کوئٹہ میں دہشت گردی کی نئی لہر

ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ھنوز جاری 2013ء سے اب تک اگست میں تین خودکش حملوں میں 130 افراد افراد شہید ہوئے

جمعرات 24 اگست 2017

Queta Me  Dahshat Gardi Ki Naii Lehar
عدن جی:
گزشتہ سال 8 اگست کا دلخراش واقعہ بھی کوئٹہ کے لوگ بھلا نہیں پائے تھے کہ ایک بار پھر شہر کو خون میں نہلا دیا گیا اور لوگوں پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ گیا ۔ دراصل یہ ملک دشمن عناصر کی سازش تھی کہ شہریوں کو جشن آزادی کی خوشیاں منانے سے روکا جائے اور انہیں اس قدر ہراساں کر دیا جائے کہ وہ گھروں میں محصور ہوجائے اور 14 اگست کی تقریبات کا حصہ نہ بن سکیں۔

12 اگست کی رات 9 بجکر20 منٹ پر ایک نامعلوم خودکش بمبار نے اپنی موٹر سائیکل شپین بس سٹاپ پر سکیورٹی فورسز کے ایک ٹرک سے ٹکرادی جس سے ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کی آواز تقریباََ پورے شہر نے سنی۔ اس افسوسناک واقعہ میں تقریباََ 16 افراد جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہوئے۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے عملے کے مطابق اس خودکش حملے میں 20 سے 25 کلوبارود اور آگ لگانے والا مواد استعمال کیا گیا جس سے شہید ہونے والے بری طرح جھلس گئے اس افسوسناک واقعہ نے ایک مرتبہ پھر کوئٹہ کے عوام کے دکھ بھرے چہرے مرجھا گئے۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری جو کہ لاہور میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے استقبالی جلسے میں تھے ۔ اطلاع ملتے ہی جلسے کو ادھورا چھوڑ کر کوئٹہ پہنچے ان کے ہمراہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال بھی کوئٹہ تشریف لائے جہاں انہوں نے سول ہسپتال کو ئٹہ اور سی ایم ایچ میں زخمیوں کی عیادت کی اور رات گئے امن وامان سے متعلق ایک اعلیٰ سطح ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں کمانڈر سدرن ،کمانڈر صوبائی وزراء،آئی جی پولیس اور دیگر فوجی و سول حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں صوبے میں امن وامان سمیت سکیورٹی کی صورتحال کا ازسر نو جائزہ لیا گیا اور اس حوالے سے بعض اہم فیصلے کئے گئے جبکہ واقعے کی اگلی صبح آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی کوئٹہ پہنچے جہاں انہوں نے اس افسوسناک واقعے میں شہید ہونے والے شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کی اس موقع پر ان کے ہمراہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری ، کمانڈر سدرن،کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض اور وفاقی وزیر احسن اقبال بھی ان کے ہمرہ تھے۔

کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری اور وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے وفاقی و صوبائی حکومتیں اور سکیورٹی ادارے دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں دہشت گردی ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے لہذا اپوزیشن جماعتیں دہشتگردی کو شکست دینے کے لئے حکومت کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کریں ہمیں تمام اختلافات بھول کر اتحاد سے اس جنگ کو جیتنا ہوگا۔

بعض سیاسی تجریہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت سکیورٹی فورسز اور دیگر ادارے دہشت گردی کو روکنے کیلئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لارہے ہیں جس میں انہیں کافی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے جس کی واضح مثال بلوچستان میں امن وامان کے حوالے سے کافی بہتری آنا ہے۔ تاہم خودکش حملوں کر روکنا ممکن نہیں اس کے سدباب کیلئے کوئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کہ خودکش حملہ آور کو کاروائی سے پہلے ہی روکا جائے جو کہ ایک مشکل ٹاسک ہے اس کے علاوہ اپنے ہمسایہ ممالک خصوصاََ افغانستان اور ایران کے بارڈرز پر بھی ہمیں سخت نگرانی کرنا ہوگی جہاں سے انہیں تربیت دے کر پاکستان میں داخل کیا جارہا ہے اور پاکستان میں موجود ان کے سہولت کاروں کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے لئے اگست کا مہینہ بہت بھاری رہا ۔ 2013ء سے اب تک اگست میں کوئٹہ میں تین خودکش حملوں میں ڈی آئی جی آپریشن، پولیس وایف سی افسران و اہلکاروں وکلا اور صحافیوں سمیت 130 افراد شہید اور 170 زخمی ہوچکے ہیں اگست کے مہینے میں آٹھ اگست 2013ء کو پولیس لائن میں ایس ایچ سٹی محب اللہ دادی کی نماز جنازے سے قبل ہونے والے خودکش حملے میں اس وقت کے ڈی آئی جی آپریشن فیاض سنبل، ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر شمس الرحمن ، ایس پی انور خلیجی سمیت 42 پولیس افسران واہلکار شہید اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے، گزشتہ سال 8 اگست کو سول ہسپتال میں خودکش حملہ میں 56،وکلا2 صحافیوں سمیت 73 افراد جاں بحق اور 100کے قریب زخمی ہوگئے تھے اگست کے ہی مہینے میں تیسرا خودکش حملہ گزشتہ روز جشن آزادی میلے کی ڈیوٹی کیلئے ایوب سٹیڈیم جانے والے سکیورٹی فورس کے ٹرک پریشین سٹاپ ہو۔

دوسری جانب گزشتہ سال8 اگست کو رونما ہونے والے سانحہ میں شہید ہونے والے وکلاء کا خلاء ابھی تک پورا نہیں ہوسکا نہ ہی دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جا سکا اور نہ ہی واقعے کی تحقیقات پر مبنی تحقیقاتی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جاسکا۔ ایک تو بیک وقت اتنے خاندانوں کے کفیل اور چشم چراغ گل ہوگئے۔ دوسرے عدالتی طور پر دیکھا جائے تو اتنے سینئر وکلا ء کے جانے سے عدالتوں میں تالے پڑگئے۔

بلوچستان میں تعلیم کی شرح افسوس ناک حد تک کم ہے۔ اب جو سنیئر وکلاء کی ٹیم دنیا سے چلی گئی تو نہ تو کوئی کلائنٹ کسی جونیئر وکیل کو کیس دینے کو تیار ہے اور قابل وکیل تو چلے گئے اتنے برسوں بعد ایک عدالتی استحکام آیا ہے جو ختم ہوگیا ۔ کئی ماہ تک تو احتجاج کے نام پر عدالتوں میں خاموشی کا راج رہا۔ رپورٹیں آئیں خاندانوں لواحقین کو مالی امداد دی گئی ۔

نوکریا دی گئیں۔ مگرمداوا نہیں ہوسکا نہ یہ تعین ہوسکا کہ چاہے غیر ملکی ہاتھ تھا۔ کلبھوشن یادیو کے ساتھی تھے مگر یہ طے ہے کہ آخر ان ایجنٹوں نے سہولت کا ر تو مقامی ہوں گے۔ کوئٹہ کے ہسپتال کو باوجود بے تحاشا فنڈ ملنے کے صحت کی سہولیات اور سکیورٹی کب ملے گی؟ قیمی جانیں ایسے ہی جاتی رہیں گی؟ دہشت گردی کے نام پر بلوچستان کیوں اتنی بھاری قیمت چکا رہا ہے۔

سی پیک کے حوالے سے سارا تاوان بلوچستان کیوں دے دہا ہے؟ یہ سب سوالات ہیں جو بلوچستان کے ہر شہری کے ذہن میں ہیں مگر جواب نہیں ہے۔ بلوچستان میں نیب کا کرپٹ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کرلیا گیا۔ سابق موجودہ صوبائی وزراء اور بیوروکریٹس کی فائلیں کھل گئیں۔ ان میں فولاک ، سی اینڈ ڈبلیو، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ، ریونیو، صحت ، بلدیات،تعلیم اور کیوڈی اے شامل ہیں۔ کافی عرصہ سے التوا میں پڑی فائلیں کھولنے اور بلا امتیاز کرپٹ عناصر کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم کے نااہل قراردیئے جانے کے بعد نیب نے تیزی سے اپنا کام کرنا شروع کردیا ہے۔ ان افراد میں سرکاری ملازمین بیوروکریٹس سب شامل ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Queta Me Dahshat Gardi Ki Naii Lehar is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 August 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.