پنجاب حکومت تعلیمی بل میں فوری طور پر ترمیم کرے

1947ء میں جب پاکستا ن بنا تو شرح خواندگی 17 فیصد تھی جس کو اگر ہر سال ایک فیصد ہی بڑھایا جاتا تو اب تک خواندگی کی شرح کو بڑھ کر 68 فیصد ہونا چاہیے تھا مگر حکومت کی جانب سے تعلیمی پالیسیوں میں یکے بعد دیگرے تبدیلیوں کے باعث فروغ تعلیم کا عمل سست روی کا شکار رہا ہے

جمعرات 17 مارچ 2016

Punjab Hakomat Taleemi Bill Main Foori Torr Per Tarmeem Kare
ادیب جاودانی:
1947ء میں جب پاکستا ن بنا تو شرح خواندگی 17 فیصد تھی جس کو اگر ہر سال ایک فیصد ہی بڑھایا جاتا تو اب تک خواندگی کی شرح کو بڑھ کر 68 فیصد ہونا چاہیے تھا مگر حکومت کی جانب سے تعلیمی پالیسیوں میں یکے بعد دیگرے تبدیلیوں کے باعث فروغ تعلیم کا عمل سست روی کا شکار رہا ہے ۔ وفاقی وزارت تعلیم کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 46 فیصد ہے جبکہ خواتین کی شرح خواندگی 26 فیصد ہے۔

پاکستان میں آج بھی کئی علاقوں میں عورتوں کی تعلیم پر پابندی ہے حالانکہ اسلام مرد اور خواتین دونوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ پاکستان میں تعلیم پر بہت کم بجٹ خرچ کیا جاتا ہے۔ سیاستدان اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ تعلیم کے فروغ کو اپنی ترجیح بنائینگے اور تعلیم کا بجٹ 4 فیصد کیا جائیگا مگر قومی بجٹ میں تعلیم کیلئے صرف 2 فیصد بجٹ مختص کیا جاتا ہے اور مالی سال کے دوران 2 فیصد بجٹ بھی تعلیم پر خرچ نہیں کیا جاتا ۔

(جاری ہے)

حکمرا ن اشرافیہ عوام کو جاہل رکھنا چاہتی ہے تا کہ ان کا استحصال ہوتا رہے اور اشرافیہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتی رہے۔ہماری ہر حکومت میں جاگیر دار اور وڈیرے رہے ہیں۔ انہوں نے تعلیم اس لیے عام نہیں ہو نے دی کہ اگر تعلیم عام ہو گئی تو عوام کو اپنے حقوق حاصل کرنے کا شعور حاصل ہو جائیگا۔ قوم کو جاہل رکھنے اور قومی دولت لوٹنے میں ان وڈیروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

پاکستان میں یکساں نظام تعلیم سول اور فوج حکمرانوں نے اس لئے نہیں بننے دیا کہ اگر ایسا ہو گیا تو غریب کا بچہ بھی ڈاکٹر اور انجینئر بن جائیگا۔ یکساں معیار اور نظام کیلئے ضروری ہے کہ گورنمنٹ اپنے تعلیمی اداروں کا معیار بہتر بنائے۔ کیونکہ گورنمنٹ ٹیچرز بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھا رہے ہیں۔ جب تک یکساں نظام تعلیم نہیں ہوگا ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔

بھارت نے آزادی حاصل کرتے ہی وہاں یکساں نظام تعلیم رائج کر دیا تھا۔ بھارت میں پرائیویٹ سکولوں پر کوئی ٹیکس نہیں، حتیٰ کہ انکم ٹیکس بھی نہیں ہے اور وہ حکومت کی ہدایت پر 10% بچوں کو مفت پڑھاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میاں عامر محمود جو پنجاب گروپ آف کالجز کے چیئر مین ہیں نے مجھے بلایا تھا اور پرائیویٹ سکولوں پر 23 قسم کے ٹیکسوں کی ایک فہرست مجھے دکھائی تھی۔

انکا کہنا تھا کہ ان ٹیکسوں کی وجہ سے ادارے چلانے مشکل ہو گئے ہیں۔ اگر حکومت سارے ٹیکسز ختم کر دے تو ہم 10% بچوں کو مفت پڑھا سکیں گے۔ ویسے ہم مون لائٹ سکولز سمیت تمام اداروں میں اپنی گنجائش کیمطابق یتیم اور نادار بچوں کو مفت تعلیم دے رہے ہیں۔پرائیویٹ سکولز پہلے ہی کم فیسوں میں بچوں کو اچھی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ پنجاب کے 97% سکول ایک سو روپے سے 15 سو روپے تک فیسیں لیتے ہیں جبکہ انہیں بھی ایلیٹ سکولوں کی طرح 23 قسم کے ٹیکس بھی ادا کرنے پڑتے ہیں۔

تعلیم دینا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ پنجاب حکومت کا جماعت اول سے انٹر میڈیٹ تک ہر طالب علم پر دو ہزار روپے ماہانہ خرچ آتا ہے جبکہ نجی تعلیمی ادارے لاکھوں بچوں کو تعلیم دیکر حکومت پنجاب کے سالانہ 30 ارب روپے بچا رہے ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے فروغ تعلیم کے لیے بڑا کام کر رہے ہیں ان اداروں کی وجہ سے ہی شرح خواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن حکومت نجی اداروں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔

حال ہی میں پنجاب حکومت نے پرائیویٹ سکولوں کے بارے میں جو قانون بنایا ہے اس کا مقصد پرائیویٹ سکولوں کو تباہ کرنا ہے۔ پرائیویٹ سکولوں کی وجہ سے ہی خواندگی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن حکومت پرائیویٹ سکولوں کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کر رہی۔ وفاقی اور پنجاب حکومت نے پرائیویٹ سکولوں پر 23 قسم کے ٹیکسز کا نفاذ کر رکھا ہے انکی وجہ سے گزشتہ تین سالوں میں پنجاب کے 30 ہزار سکول بند ہو چکے ہیں اور باقیوں کی بندش کا عمل جاری ہے۔

پنجاب اسمبلی نے پرائیویٹ سکولوں کے خلاف جو بل پاس کیا ہے اسے ہم مسترد کرتے ہیں ہم نے گورنر پنجاب کے آرڈی ننس اور نوٹیفیکیشن کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے جس کی سماعت فل بنچ روزانہ کر رہا ہے۔ لہٰذا جب کوئی معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہو اور عدالت عالیہ نے حکم امتناعی بھی جاری کر رکھا ہو تو پنجاب اسمبلی کا بل پاس کرنا قانون اور آئین کے منافی ہے اور توہین عدالت بھی ہے۔

اس بل کیخلاف ہم نے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر دی اور اس بل کیخلاف ہمیں حکم امتناعی بھی مل گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب حکومت تعلیمی بل میں فوری طور پر ترمیم کر کے فیسوں میں 5 فیصد کی بجائے 10 سے 15 اضافہ کرنے کی اجازت دے اور رجسٹریشن نہ کروانے والے پرائیویٹ سکولوں کو 30 ہزار سے لاکھوں روپے تک جرمانے وصول کرنے کی شق کو ختم کیا جائے اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ٹیکسز سے مستثنیٰ کیا جائے وگرنہ تعلیمی ادارے بند ہو جائینگے اور پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر میں اعلیٰ کوالٹی کی تعلیم حاصل کرنیوالے لاکھوں بچوں کی تعلیم ضائع ہو جائیگی۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب بھر میں ایک لاکھ نجی سکول ہیں جو فروغ تعلیم میں حکومت کا ہاتھ بٹا رہے ہیں اگر صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہور احمد خان نے اپنے وعدوں کیمطابق فروغ تعلیم بل میں ترامیم کر کے پرائیویٹ سکول مالکان کے تحفظات دور نہ کئے تو اس بل کیخلاف ایسا احتجاج ہو گا کہ پنجاب کے ایک لاکھ نجی تعلیمی ادارے بند کر کے پرائیویٹ سکولوں کے مالکان اور ان کا عملہ سڑکوں پر ہو گا اور لاکھوں اساتذہ کی بیروزگاری کے ذمہ دار حکمران ہونگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Punjab Hakomat Taleemi Bill Main Foori Torr Per Tarmeem Kare is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 March 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.