر ہے ایسی صورتحال میں عوام ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اسمبلی میں اکثریت کھو کر وزیر اعظم اپنے عہدے پر قائم نہیں رہ سکتا۔

اسلئے اس نظام میں رہ کر وزیر اعظم ممبران اسمبلی کی منشاء کے بر خلاف عوام کیلئے کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا کیونکہ ممبران کی مخالفت کا خطرہ مول لینا وزیر اعظم کیلئے مہنگا سودا ثابت ہو سکتا ہے۔ ممبران کروڑوں روپے لگا کر انتخاب جیتتے ہیں لہٰذا وہ کسی صورت اپنا مفاد داؤ پر نہیں لگا سکتے۔یہی وہ خامی ہے جس کی بنا پر پارلیمانی نظام کوپاکستان جیسے ملک میں جہاں معاشی نا ہمواری، طبقاتی تقسیم اور ذاتی مفاد کی جنگ عروج پر ہے عوام کے بنیادی آئینی حقوق کا ضامن بننے میں ناکامی کا سامنا ہے۔

بھارت میں بھی پارلیمانی نظام تسلسل سے چلنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں یہ نظام کامیاب ہے۔ کامیابی کا دارومدار عوامی حقوق کے تحفظ پر ہوتا ہے۔وہاں بھی طبقاتی تقسیم ہے ناہمواری ہے غریب کی حالت پتلی ہے۔ برطانیہ میں پارلیمانی نظام اگرچہ کامیابی سے چل رہا ہے مگر وہاں اس نظام کی کامیابی کا راز لٹریسی ریٹ، ذہنی اور معاشی بے فکری، طبقاتی تقسیم کے فقدان اور قانون کی حکمرانی میں پنہاں ہے۔

وہاں دھونس دھاندلی سے کوئی ووٹ نہیں دیتا، وہاں پاکستانی بچے کو کتے کے کاٹنے پر ملکہ کی بیٹی کو مجسٹریٹ کی عدالت میں بر وقت پیش ہو کر معافی کی خواستگار ہونے کے باوجود جرمانہ ہو سکتا ہے۔وہاں کا پولیس چیف وزیر اعظم کیلئے ٹریفک بند کرنے سے انکار کے بعد بھی عہدے پر بحال رہ سکتا ہے۔وہاں تحریری دستور نہ ہونے کے باوجود روایات کی خلاف ورزی ممکن نہیں۔

وہاں قول وفعل میں تضاد کی بجائے یکسانیت عام ہے۔ پاکستان کے زمینی حقائق مختلف ہیں یہاں پارلیمانی نظام عوامی مسائل کا حل نہیں۔اگر ہم واقعی جمہور کے بنیادی آئینی و انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں تو پارلیمانی نظام پر بضد رہنے کی بجائے ضروری ردوبدل کے ساتھ صدارتی نظام پر غور کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔اگر عوام کو بالغ رائے دہی کی بنا پر اپنے صدر کا براہ راست انتخاب کرنے کا موقع ملے تو حکومت زیادہ اعتماد، طاقت اور انصاف سے فیصلے کر سکتی ہے۔

صدر کو اسمبلی ،سینیٹ کے علاوہ عوام سے براہ راست لئے گئے وزیروں پر مشتمل مختصر کابینہ بنانے کا اختیار ملے تو کابینہ میں زیادہ قابل اور محنتی وزیر شامل ہو سکتے ہیں۔جمہوری نظام میں ادارے مکمل آزاد ہوتے ہیں ۔عدلیہ آزاد ہوتی ہے اور اسکے فیصلوں پر عملدرآمد بلا تاخیر ہوتا ہے۔ قانون کی رٹ ہوتی ہے اور گنے چنے مقدمات ہوتے ہیں لہٰذا ججوں کی فوج ظفر موج بھرتی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

عدلیہ سمیت اعلیٰ و ادنیٰ ملازمتوں پر بھرتیاں پبلک سروس کمیشن جیسے اداروں کی سفارش کے بغیر نہیں ہوتیں ۔ترقیاتی کام ماسوائے چند میگا پراجیکٹس کے صرف بلدیاتی اداروں کے دائرہء کار میں آتے ہیں ۔کرپشن کی صورت میں حکومت بڑے سے بڑے سیاسی و غیر گروہ کو ہاتھ ڈالنے کی پوزیشن میں ہو تی ہے۔ صدارتی نظام پارلیمانی نظام کی نسبت زیادہ مضبوط منظم اور فعال ہوتا ہے لہٰذا زیادہ مستعدی اور میرٹ سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

عام تاثر یہ ہے کہ صدارتی نظام آمرانہ نظام ہے جوکہ غلط ہے۔ ہاں یہ درست ہے اگر آئینی نقائص ہوں تو اس کا خدشہ ممکن ہے مگر جہاں چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہو وہاں کو ئی من مانی نہیں کرسکتا۔ چیک اینڈ بیلنس کے بغیر پارلیمانی نظام سمیت کوئی نظام بھی آمرانہ ذہنیت کی زد سے نہیں بچ سکتا۔پارلیمانی نظام انتہائی مہنگا نظام ہے جس کا متحمل قرضوں سے چلائے جانیوالا کوئی ملک نہیں ہو سکتاجبکہ صدارتی نظام کم خرچ اور بالا نشین کے مصداق زیادہ بہتر طور پر ڈیلیور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Parliamani Nizam Ki Bajaye Sadarti Nizaam Ki Zarorat is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 March 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.