سالمیت وبقاء پاکستان کے تقاضے

پاکستان میں سیاسی محاذ پر سر گرم بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے ان دنوں پاکستان میں فوجی عدالتوں کی افادیت پر مسلسل سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جس میں فوجی عدالتوں کے موثر اور مسئلے کا حقیقی حل نہ ہو نے ، مروجہ عدالتی نظام کو کمزور کر نے ،دوران سماعت انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے ،

پیر 9 جنوری 2017

Salmiyat O Baqa
پاکستان میں سیاسی محاذ پر سر گرم بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے ان دنوں پاکستان میں فوجی عدالتوں کی افادیت پر مسلسل سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جس میں فوجی عدالتوں کے موثر اور مسئلے کا حقیقی حل نہ ہو نے ، مروجہ عدالتی نظام کو کمزور کر نے ،دوران سماعت انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے ،کمرہ عدالت میں خوف کی کیفیت طاری ر ہنے اور ملک میں متوازی عدالتی نظام کا تاثر گہرا ہو نے جیسے اعتراضات شامل ہیں۔

ناقدین کا موقف ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے ملک میں فوجی عدالتیں قائم کر کے دراصل مذہبی قوتوں کو کمزور کر نے کی کوشش کی جارہی ہے اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام ،جمعیت اہل حدیث اور جماعت اسلامی کے نمائندے ابتک اپنی اپنی جگہ پر اعتراضات اٹھا چکے ہیں۔اپنی فطری عمر کے نصف کے دوران مارشل لاوٴں کی آماجگاہ رہنے والے پاکستان کے لیے فوجی عدالتوں کا نظام کوئی نیا موضوع نہیں ہے تا ہم ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے طبقات اور سول سوسائٹی نے کبھی بھی ان عدالتوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔

(جاری ہے)

کیونکہ ا ن عدالتوں میں بیشتر اوقات شواہد کو انصاف کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے، دستیاب شہادتوں کی روشنی میں ہی فوری طور پر فیصلے صادر کر دیے جاتے ہیں ۔جس کے نتیجے میں بسا اوقات نا انصافی کو فروغ حاصل ہوتا ہے تا ہم تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ فوری طور پر برآمد ہونے والے نتائج کے باعث جرم کی بڑھتی ہوئی رفتار سست پڑ جاتی ہے جس کے بطن سے امن و امان کی بہتر صورتحال پیدا ہوتی ہے تاہم ایسے اقدامات کو عارضی طور پر تو اپنایا جا سکتا ہے مستقل طور پر ہمیشہ رائج الوقت نظام پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے جس میں بہتری کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔


ان دنوں تنقید کے نشانے پر لی گئی فوجی عدالتیں دراصل کسی مارشل لاء کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ آرمی پبلک سکول پشاور میں زیر تعلیم پاکستان کے مستقبل کے معماروں کو دہشت گردوں نے خو ن میں نہلایا تو پوری قوم کے رد عمل کے نتیجے میں سیاسی و عسکری قیادت نے نیشنل ایکشن پلان کے عنوان سے ایک ایسی متفقہ قومی دستاویز تیار کی جس میں دیگر اقدامات کے علاوہ فوجی عدالتوں کے قیام سے بھی اتفاق کیا گیا۔

ملک میں ایک عرصے سے سزائے موت پر پابندی کے باعث بھی لوگوں میں قانون کا خوف کافی حد تک کم ہوگیا تھا تا ہم حکومت نے فوجی عدالتوں کے قیام اور عالمی دباوٴ کو پس پشت ڈالتے ہوئے موت کی سزا پر غیر اعلانیہ طور پرعائد پابندی کو اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔تو اس فیصلے کے نتیجے میں ملک میں عمومی طور پر سکھ کا سانس لیا گیا کیونکہ کسی بھی معاشرے میں سزا و جزا کے نظام کے بغیر دائمی طور پر امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔

اس وقت وطن عزیز میں قائم دہشت گردی کی فضاء ، خطے او ر عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف روز افزوں سازشیں اور بے یقینی کی شکار پاکستان کی حکومتوں نے ایک ایسے ماحول کو ملک پر مسلط کر رکھا تھا جس میں امن و امان کے آثار دور دور تک ناپید تھے۔ تا ہم ضرب عضب ، نیشنل ا یکشن پلان ،فوجی عدالتوں کے قیام اور قومی قیادت کی طرف سے یقین محکم کے مظہر اٹھائے گئے فوری اقدامات کے باعث ملک میں دہشت گردی اور بے یقینی کی بجائے‘ یقین اور امید کی فضاء نے جنم لیا۔


یہ درست ہے کہ پاکستان میں ہرسطح پر ایک تسلیم شدہ عدالتی نظام موجود ہے جہاں انتظامیہ کا بھی دخل نہیں ہے تا ہم پراسیکیوشن کے حوالے سے پیدا ہو نے والی شکایات اکثر و بیشتر میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ کراچی اور بعض دیگر بڑے شہروں میں ججوں اور گواہوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات اور بعض اوقات موت کے گھاٹ اتار ے جانے کی خبریں بھی عام رہی ہیں۔

یہی وجہ کہ ملک کے بعض حلقے سویلین عدالتوں کو در پیش چیلنجز اور خطرات کے پیش نظر کچھ عرصے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کی وکالت کرتے رہے ہیں تا کہ در پیش ہنگامی صورتحال اور حالات کے معمول پر آنے کے بعد فوجی عدالتوں کی جگہ دیگر سویلین اداروں کی طرح عام عدالتیں بھی اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ چنانچہ اسی نقطہ نظر کی پذیرائی کرتے ہوئے ملک میں گزشتہ دو سال کے دوران فوجی عدالتوں کو کام کر نے کا موقع دیا گیا جس کے باعث قومی اداروں پر حملہ آور متعدد دہشت گرد اور خوف کی علامت بنے ریاست کے باغی اپنے انجام کو پہنچے اورملک کی امن و امان کی صورتحال میں کافی بہتری دیکھنے میں آئی۔


تا ہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی فصل اگانے والے بیشتر لوگوں کا تعلق کیونکہ بعض مذہبی ،جنونی گروہوں کے ساتھ تھا ۔یہی وجہ ہے بعض مذہبی سیاسی جماعتیں مبہم انداز میں نیشنل ایکشن پلان کی بعض شقوں اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے ہمیشہ تحفظات کا شکار رہی ہیں اور اب عسکری قیادت کی تبدیلی کے بعد اس سلسلے میں کھل کر سامنے آگئی ہیں۔

جنہیں بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں پس پردہ حکومتی حلقوں کی شہ اور آشیر باد بھی حاصل ہے جو خود تو باوجوہ سامنے نہیں آتے تا ہم مذہبی قیادت پرفائز، حکومت کے بعض حلیفوں کے ذریعے ایک ایسا ماحول پیدا کر نے کے خواہش مند ضرور ہیں۔ جس میں فوجی عدالتوں کے نظام کو متنازعہ بنا کر دراصل سکیورٹی اداروں کو پیچھے دھکیلنا مقصود ہے یہی وجہ ہے ملک کے محب وطن اور با شعور حلقے وطن عزیز سے دہشت گردی کی بچی کچھی لعنت کے خاتمے کے لیے آج بھی فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے ساتھ ساتھ سویلین حکومت کے ذمہ نیشنل ایکشن پلان کی بعض سفارشات پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔

تاکہ دہشت گردی کے عفریت میں ایک عرصے سے سانس لینے والا پاکستان اس لعنت سے دائمی طور پر چھٹکارا پاکر ترقی اور خوشحالی کا نیا سفر شروع اور جاری رکھ سکے صرف اسی صورت میں ہی پاکستان کی بقاء ،سا لمیت اور یکجہتی کو قائم رکھا جاسکتا ہے جو عسکری قیادت کے علاوہ خود سیاسی قیادت کی بھی ایک بنیادی ذمہ داری ہے جسے مذہبی حلقوں کو بھی اس سلسلے میں سمجھانے بجھانے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Salmiyat O Baqa is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 January 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.