تاریخ کا چہرہ نہ بگاڑئیے

اسلامی تاریخ میں رنگینی پیدا کرنے والے نظریہ پاکستان کے دشمن ہیں سیکولر ترکی کے بعد ا ب سیکولر پاکستان بنانے کے عالمی ایجنڈے پر کام ہورہا ہے

ہفتہ 4 جنوری 2014

Tareekh Ka Chehra Na Bigariye

اسعد نقوی:
تاریخ سے جہاں سبق سیکھا جاتا ہے وہاں رہنمائی بھی لی جاتی ہے اور اس پر رشک بھی کیا جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ فتوحات اور شاندار روایات پر مشمتم ہے لیکن ہمارے کمرشل ناول نگاروں نے اسے مسخ کر کے وقتی ضرورت کے تحت گلیمر سے بھردیا ہے۔ یہ وہ زہر ہے جو آہستہ آہستہ اسلامی معاشرے کی رگوں میں اترتا چلا جارہا ہے۔ اب ترکی کے ڈراموں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ۔ ترکی کو سیکولر بنانے کیلئے ہواں کی تاریخ گو سیکولر لبادہ اوڑھا دیاگیا تھا۔ یہ زہر قاتل اب پاکستان بھی پہنچ چکا ہے۔
دنیا بھر کی قومیں نہ صرف یہ کہ اپنے تاریخی اثاثے پر فخر کرتی ہیں بلکہ ان کی حفاظت کے مناسب انتظام بھی کرتی ہیں۔ اسی لیے تاریخی نقطہ نظر سے جو چیز جتنی پرانی ہو، اس کی قدر و قیمت میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوجاتا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں تک کہ ہزاروں سال پرانی لاشوں کو بھی محفوظ کرلیا جاتا ہے اور انہیں تاریخی اثاثوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پرانی تہذیبوں کے کھوجنے کیلئے شہر کے شہر کھود دئیے جاتے ہیں اور زیر زمین دفن کسی پرانے شہر کی باقیات کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے کھنڈرات دنیا بھر میں محفوظ ہیں۔پاکستان میں بھی یہ قدیم اثاثے محفوظ کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح پرانے قلعے، مزارات اور دیگر عمارتیں بھی کسی ملک کا قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔
بات صرف قدیم اشیاء تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں تاریخ کو یاد رکھنے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تاریخ ایک اہم مضمون کے طور پر پڑھی جاتی ہے۔ پرانے نظریات پر بحث ہوتی ہے ار تاریخی حقائق کو چھلنی سے گزارنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں مورخ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور اس کی کتب پر علمی نقطہ نظر سے بحث کی جاتی ہے ۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ہم مسلسل تاریخ کومسخ کیے جارہے ہیں۔ مسلم تاریخ شاندار روایات کی امین ہے لیکن بدقسمتی سے اس میں ملاوٹ کی جاتی رہی ہے۔یہ درست ہے کہ یہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو تاریخ کو ایک فریضہ سمجھ کر اگلی نسل تک منتقل کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ چند روپوں کے لالچ میں ہمارے متعدد ادیبوں اور ناول نگاروں نے تاریخ کو مسخ کرنا شروع کردیا تھا۔ یہ سلسلہ اب عرو ج پر ہے ۔ اردو ادب میں ایسے ناول نگار بھی موجود ہیں جنہیں عام قاری مورخ کی حیثیت سے جانتا ہے اور ان کی ناولوں پر صدق دل سے ایمان لے آتا ہے لیکن جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ناول نگاروں نے اپنے تاریخی ناولوں کا ایک مخصوص فرمولا بنارکھا تھا ۔ ان کے ہیرو عموماََ اسلامی سلطنت کے بادشاہ یا سپہ سالار ہوتے تھے لیکن ان کے ہر ناول کے مرکزی ہیرو کے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں کسی خوبصورت دوشیزہ کی کلائی نظر آتی ہے ۔ ددراصل یہ کمرشل ناول تھے جنہیں تاریخ کا لبادہ اوڑھا کر ان میں سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ابتدا میں یہ تجربہ کامیاب ہوگیا جس کے بعد دھڑا دھڑ ایسے ناول لکھے گئے۔ یہ ناول تاریخ کے روپ میں ایک زہر تھا جو عام شخص کے ذہن پر براہ راست اثر انداز ہوتار ہا ۔ یہ کیسے ممکن تھاکہ ایک سپہ سالار تہجد گزار ہو اور اس نے اپنی زندگی اسلام کیلئے وقف کررکھی ہو۔ اس کی ساری عمر گھوڑے کی پیٹھ پر جہاد کرتے گزرے اور دوسری طرف وہ کسی کی زلفوں کا اسیر بھی نظر آئے اور اس نے اپنے حرم میں لونڈیوں کی لائن لگا رکھی ہو۔ مسلم سپہ سالار ایسے ہر گز نہ تھے لیکن کہانی میں گلیمر ڈالنے کیلئے بعض ناول نگاروں نے انہیں اس روپ میں دکھایا ۔ آہستہ آہستہ ناول پڑھنے والوں کے ذہن میں مسلم لشکرکے سپ سالاروں کا یہی تصور پختہ ہونے لگا ۔ بات صرف یہیں تک محدود نہ رہی بلکہ ہمارے بعض ناول نگاروں نے فرضی تاریخ بھی لکھنی شروع کردی۔ جہاد ،، گلیمر، عشق اور شراب کو اس طرح ملادیا گیا کہ وہ قاری کیلئے زہر قاتل بن گیا۔ ایسی کتابیں بنتی تھیں۔ یہی ان کی فروخت یا مقبولیت کی اصل وجہ تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ ایک سنجیدہ نوعیت کا مضمون ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تاریخی کتب میں پائے جانے والے اکثر مکالمے نام نہاد مورخ کے اپنے الفاظ میں ہوتے ہیں ۔ تاریخ ایک دلچسپ مضمون ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے اندر بے پناہ سنجیدگی اور کئی اسباق لئے ہوتا ہے ۔ زندہ قومیں تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں اور ان کی روشنی میں اپنا اگلا لائحہ عم طے کرتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے تاریخی اثاثے بہت سنبھال کر رکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہورہا۔ ہماری تاریخ کو محفوظ رکھنے اور غلط تاریخی واقعات اور مکالموں کو تاریخ کی کتب سے حذف کرنے کیلئے کوئی خاص کا م نہیں ہورہا ۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ سلسلہ ناولوں سے باہر نکل کر ٹی وی ڈراموں اور فلموں کی طرف جانکلا ہے۔ ترکی کی ڈرامے اس کی واضح مثال ہیں۔ ترکی سیکولر ریاست بنا تو وہاں بھی مسلم تاریخ کو سیکولر اور لبرل شال اوڑھادی گئی۔
یہ سب ہمیں ترکی کے تاریخی ڈراموں میں نظر آتا ہے۔ ”میرا سلطان“ نامی ڈرامے سمیت ایسے ہی دیگر ڈرامے ہمارے سامنے ہیں ۔ مسلم حکمرانوں کو لبرل اور سیکولر ظاہر کر کے جس طرح ترکی کو سیکولر بنایا گیا اب وہی سلسلہ پاکستان میں بھی شروع کیا جارہا ہے۔ تاریخ سے نابلد لوگ ان ڈراموں اور ناولوں کو ہی تاریخ سمجھ لیتے ہیں اور ان کے ذہن میں مسلم حکمرانوں کا ویہ تصور بیٹھ جاتا ہے جو انہیں دکھایا جاتا ہے حالانکہ یہ حقیقت کے منافی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب تک یوں اپنی عالی شان تاریخ کو مسخ کرتے رہیں گے ؟ کیا یہ سب نظریہ پاکستا کے منافی نہیں؟ کیا قوم کو لبرل اور سیکورل بنانے کیلئے تاریخ کو مسخ کرنا کوئی جرم نہیں ہے؟ کیا ہی اچھا ہوتا ہے کہ ان ڈراموں اور ناولوں کے ساتھ یہ وضاحت بھی کردی جاتی ہے کہ یہ تاریخی حقائق ہر گز نہیں ہیں۔ انہیں محض ایک ”ڈرامے“ کے طور پر دیکھا جائے ار ایک رومانی ناولوں کے طور پر پڑھا جائے۔ نئی نسل کو اپنی روایات اور تاریخ سے دور کرنے اور ان میں کنفیوژن پیدا کرنے کے ذمہ داروں میں جو لوگ شامل ہیں شاید انہیں اس کااندازہ نہیں کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ کتنا بڑا ظلم کررہے ہیں یا پھر انہیں اس کا بخوبی علم ہے اور یہی ان کا اصل مقصد ہے؟ یہ سوال اس وقت تک وقت کی دیواروں سے سرٹکراتا رہے گا جب تک ہم اپنی تاریخ مسخ کرتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tareekh Ka Chehra Na Bigariye is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 January 2014 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.