قانون کی سربلندی کا خواب

یک وقت تھا جب پورے برصغیر میں پنجاب پولیس کی ایک منفرد شناخت اور ساکھ تھی جسے بدقسمتی سے وقت کے تھپیڑوں نے آہستہ آہستہ زنگ آلود کر دیا ہے۔ وطن عزیز کو آزادی کی نعمت حاصل ہوئے ستر سال ہونے کو آ رہے ہیں لیکن پولیس کا سفر ترقی معکوس کا مظہر نظر آتا ہے

جمعرات 27 اپریل 2017

Qanoon Ki Sarbulandi
محکمہ پولیس میں سیاست کے مقابلے میں قانون کی بالادستی کے لیے ڈٹ جانے والے سابق ڈی پی او بہاولنگر شارق کمال صدیقی کم و بیش ایک سال تک او ایس ڈی رہنے کے بعد بالآخر ڈیوٹی پر واپس آ گئے ہیں ۔یقیناً ایک لمبے عرصے پر محیط یہ وقت انتہائی صبر آزما تھا تاہم لا قانونیت کے سامنے مزاحمت کا اپنا ذائقہ ہے جس کی قیمت تو بہرحال چکاناہی پڑتی ہے اور پھر یہ اس حلف کا بھی تقاضا ہے جو فورسز میں شمولیت کے وقت ایک جوان آفیسر خود اپنے ضمیر اور قوم کے سامنے قانون کی حکمرانی کے لئے اٹھاتا ہے۔

جس سے انصاف کی راہیں کھلتی ہیں اور قومیں تیزی سے ترقی کے مراحل طے کرتی ہیں۔ایک وقت تھا جب پورے برصغیر میں پنجاب پولیس کی ایک منفرد شناخت اور ساکھ تھی جسے بدقسمتی سے وقت کے تھپیڑوں نے آہستہ آہستہ زنگ آلود کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

وطن عزیز کو آزادی کی نعمت حاصل ہوئے ستر سال ہونے کو آ رہے ہیں لیکن پولیس کا سفر ترقی معکوس کا مظہر نظر آتا ہے جس کی بنیادی وجہ اسے جان بوجھ کر سیاست زدہ بنانا ہے انگریز نے اپنی ضرورت کے تحت ہماری پولیس کی صورت گری کی تھی۔

تاہم آزادی کے بعد ہمارے حکمران طبقات نے بھی اپنے عوام کو غلام رکھنے کے لیے پولیس سے وہی کام لینے کی کوشش کی ہے جو بدیشی حکمران لیا کرتے تھے حالانکہ اس دوران خود انگریز نے تو لندن پولیس جیسا ایک ممتاز ادارہ تشکیل دے دیا ہے۔ جس کی آج ایک بین الاقوامی شہرت اور ساکھ ہے لیکن ہم اس سفر میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں ہمارے ہاں بھی متعدد پولیس آرڈرز متعارف کرائے گئے ہیں لیکن سیاسی ترجیحات اور مجبوریوں نے ان پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا جس کا نتیجہ آج پوری قوم، لاقانونیت اور ناانصافی کی شکل میں بھگت رہی ہے۔

شہریوں اور پولیس کے مابین باہمی رابطوں اور تعاون کے حصول کے لیے بعض فرض شناس پولیس افسران کی طرف سے کمیونٹی پولیسنگ سسٹم اور سی پی ایل سی کے تصورات بھی مختلف اوقات میں پیش کیے جاتے رہے ہیں تا ہم یہ سوچ کبھی بھی ریاست کی پالیسی نہیں بن سکی اور نہ ہی اسے قانونی شکل دی جاسکی ہے۔
گزشتہ تین عشروں سے قوم دہشتگردی کا شکار ہے جس کے لیے اب تک ہزاروں پاکستانی ،اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ افواج پاکستان، پولیس، رینجرز، ایف سی اور دیگر سکیورٹی فورسز کے جوان اس کے علاوہ ہیں جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں شہادتوں کا یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انھیں قربانیوں کی بدولت ہی آج وطن عزیز میں خوف کی جگہ امید لے چکی ہے فساد امن میں بدل چکا ہے اور ہیجان ٹھہراوٴ میں متشکل ہو رہا ہے جس کا اعتراف آج عالمی برادری بھی پاکستانی فورسز کی تحسین کی شکل میں خود کر رہی ہے۔آبادی میں ہونے والے بے ہنگم اضافے کے باعث جرائم کی نت نئی شکلیں ہمارے سامنے آ رہی ہیں جن کا مقابلہ کر نے کے لیے ضروری قانون سازی اور ادارے تشکیل دینے کی بجائے، پولیس کا استعمال ایک آسان نسخہ سمجھ لیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج امن و امان قائم رکھنے کی بجائے پولیس وی وی آئی پیز موومنٹ کو ہموار رکھنے، سڑکوں، پلوں، ریلوے، ایئرپورٹ، اشرافیہ کے گھروں اور اب سی پیک کے تحفظ کے لیے بھی تعینات ہے جس کی قیمت پورا سماج چکا رہا ہے روبوٹ کی طرح پولیس اہلکار چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دینے کے پابند ہیں ۔جبکہ محکمہ میں چھٹی کا تصور سرے سے ہی ناپید ہے گشت کے نام پر اہلکار،چوری چھپے گھر سے ہو آئیں،تو علیحدہ بات ہے۔

نچلی سطح پر تعینات پولیس اہلکاروں کے لیے وافر وسائل کی عدم فراہمی اور تقرری و تعیناتی میں بے جا حکومتی مداخلت نے پہلے سے ہی مخدوش صورتحال کو مزید ابتر کر دیا ہے جس کے مظاہر جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں۔
کے پی کے پولیس میں اصلاحات کی روشناسی اور برآمد ہونے والے مثبت نتائج ابھی کل ہی کی بات ہیں جن کا اعتراف آج پورا ملک تو کیا؟ عالمی سطح پر بھی ہو رہا ہے اگلے ہی روز مشال قتل کیس میں خود نوٹس لیے جانے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے نا صرف کے پی کے پولیس کی کارکردگی کو سراہا بلکہ زیر سماعت مقدمے کے حوالے سے آئی جی پولیس سے وابستہ توقعات کا ذکر کر کے محکمہ کی احسن کارکردگی کا عملی طور پر خود بھی اعتراف کیا ہے۔

قانون کی سر بلندی کے لیے یہی صورتحال پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بھی با آسانی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے ہمارے حکمران طبقات کو سیاست سے اوپر اٹھنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر شارق کمال صدیقی، اے ڈی خواجہ اور اسلام آباد پولیس کیسابق ایس ایس پی آپریشن محمد علی نیک و کارہ جیسے نیک نام پولیس افسران کے ساتھ حکمرانوں کی طرف سے روا رکھی جانے والی نا انصافی کی مثالیں قائم ہوتی رہیں گی۔

جن کی قیمت پورا معاشرہ بد امنی کی صورت میں چکاتا رہے گا۔بیس کروڑ کی آبادی پر مشتمل وطن عزیز میں آج بھی بے شمار پولیس افسران دل سے ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے صرف میرٹ کے متمنی ہیں تاکہ وہ بلا خوف‘ قوم کی خدمت اور تعمیر وطن میں اپنا حصہ ڈال سکیں حال ہی میں پنجاب حکومت نے آئی جی اور چیف سیکریٹری کی مراعات میں لاکھوں روپے ماہانہ اضافہ کیا ہے۔

اگر اسی نسبت سے صوبے کے تین درجن اضلاع کے ڈی پی اوز اور ڈی سیز کی مراعات میں بھی اضافہ کر دیا جائے تو گورنینس میں فوری طور پر بہتری لائی جا سکتی ہے اور اگر یہ سلسلہ نچلی سطح تک لایا جا سکے تو اصلاح احوال کی مزید گنجائش بھی نکل سکتی ہے لیکن اس کے لیے ہماری اشرافیہ کو کھلے دل کی ضرورت ہے جس کے امکانات فی الوقت کم کم ہی نظر آتے ہیں۔
قانون کی حکمرانی کے لئے ہمہ وقت تیار‘ محکمہ پولیس بھی کیا خوب محکمہ ہے! جسے ایک طرف تو پورا سماج تنقید کے نشانے پر لیکر لطف اٹھاتا ہے جبکہ دوسری طرف خود محکمہ بھی اپنے دامن سے وابستہ افسران اور اہلکاروں کے تحفظ کی بجائے، وقت کے حکمرانوں کے دباوٴ کو برداشت کرنے کی سکت آہستہ آہستہ کھو رہا ہے۔

حالانکہ دفاع وطن کی ضامن افواج پاکستان اور دیگر سکیورٹی اداروں کی طرح محکمہ پولیس بھی اپنی جگہ پر شہیدوں کا وارث ایک قومی محکمہ ہے اور اگر یہاں بھی میرٹ کی بالادستی ، پوسٹنگ ٹرانسفر میں عدم مداخلت، کرپشن پر قد غن ،وافر وسائل کی یقینی فراہمی، حکمران طبقات کے دباو کو نظر انداز کرنے، وقت کے تقاضوں کے مطابق نئی قانون سازی اور ضروری اصلاحات متعارف کروا دی جائیں۔

تو وطن عزیز میں بھی مختصر ترین عرصے میں امن و امان کی مثالی صورتحال پیدا کی جا سکتی ہے جس کے نتیجے میں ناصرف ایک عرصے سے پاکستانیوں کی آنکھوں میں سموئے ، قانون کی سر بلندی کے خواب کی تعبیر ممکن بنائی جاسکتی ہے بلکہ پاکستان ،شاہرا ئے ترقی پر تیزی سے سفرطے کرتا ہوا قوموں کی برادری میں بھی ایک ممتاز مقام حاصل کر سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Qanoon Ki Sarbulandi is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 April 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.