سندھ کی صورتحال، فوج کیا کرے!

آئین پاکستان میں 8 ویں ترمیم کا منشا جو بھی تھا اور آئینی ماہرین جس کی جو بھی تشریح کریں سندھ حکومت کے رویہ سے لگتا ہے کہ اس ترمیم کے نتیجے میں پاکستان کی ریاستی حیثیت فیڈریشن کی نہیں رہی بلکہ کنفیڈریشن کی صورت اختیار کر چکی ہے

منگل 26 جولائی 2016

Sindh Ki Sorat e Hall Foouj Kiya Kare
اسرا ر بخاری:
آئین پاکستان میں 8 ویں ترمیم کا منشا جو بھی تھا اور آئینی ماہرین جس کی جو بھی تشریح کریں سندھ حکومت کے رویہ سے لگتا ہے کہ اس ترمیم کے نتیجے میں پاکستان کی ریاستی حیثیت فیڈریشن کی نہیں رہی بلکہ کنفیڈریشن کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ وفاق کے زیر اہتمام چار صوبے نہیں بلکہ چار ریاستیں معرض وجود میں آ چکی ہیں کراچی میں رینجرز کے اختیارات کا معاملہ حسب معمول پھر الجھا دیا گیا اور اختیارات دیئے جائیں یا نہ دیئے جائیں یہ فیصلہ آصف علی زرداری نامی شخص کرے گا جس کی کوئی آئینی یا سرکاری حیثیت نہیں ہے یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ جس شخص کو بطور وزیر اعلیٰ آئینی اور سرکاری حیثیت حاصل ہے وہ اس سے احکامات حاصل کرنے دوبئی پہنچ گیا ہے سندھ کا وزیر داخلہ انور سیال، آصف زرداری کی بہن فریال تالپور، آصف زرداری کا بیٹا بلاول زرداری اور قانون دان لطیف کھوسہ سندھ حکومت کے فیصلے کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان کے عام آدمی کو تو یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ کراچی آپریشن کے حوالے سے رینجرز صوبائی حکومت کی اجازت کی محتاج کیوں ہے یہ آپریشن تو سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ہو رہا ہے کیا ایک صوبائی حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دے یہ آپریشن نیشل ایکشن پلان کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے ہو رہا ہے جس کا مقصد صرف کراچی نہیں بلکہ پورے ملک کو دہشت گردوں، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دیگر سنگین جرائم سے پاک کرنا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس آپریشن کو عوام کی حمایت حاصل ہے سندھ کے وزیر اعلیٰ سہیل انور سیال کے بیان پر غور کیا جائے۔

رینجرز کے اختیارات کا فیصلہ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کریں گے میری میز پررینجرز کے اختیارات کے حوالے سے کوئی فائل نہیں ہے۔ پہلی بات یہ کہ اس حوالے سے سہیل انور سیال کی میز پر کسی فائل کا ہونا ضروری نہیں ہے کہ یہ فیصلہ تو سپریم کورٹ کر چکی ہے اور اگر وزیر اعظیٰ قائم علی شاہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں تو پھر وہ دوبئی کیا کرنے گئے ہیں۔

یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ آخر سندھ حکومت رینجرز آپریشن میں روڑے کیوں اٹکا رہی ہے ایک ڈی ایس پی کی اتنی جرات کہ وہ عزیز بلوچ کے حوالے سے پی آئی ٹی پر دستخط کرنے سے انکار کر دے۔ ڈاکٹر عاصم اور حال ہی میں عبدالقادر پٹیل کی گرفتاری نے پیپلز پارٹی کی قیادت کیلئے پریشانی کا سامان پیدا کیا ہے مگر چیف جسٹس سندھ کے بیٹے اویس کی بازیابی اور بالخصوص اسد کھرل کی گرفتاری نے تو بھونچال کی صورت پیدا کر دی ہے۔

جہاں تک اسد کھرل کا تعلق ہے اس کی کوئی حیثیت ہے نہ اہمیت بلکہ اصل اہمیت بلدیہ لاڑکانہ کے ایک معمولی ملازم ہوتے ہوئے ا س کے اکاوٴنٹ سے کروڑوں روپے کی ٹرانزکشن کی ہے اور اس سے بڑھ کر معاملہ سندھ کی انتہائی بااثر خاتون کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور جلد ہی ایان علی کی طرح وہ عدالتی پیشیاں بھگتی دیکھی جا سکیں گی۔
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کھلے الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ” سندھ حکومت اجازت دے نہ دے رینجرز ہر صورت سندھ میں رہیں گے“ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق کراچی کے عوام کا تحفظ ہر صورت یقینی بنایا جائے گا ساتھ ہی انہوں نے ڈی جی ریجنرز کو سندھ میں وی آئی پی سکیورٹی ختم کرنے کی ہدایت بھی کر دی ہے۔

سندھ حکومت کی جانب سے رینجرز کی ذمہ داریوں میں رکاوٹوں کا سلسلہ جاری رہا تو وفاق آئینی راستہ اختیار کر سکتا ہے۔ سندھ حکومت کا رویہ عجیب و غریب ہے کراچی میں حالات درست کرنے کیلئے خود ہی رینجرز کو بلایا گیا اور جب تک کارروائی کا رخ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں تک رہا پیپلز پارٹی کے حکومتی عہدیدار رینجرز کے قصیدے پڑھتے رہے اور جب معاملات پیپلز پارٹی کے لوگوں تک پہنچے تو انہیں رینجرز زہر لگنے لگی ہے یا تو سیدھے سبھا انہیں واپس بھیج دیں اور سندھ پولیس کے ذریعہ صورتحال پر کنٹرول کریں یا پھر رخنہ اندازیوں کا سلسلہ بند کریں دراصل معاملات جو رخ اختیار کر رہے ہیں اس سے پیپلز پارٹی کے اہم لوگوں پر ہاتھ پڑنے والا ہے اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی غالباً یہ سوچ ہے کہ اختیارات کے معاملے میں رخنہ ڈال کر شاید اپنے کچھ معاملات سیدھے کیے جا سکتے ہیں مگر یہ خواہش تو ہو سکتی ہے مگر بات خواہش سے آگے نہیں جائے گی یہ بھی ناقابل فہم ہے کہ جب سپریم کورٹ سے حکم پر رینجرز آپریشن کر رہی ہے اور کراچی آپریشن کے نتیجے میں جو جرائم سامنے آئے ان کا تعلق ملکی سلامتی سے ہے تو پھر رینجرز یا فوج اجازت کی محتاج کیوں ہے یہ تو ایسا ہی ہے کہ اگر انڈیا 1965ء کی طرح واہگہ بارڈر پر حملہ کر دے تو کیا ڈی جی پنجاب رینجرز پہلے بھاگا بھاگا وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے پاس آئے گا۔

”حضور اجازت مرحمت فرمائے تو ہم یہ حملہ روکیں“ یہ بھی ناقابل فہم ہے کہ کور کمانڈر کراچی وزیر اعلیٰ سندھ کی خدمت میں حاضر ہو گئے جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ فوج وہاں حکومت کے آگے بے بس ہے اگر سندھ حکومت ان کی ذمہ داریوں میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے اور یقینا ڈال رہی ہے ورنہ ایک ڈی ایس پی کی کیا مجال کہ عزیز بلوچ کی جی آئی ٹی پر دستخط سے انکار کر دے۔

وزیر داخلہ کا بھائی گرفتار ملزم کو رینجرز کی حراست سے چھڑا کر لے جائے۔ یہ عذر لنگ قبول کیا جا سکتا ہے کہ رینجرز کیونکہ سفید کپڑوں میں تھے اس لیے یہ سمجھا گیا کہ اسد کھرل کو کچھ لوگ اغواء کر رہے ہیں لیکن جب تھانہ میں یہ شناخت ہو گئی تھی کہ گرفتار کرنے والے رینجرز ہیں تو پھر اسد کھرل کو ان کی تحویل میں دینے کی بجائے چھڑا کر لے جانے کا کیا جواز رہ جاتا تھا۔

فوج موجودہ سیاسی نظام (جمہوری ہونے پر تحفظات اپنی جگہ) کو برقرار رکھنے کا جو رویہ اپنایا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ تادم تحریر فوج نے خود کو ماتحت ادارے کے طور پر پیش کیا ہے یہ رویہ جاری رہنا چاہیے لیکن اپنی ذمہ داری کے حوالے سے بھی اپنے رویہ میں کچھ تبدیلی ضروری ہے ایک حکایت ہے کہ ایک سانپ نے ایک بزرگ کی مریدی اختیار کر لی بزرگ نے حکم دیا آئندہ کسی انسان کو ڈسنا نہیں ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شروع میں تو لوگ اسے دیکھ کر ڈرتے مگر جب اسے مکمل طور پر بے ضرر دیکھاتو اس اسے کھلواڑ شروع کر دیا پتھر ما رکر زخمی کرنے لگے یہاں تک ہوا کہ گدھے پر سامان باندھنے کیلئے رسی نہ ملی تو اسے بطور رسی استعمال کر لیا گیا کچھ مدت بعد بزرگ سے ملاقات ہوئی انہوں نے کہا یہ تیری کیا حالت ہو گئی ہے کہا حضور نے ڈسنے سے منع فرمایا تھا بزرگ نے کہا ڈسنے سے منع کیا تھا پھنکارنے سے تو منع نہیں کیا تھا۔

اس لیے ضروری ہے فوج سیاسی نظام کے تسلسل میں کردار ضرور ادا کرے مگر مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں آئینی غیر آئینی جھمبیلوں میں نہ پڑے جبکہ اسے سپریم کورٹ اور نیشنل ایکشن کی صورت عدلیہ اور قوم کی جانب سے مینڈیٹ بھی حاصل ہے قائم علی شاہ کا یہ کہنا کہ رینجرز کو صرف کراچی ڈویڑن میں اختیار حاصل ہے اس کا مطلب ہے کوئی مجرم فرار ہو کر کراچی ڈویڑن کی حد سے باہر جا کر کھڑا ہو جائے تو رینجرز اسے گرفتار کرنے کی حسرت آنکھں میں لیے دیکھتے اور ہاتھ ملتے رہ جائیں۔

سندھ حکومت چند اہم افراد کی خاطر قومی سلامتی کے ادارے سے تصادم کی جو راہ اختیار کر رہی ہے اسے پاکستانی عوام ہی نہیں خود سندھ اور بالخصوص کراچی کے لوگوں نے عدم اتفاق کیا ہے رینجرز کو اختیارات نہ دینے کے خلاف کراچی کے تاجروں کی جانب سے ہڑتال کی دھمکی حکومت پر دراصل عدم اعتماد ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sindh Ki Sorat e Hall Foouj Kiya Kare is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 July 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.