یوم آزادی ایک تاریخ سازاور یادگاردن

سجدہ شکر بجالاتے ہوئے آزادی کی تاریخ دہرائی جائے آزادی کی حفاظت کیلئے ہر طلوع ہونے والا سوج جدوجہد کا پیغام لے کرآتا ہے

جمعہ 12 اگست 2016

Youm e Azadi Aik Tareekh Saz Aur Yadgar Din
محمد اکرم اعوان :
اگست کا مہینہ ہے، سرکاری اور سیاسی سطح پر جشن آزادی منانے کی تیاریاں زوروں پر ہیں یقینا اس کا خرچہ اربوں تک جائیگا میرے خیال میں جشن آزادی ان لوگوں کو مناناچاہیے جو واقعی آزاد ہوں اور اس کا نام جشن آزادی صحیح نہیں ہے بلکہ ہہ ایک یادگار ہوتا ہے اور پہ دن آنے والی نسلوں کو حصول آزادی کے لئے جو قربانیاں دی گئیں جو مشکلات پیش آئیں اور جو قیمت ادا کی گئی ، سے آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی اس آزادی کو ایک عام سی بات نہ سمجھیں ان کے علم میں ہو کہ اس کے لئے کتنی جانیں دی گئی ؟ کتنے لوگ قیدوبند کی صوبتوں سے گزرے؟ او ر کتنے لوگوں کے وجود خاک میں ملے؟ تب جا کر کچھ لوگوں کو آزادی نصیب ہوئی۔

جشن تو ایک فضول سی اچھل کود، تفریح اور تماشے کانام ہے، آزادی کا جشن نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

یوم آزادی توایک تاریخی اور یادگار دن ہوتا ہے جسے پوری متانت اور سنجیدگی سے منایاجائے۔ سجدہ شکر بجالاتے ہوئے آزادی کی تاریخ دہرائی جائے۔ پٹاخوں پر اور رنگ برنگی جھنڈیوں پر پیسے ضائع کرنے کی بجائے بیوہ عورتوں کی نگہداشت اور تعلیم میں مستحق کی مدد پر خرچ کیا جائے۔

جس طرح اسلام میں عیدمنائی جاتی ہے کہ اللہ کا شکر بھی ادا کیاجائے اور ہر مفلس بے کس وبے بس کو اچھے کھانے میں شریک بھی کیاجائے اسی طرح آزادی کادن منانا چاہیے کہ کم ازکم ایک صبح کو توچودہ کروڑبندوں میں سے کوئی بھوکانہ رہے، کسی کی آبرونہ لٹے کیا کوئی ضمانت دے سکتا ہے کہ چودہ اگست کو کہیں ڈاکہ نہیں ہوگا؟ کسی کیاآبرو نہیں لٹے گی، کہیں چوری نہیں ہوگی، کوئی رشوت نہیں لے گا۔

اگر یہی سب کچھ ہونا ہے توآزادی کس بلاکانام ہے؟ اور جب ہمارے سوچنے پر پابندی ہے۔ تعلیم ہم اپنی مرضی سے حاصل نہیں کر سکتے۔ عدلیہ میں ہمارا دخل نہیں ہے۔ جہاں ہمیں اسلام کو اپنا طرز حیات بنانے کا اختیار نہیں وہاں جشن آزادی کیسا۔ لوگ کہیں گے جی کیوں اختیار نہیں۔ ہم نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں ، اذانیں دیتے ہیں، حج ادا کرتے ہیں ارو زکوة بھی دیتے ہیں۔

موجودہ دور میں کیا اسرائیل کے قبضے ، امریکہ ، جاپان میں جومسلمان ہیں وہ نمازیں نہیں پڑھتے ، روزے نہیں رکھتے اور حج نہیں کرتے۔ ہندوستان میں جو مسلمان ہیں وہ ہم سے زیادہ نیک ہیں، نمازیں پڑھنا آزادی نہیں ہے۔ ہم تو تماز بھی آزادی سے نہیں پڑھ سکتے جبکہ ہندوستان میں پہرے کے بغیر پڑھی جاتی ہے۔ دور غلامی میں جنہیں غلام رکھا جاتا تھا ان کے کھانے ، پینے لباس اور سونے جاگنے کی فکر مالک کو ہوتی تھی کام تو اس سے رات دن لیتا تھا لیکن اس کے زندہ رکھنے کی فکر اسے ہوتی تھی ۔

اب اسے نئے زمانے میں غلامی کے انداز بھی بدل گئے کہ غلام کام تو آفا کے لئے کرے اور اپنی حیات کی فکر بھی خود کرے۔ یہ جدید دور کی غلامی ہے۔ آپ نے دیکھا دیہات میں یا بھٹوں پر پاخانہ بدوشوں کے پاس عام قسم کے گدھے ہوتے ہیں کچھ گدھے بھی خوش نصیب ہوتے ہیں کہ وہ روزانہ کھاتے ہیں۔ کچھ ان سے دوسرے درجے پر ہوتے ہیں جنہیں چار اورسوکھی گھاس تو مل جاتی ہے۔

ایک تیسرے درجے کے گدھے ہوتے ہیں ان پر وہ سارا دن بھٹے پر مٹی دھوئیں گے خانہ بدوش جھگیاں لاد کر چلیں گے زمیندار کھاد ڈھوتا رہے گا سارادن اس پر اور جب کام ختم ہوگا تواس پر سے پالان وغیرہ اتار کراسے ڈنڈا مارے گا کہ جاؤاپنا پیٹ بھرو وہ بے چارا کسی روڑی کے ڈھیر پہ کھڑا ہے یاکسی گلی سے گھاس کھارہاہے کہیں سے اپنا پیٹ بھر کے خود آئے گا صبح اس کی پشت پر پھر پالان ہوگا، ملک کا ڈنڈا اور بوجھ بھی کمر پرہوگا۔

ہم بھی ضرورجشن منائیں کہ ہم بھی تیسرے درجے کے انسان بن گئے اسی لئے ہمیں تھرڈورلڈ کہا جاتا ہے۔ تھرڈورلڈ کے پیچھے فلاسفی یہی ہے کہ ہماری مرضی کے مطابق دن رات کام کرو۔ علمائے کرام کو یاد ہوگا کہ انگریز کی حکومت میں جب امن قائم ہوگیا، جھگڑے ختم ہوگئے ، سکھوں کی حکومت ختم ہو گئی، ریاستوں نے سرنگوں کردا اور بنگال سے لے کابل کی سرحد تک اور ہمالیہ سے دکن تک تاج برطانیہ کی حکومت قائم ہو گئی۔

ایک قانون کی علمداری ہوگئی، عدالتیں بن گئیں ، زمین کے بندوبست ہوگئے، بظاہر سارا امن قائم ہو گیا ۔ اب سوا ل یہ پیدا ہوا کہ جب انگریزوں کے خلاف جہاد ہورہا تھا تو اس وقت بر صغیر دارالحرب تھااب کیا یہ دارالامن قرار پائے گا؟ علماء کا متفقہ فیصلہ یہ تھا کہ برصغیر مسلمانوں کے لئے دارالحرب ہے کہ بظاہر قتل وغارت گری نہ سہی لیکن مومن کی معاش ، تعلیم انصاف کے اداروں، عدلیہ، اقتدار اعلیٰ اور سیاست کے راستوں پر کافرانہ نظام کاغلبہ ہے لہٰذا اس میں جہاد فرض ہے اور یہ دارالحرب ہے۔

آزادی ہمیں کس بات سے حاصل کرنی تھی؟ کافرانہ نظام سے، سود کے معاشی نظام سے آزادی چاہیے تھی، عدلیہ میں وہ قانون چاہیے تھا جو اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کی کتاب کی صورت میں عطا فرمایا۔ سیاسیات کا وہ راستہ چاہیے تھا جو آزادانہ ہے، جو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے عطافرمایا۔ تعلیم وتعلیم میں وہ انداز چاہیے تھا جو آزاد ہو۔ جو غیر کی چھاپ سے پاک ہو۔

جو آدمی کوعلم عطاکرتا ہو۔ ہمارانظام تعلیم علم عطا نہیں کرتا خبر دیتا ہے۔ اخبار میں سارے جہان کی خبریں چھاپ دو اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگر یہ حال انسان کا ہو تو وہ بدکار ہے تو بدکارہی رہے گا، چورہے تو چور ہی رہے، گا سست ہے تو سست ہی رہے گا، بے دین ہے تو بے دین ہی رہے گا اور لکھنا پڑھنا سیکھ جائے جمع تفریق بھی سیکھ جائے تو اسے علم سمجھنا دانی ہے۔

انگریزنے جو نظام تعلیم بنایا، وہ یہاں علم تقسیم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے تو علم کے راستے روکے لیکن کاروبار سلطنت چلانے کے لئے جس طرح کمپیوٹر میں خبر فیڈ کی جاتی ہے اس طرح کچھ ذہنوں میں اعدادو شمار یاالفاظ وحرف ثبت کرنا چاہتا تھا کہ وہ چٹھی پڑھ سکیں، دو اور دوچار جمع کرسکیں۔ علم وہ ہوتا ہے جو انسان کی سوچ بدل دے، اس کاحال بدل دے، اس کی فکر بدل دے، اس کا نظریہ تبدیل کردے، اسے معاملات میں وہ شعور عطاکر دے جو حقیقت پر مبنی ہو۔

اب علم بھی نہیں ہے۔ اپنی آزادی سے ہم کوئی چیز خرید بھی نہیں سکتے خواہ مخواہ عجیب وغریب ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں اپنی مرضی سے ملکی منصوبے نہیں بناسکتے اپنی مرضی سے سفیر اور وزیر مقرر نہیں کرسکتے اور اگر یہ کہا جائے کہ ہم اپنی مرضی سے جرنیل بھی نہیں بناسکتے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ ہمارے ایک ریٹائرڈآرمی چیف جووائس چیف بھی بڑا عرصہ رہے ایک دن فرمانے لگے کہ اس ملک میں جتنے بھی آرمی چیف آئے ہیں وہ مغربی طاقتوں نے بنوائے ہیں۔

تو کیا ایسے لوگوں کو اپنے آپ کو آزاد سمجھنے کا اور جشن آزادی پہ اربوں روپیہ لٹانے کا کوئی حق پہنچتا ہے؟ ہماری آزادی اس پالتو طوطے کی آزادی ہے کہ فال نکالو، کھاؤ، مٹھائی کھاؤ، میوہ کھاؤاور پھر پھرا کرپھر اسی پنجرے میں جا کرآرام کرو۔ انگریز نے برصغیر میں پہلے سے رائج اسلامی نظام کواول و آخر تبدیل کرکے اپنا نظام نافذ کردیاجب ہم آزاد ہوگئے تو آزادی کا معنی تو پہ تھا کہ ہم اس پورے نظام کواٹھا کرسمندر میں پھینک دیتے اور اپنا نظام رائج کرتے لیکن آزادی ہے کہ قوم پر وہی استحصالانہ نظام نافذ ہے۔

ہمارے ہاتھوں میں وہی زنجیریں ہیں وہی پیڑیاں ہیں۔ گلے میں وہی طوق ہیں۔ اگرتبدیلی آئی تو صرف اتنی کہ انگریز آقا کی جگہ مقامی آقا آگئے۔ مقامی لوگوں میں سے جوملک کے غدار اور انگریز کے وفادار تھے اپنے ان خدمت گاروں کو انگریز جاتے ہوئے ان زنجیروں کا سرپکڑا گیااور ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا کرگیا کہ ہم آزاد ہیں۔ کیا کسی آزاد ملک میں ایسا ہونا ممکن ہے؟ کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت ساٹھ ججوں کو آن واحد میں کوئی حکمران اٹھا کر پھینک دے اور ان کاکوئی فریادرس بھی نہ ہوکسی آزاد ملک کے کسی شہری کو بیج بازار کوئی اٹھا کر گوانتاناموبے کی جیل بھجوادے اور اس کے بیوی بچے لاپتہ افراد کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہیں اور ان کی فریاد سننے والا کوئی نہ ہو۔

یہ آزادی نہیں بدترین غلامی ہے، ہم غلاموں کے غلام بن چکے ہیں۔ نظام حیدر آباد کن جشن آزادی منارہے تھے ان کے ایک وزیرنے حفیظ جالندھری سے کہا کہ آپ بھی قصیدہ لکھیں۔ انہوں نے قصیدہ لکھا جس میں اسی شعر تھے۔ انہوں نے وہ قصیدہ نظام صاحب کے سامنے پڑھا۔ وہ نصف تک پہنچے تو نظام صاحب اٹھ کر ناراض ہو کر زنان خانے میں چلے گئے اور وزیر صاحب نے حفیظ صاحب کو اپنی گاڑی میں بٹھایااور حیدر آباد کے بارڈر پر پہنچ کر کہا کہ اب آگے مجھے نہیں پتہ کیا کرو گے لیکن حیدر آباد سے نکل جاؤ یہان زندہ نہیں بچو گے۔

حفیظ جالندھری نے کہا تھا کہ سانپوں کو آزادی ہے آباد گھروں میں بسنے کی سر میں ان کے زہر بھی ہے اور عادت بھی ہے ڈسنے کی شاہین کو آزادی ہے آزادی سے پرواز کرے اور ننھی ننھی چڑیوں پر جب چاہے مشق ناز کرے شیروں کو آزادی ہے آزادی کے پابند رہیں جس کو چاہیں چیریں پھاڑیں، کھائیں پئیں آنند رہیں مجھے اس قصیدے کے یہ تین شعر یادرہ گئے ہیں۔ جشن ہمیں بھی ضرور منانا چاہیے کیوں کہ حیدرآباد آزادی ہمیں بھی حاصل ہے۔

سانپ، بھڑیے، شیر، جواری اور شرابی بھی آزاد ہیں ۔ بدکاری کے اڈے چلانے والے اور جواخانے بھی آزادی سے چل رہے ہیں۔ قوم میں غیرت کا فقدان اس حد کو چھورہاہے کہ جگہ جگہ سے خطوط آتے ہیں کہ جی فلاں جگہ یہ ہورہاہے اس کیلئے کچھ کیاجائے نیچے لکھا ہوتا ہے ایک خیر خواہ خدا کا ایک بندہ۔ اب اپنا نام لکھنے کی جرات نہیں ہے۔ آزادی ، آزادی فکر کانام ہے، آزادی آزادی حیات کانام ہے۔

آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کے حصول کے لئے بڑی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ بڑی قربانیاں دینا پڑتی ہیں لیکن جب مل جاتی ہے تو پھر اس کے لئے روز لڑنا پڑتا ہے۔ اپنے آپ سے ، افکار اور حالات سے کہ پھر آزادی نہ کھوبیٹھیں۔ آزادی کی حفاظت کے لئے ہر طلوع ہونے والا سورج جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے اور جو نہیں کرسکتے وہ آزاد نہیں رہتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Youm e Azadi Aik Tareekh Saz Aur Yadgar Din is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 August 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.