یوتھ فیسٹول میں تحصیلداروں کے ذریعے بھاری رقوم بھی جمع کی گئیں

الزامات سستی شہرت کا ذریعہ یا حقائق کا بے وقت افشاء اس بات کا امکان کم ہے کہ جمشید دستی یوٹرن لے کر موٴقف تبدیل کرلیں مظفر گڑھ کے اس عام سے نوجوان کو پیپلزپارٹی نے 2008 ء کے الیکشن میں اس لئے ٹکٹ دیا تھا

ہفتہ 8 مارچ 2014

Youth Festival Main Tehsil Daroon K Zirye Bhari Ruqoom Jama Ki Gaye
را و شمیم اصغر:
جنوبی پنجاب میں ان دنوں جہاں شاہد خان آفریدی کے چھکوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ وہاں اسلام آباد کچہری کے سانحہ پر بھی عوام سہمے ہوئے ہیں۔ لیکن مظفر گڑھ سے قومی اسمبلی کے رکن جمشید دستی کے چرچے بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ عین اس وقت جب طالبان سے مذاکرات ‘ جنگ بندی کے اعلانات اور اس کے بعد دہشت گردی کے نئے اور انتہائی سنگین وارداتوں نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رکھی ہے جمشید دستی کسی نہ کسی بہانے میڈیا کا موضوع بن ہی جاتے ہیں۔

اسلام آباد کے ایوانوں میں گوہر افشانیاں جب ہلچل پیدا کر چکیں اور ان ایوانوں کی ہفتہ وار دو چھٹیاں ہو گئیں تو جمشید دستی میڈیا کی تلاش میں ملتان آ پہنچے اور پریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔

(جاری ہے)

کراچی کے ذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم کے خلاف قرآن سر پر رکھ کر میڈیا کو اپنی باتوں کا یقین دلانے کی کوشش کی تھی۔ مظفر گڑھ کے جمشید دستی نے اگرچہ قرآن سر پر نہیں اٹھایا لیکن ان کا دعویٰ تھا کہ پارلیمنٹ لاجز میں جو کچھ ہو رہا ہے انہوں نے صرف وہ ہی بیان کیا ہے۔

اگر انہوں نے جھوٹ بولا ہو تو روز محشر انہیں کافروں کے ساتھ اٹھایا جائے اور ان کے یہ سارے الزامات کسی کے آلہ کار کی حیثیت سے نہیں ہیں۔ اگر وہ تیل چور ہیں تو انہیں پکڑا جائے۔ ان کے اس الزام سے یقیناً کئی گھرانوں میں تناوٴ نے جنم لیا ہو گا کہ شاہد خاقان عباسی کے نام پر الاٹ شدہ کمروں میں خواجہ آصف اور کشمالہ طارق کس حیثیت سے رہ رہے ہیں۔

جمشید دستی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ لاجز کے اہلکار ان کے پاس آئے تھے اور کہا تھا کہ وہ ایسے کاموں کو روک نہیں سکتے۔ لہٰذا وہ (جمشید دستی) ان کی ترجمانی کرتے ہوئے آواز اٹھائیں۔ ان اہلکاروں نے جو کچھ انہیں بتایا وہ انہوں نے ایوان میں من و عن پیش کر دیا ہے۔ جمشید دستی کا دعویٰ تھا کہ کئی اداکارائیں ان لیڈروں کے گھروں کی رازداں ہیں اور ان کے انکشافات سے ن لیگ کے لیڈروں کے پردے فاش ہونگے۔

اسی لئے سب سے زیادہ پردے بھی ان کے ہی فاش ہونگے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرنیلوں کے کندھوں پر سوار ہو کر پارلیمنٹ تک پہنچنے والے جمہوریت کو بدنام کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ان کے انکشافات کو سستی شہرت کا ذریعہ کہنا افسوسناک ہے۔ انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار بھی کیا کہ ایم کیو ایم کا نبیل گبول یا ثناء آ زہری کچھ کہیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جاتا اگر انہوں نے کچھ حقائق ایوان میں پیش کر دئے ہیں تو انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ان کا سوال تھا کہ اگر انہوں نے حقائق بیان نہیں کئے تو پھر ڈائریکٹر پارلیمنٹ کو کیوں تبدیل کیا گیا۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب پر بھی الزامات عائد کر دئے ان کا کہنا تھا کہ یوتھ فیسٹیول میں بچوں کو ڈرا دھمکا کر لے جایا گیا ہے اور اس فیسٹیول کے نام پر تحصیلداروں کے ذریعے بھاری رقوم اکٹھی کی گئی ہیں۔

جمشید دستی نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے یہ بھی کہا کہ ان کا تعلق خوشامدی ٹولے سے ہوتا تو آج پنجاب کے کسی اہم عہدے پر ہوتے۔
جمشید دستی دور کی کوڑی لانے میں ماہر ہیں۔ ان کا کوئی بیان ایسا نہیں ہوتا جو میڈیا کو نہ بھائے۔ مظفر گڑھ کے اس عام سے نوجوان کو پیپلزپارٹی نے 2008 ء کے الیکشن میں اس لئے ٹکٹ دیا تھا کہ ان کے ٹکٹ کا کوئی دوسرا امیدوار موجود نہ تھا۔

پھر یہ نوجوان سرداروں‘ نوابوں اور جاگیرداروں کے خطے میں غریب عوام کا سچا ہمدرد ہونے کا دعویٰ کرکے قومی اسمبلی تک جا پہنچا۔پیپلزپارٹی کی حکومت سے بسیں حاصل کرکے اس نے اپنے حلقہ انتخاب میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک یہ بسیں مفت چلا دیں۔ اس کے حلقہ انتخاب میں ہمیشہ نوابزادے چھائے رہے۔ حلقہ کے عوام کیلئے مفت سفر کسی نعمت سے کم نہ تھا۔

پھر یہ نوجوان ہیرو بنتا چلا گیا۔ اسکی پیپلزپارٹی سے بھی نہ بنی‘ عدلیہ سے بھی نہ بنی جس نے اسے جعلی ڈگری کے الزام میں گھیرا تھا۔ وہ مستعفی ہوا اور پھر ضمنی انتخاب بھی جیت گیا۔ حالانکہ کئی اینکروں نے آپس میں شرطیں لگائی ہوئی تھیں کہ وہ نہیں جیتے گا لیکن وہ جیت گیا۔ 2013 ء کے الیکشن میں مظفر گڑھ کے دونوں قومی حلقوں سے کامیاب ہو کر اس نے نوابزادوں اور سرداروں کیلئے لمحہ فکریہ پیدا کر دیا۔

ایک قومی حلقہ چھوڑ کر انہوں نے بھائی کو آزاد امیدوار بنا دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ضمنی انتخاب میں ان کے بھائی کے خلاف امیدوار کھڑا نہ کیا لیکن جمشید دستی کا بھائی پھر بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ یہ پہلی شکست انہیں ابھی تک ہضم نہیں ہو سکی۔ اب میڈیا میں نمایاں ہونے کیلئے جو کچھ کہتے ہیں ان میں تلخی کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ انہوں نے غالباً بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔

ان کے انکشافات سے ممکن ہے کچھ معزز اراکین پارلیمنٹ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ان کے گھروں اور حلقہ انتخاب میں ان کا امیج خراب ہو۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ جمشید دستی یوٹرن لیکر الزامات کی نوعیت بدل دیں۔ وہ جس ٹائپ کی شخصیت ہیں اس میں ڈٹ جانے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ آئین پاکستان کی شق 63 کے تحت اراکین اسمبلی کا صادق امین ہونا ضروری ہے۔

جمشید دستی کی جانب سے پھینکا گیا پتھر رنگین شیشوں والے گھروں پر ہے۔ غالباً یہ لڑائی کافی طویل ہو گی۔ پتھر سے شیشے چکنا چور ہوتے ہیں یا یہ پتھر واپس لوٹ کر ان کو ہی” ڈھیر“ کر دیتا ہے۔ اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
آئین پاکستان جس قسم کی صاف ستھری شخصیات ایوان میں دیکھنا چاہتا ہے اس معیار پر کافی بڑی اکثریت پورا نہیں اترتی۔ جو اس معیار پر پورا نہیں اترتے انہوں نے اپنی اپنی شخصیت پر بڑے دبیز پردے ڈالے ہوئے ہیں۔

ان پردوں کے پس پردہ حقائق پر انگلیاں تو اٹھتی رہتی ہیں لیکن اس طاقتور طبقے کے خلاف بہت کم لوگ ثبوت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ طاقتور ہوتا چلا گیا لیکن جمشید دستی کے پتھر نے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ یا تو اس سے کئی شیشے بیک وقت چکنا چور ہونگے یا پھر ان کے اپنے گھر کے شیشے اب محفوظ نہیں رہیں گے۔ کچھ اراکین پارلیمنٹ اگر آئین میں دئے گئے معیار پر پورا نہیں اترتے تو جمشید دستی کو بھی اب یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔

یقیناً ان کے ماضی اور حال کے بارے میں چھان پھٹک شروع ہو چکی ہو گی اور کوئی لمحہ گزرتا ہے کہ ان کے بارے میں بھی الزامات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ جمشید دستی کے الزامات اور اس کے بعد کی صورتحال سے کم از کم ایک فائدہ ضرور ہو گا کہ اب اراکین پارلیمنٹ کو محتاط ہونا ہو گا۔ اب انہیں اپنے اردگرد کے دبیز پردوں کو ڈبل کرنا ہو گا کہ آئندہ کوئی جمشید دستی ان پردوں کے اندر نہ جھانک سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Youth Festival Main Tehsil Daroon K Zirye Bhari Ruqoom Jama Ki Gaye is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 March 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.