وزیراعلیٰ سندھ کے احکامات ؟

200 سے زائد گاڑیاں تاحال غیر مجاز افسروں کے قبضے میں۔۔۔ ہمارے ہاں افسر شاہی کی ایک مشہور عادت یہ بھی ہے کہ یہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اسی طرح اختیارات کے ناجائز استعمال، سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانا اور زیادہ سے زیادہ مراعات میں شامل ہے

جمعرات 18 فروری 2016

Wazir e Aala Sindh K Ehkamat
ہمارے ہاں افسر شاہی کی ایک مشہور عادت یہ بھی ہے کہ یہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اسی طرح اختیارات کے ناجائز استعمال، سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانا اور زیادہ سے زیادہ مراعات میں شامل ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بااثر اور طاقتور افسر تو اکثر اپنے ہی جونیئر افسران کی مراعات پر بھی ہاتھ صاف کر لیتے ہیں۔ عام طور پر اعلیٰ افسروں کے بچوں کے زیر استعمال گاڑیاں بھی سرکاری کی ہی ہوتی ہیں جن میں استعمال ہونے والے پٹرول سے لے کر ان کی مرمت تک کے سبھی اخراجات قومی خزانے سے ادا کئے جاتے ہیں۔

اسی لیے سول سروس کو پاکستان کی طاقتور ترین سروس میں شمار کیا جاتا ہے۔ اب تو یہ کہا جاتا ہے ہماری سیاسی اشرافیہ اپنی تمام ترطاقت کے باوجود افسر شاہی کی محتاج ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

دوسری جانب سیاست دان ہی اپنے کاموں کے لیے من پسند افسروں کی ترقیوں اور اہم پوسٹوں پر تعیناتیوں میں خاص دلچسپی لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب افسر شاہی ترقیوں اور مراعات کے حصول کے لیے محنت، ایمانداری اور کارکردگی کی بجائے سیاسی تعلقات زرو دیتی ہے۔

اکثر سینئر مگر سیاسی تعلقات سے ماور افسروں کو ”کھڈے لائن“ لگا دیا جاتا ہے اور جونیئر افسران کو سیاسی سفارشوں کے بل پر اہم پوسٹیں عطا کر دی جاتی ہیں۔ دوسری جانب یہی بیورو کریسی طاقت کے نشے میں آئے تو اپنے محکمہ کے وزیر تک کے احکامات کو بھی نظر اندا ز کر دیتی ہے۔ اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں جو لوگ وزراء بنتے ہیں انہیں محکمانہ معماملات پر نہ تو عبور حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی وہ طریقہ کار سے آگاہ ہوتے ہیں۔

انہیں افسرشاہی جس راستے پر لگا دے وہ اسے ہی ” صراط مستقیم “ سمجھ لیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کی افسر شاہی تو اب وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے احکامات کو بھی ہوا میں اڑا دیتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے سرکاری افسران کو سختی سے ہدایات جاری کی تھیں کہ ایک ہفتے کے اندر اندر سرکاری گاڑیاں اپنے سابقہ محکموں کو واپس کر دیں اور جو افسر بھی ان ہدایات پر عمل نہیں کرے گا۔

اس کے خلاف ایف آئی آرد رج کی جائے گی ۔ یاد رہے کہ اکثر سرکاری افسر کسی اور محکمے میں تبادلے کے باوجود پہلے محکمے کو اس کی گاڑی اور دیگر مراعات واپس نہیں کرتے۔ عام طور پر کچھ عرصہ بعد ایسی گاڑیاں ”لاپتہ“ یا سکریپ کی فائلوں میں ڈال دی جاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ کے ان احکامات کے باوجود کسی افسر نے گاڑی واپس نہیں کی اور لگ بھگ 200 سے زائد سرکاری گاڑیاں غیر مجاز سرکاری افسران کے زیراستعمال ہیں۔

اس سلسلے میں یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ زیادہ تر گاڑیاں با اثر اور سیاسی تعلقات کے حامل افسران کے قبضے میں ہیں جن سے واپس مانگنے کی جرات کسی ”ذمہ دار“ میں نہیں ہے۔ یہ افسران نہ صرف غیر قانونی طور پر سرکاری گاڑیوں پر قبضہ کئے ہوئے ہیں بلکہ پٹرول اور دیگر اخراجات بھی سرکاری خزانے سے وصول کرتے ہیں۔ دوسری جانب جن محکموں کی سرکاری گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں ان محکموں میں اب یہ لوگ خدمات بھی سرانجام نہیں دے رہے۔

عموماََ ایسی گاڑیاں بچوں اور بیگمات کے زیر استعمال رہتی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ان افسران کے خلاف کوئی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہو سکی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا خود کو کراچی آپریشن کے کپتان کہلوانے والے ”دبنگ “ وزیر اعلیٰ افسر شاہی کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں۔کیا سندھ کے انتظامی سربراہ اس قدر بے بس ہو چکے ہیں کہ ان کی وارننگ کو افسرشاہی ہو امیں اڑا دیتی ہے۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر وزیراعلیٰ چند بااثر سرکاری افسراں کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہیں تو پھر وہ سندھ کے انتظامی معاملات کسی طرح کنٹرول کر رہے ہیں ؟ کیا اب سندھ کے وزیراعلیٰ کا عہدہ محض تقریبات میں سونے ، لڑکھڑانے اور بیانات دینے تک محدود کر دیا گیا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر انہیں ایسے دبنگ بیانات دینے کی کیا ضرورت تھی جس پر بعد میں سبکی ہو۔ یاد رہے یہ وہی وزیراعلیٰ ہیں جو خود کو دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف ہونے والے سندھ آپریشن کا کپتان کہلواتے ہیں۔ حیرت ہے کہ یہ ”کپتان“ غیر قانون اقدامات پر اپنے ہی احکامات کے تحت ایک سرکاری افسر تک پر مقدمہ درج کروانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Wazir e Aala Sindh K Ehkamat is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 February 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.