افغانستان میں ”مائنس پاکستان “ امن کی تلاش

طالبان ترجمان کی مذاکرات کی تردید‘ امرکی حکام اور ذرائع ابلاغ کی تصدیق ÷

ہفتہ 29 اکتوبر 2016

Afghanistan Main Minse Pakistan Aman Ki Talash
محمد رضوان خان :
افغانستان طالبان کے سابق امیر ملااختر منصورکوڈرون حملے میں نشانہ بنانے کے بعد نئے امیر ملاہیبت اللہ اخونزادہ نے جب سے تنظیمی معاملات سنبھالے ہیں اس وقت سے ہی افغانستان میں طالبان نے اپنی کارروائیاں تیز کررکھی ہیں۔ امارت میں تبدیلی کی وجہ سے بعض حلقے ان حملوں میں اضافے کیلئے ملاہیبت اللہ اخونزادہ کو روشنی قرار دیتے ہیں جوکلی طورپر درست نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ طالبان ملااختر منصور کی ہلاکت پر اس قدر سیخ پاء ہوئے کہ انہوں نے افغانستان بھر میں افغان فوج اور اس کی معاون امریکی ونٹیو فوج کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔

طالبان نے ساتھ ہی قندوزاور ہلمند میں بھی حملے تیز کردئے تاکہ افغان اور غیر ملکی افواج سے ہرہرمحاذ پر بدلا لیا جائے، اس صورتحال کو یوں بھی کہاجاسکتا ہے کہ افغان طالبان کو اپنے امیر کی ہلاکت کا زیادہ قلق ہے اور یہ جذبات ایسے حالات میں مزید بڑھ گئے کہ جب سابق امیر ملااختر منصور افغان اور امریکی خواہش کے عین مطابق کم ازکم کابل میں عدم جارحیت پر مان گئے تھے۔

(جاری ہے)

دیکھا جائے تو جنگ سے تباہ افغانستان میں آج حکومتی عملداری 49ممالک کی فوجی حمایت کے باوجود کابل تک ہی محدود ہے اور شاید یہیں تک رہے گی کیونکہ کابل سے باہراب بھی وہی جنگی سرداروں کے علاقے ہیں وہاں حکومتی رٹ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی، اس اعتبار سے پاکستان کی معاونت سے مری میں ہونے والی یہ پیش رفت افغانستان کی حکومت کیلئے قیام امن کا نادر موقع تھا جس کو ملااختر منصور کومار کر گنوادیا گیا۔

یادرہے کہ پاکستان کی کوششوں سے یہ دوسرا موقع تھا کہ جب افغان حکومت اور افغان طالبان ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ گئے تھے تو ملا اختر منصور کو ہی ختم کردیا گیا جبکہ اس سے قبل بھی پاکستان ہی کی کوششوں سے امن بات چیت جب ثمرآور ہوتی دکھائی دے رہی تھی تو ملا عمر کی موت کی 2سالہ پرانی خبرجاری کردی گئی جس کی وجہ سے طالبان جوامن معاہدے کیلئے آمادہ دکھائی دے رہے تھے وہ دوحصوں میں بٹ گئے ساتھ ہی امارت کا جھگڑا بھی شروع ہوگیا جبکہ ایک گروپ ایسا تھا جو اس بات پر سیخ پاء تھا کہ ملاعمر کی موت کو دوسال تک کیوں چھپایا گیاتو دوسرا گروپ چاہتا تھا کہ معاملات کو آگے بڑھایاجائے ، اس گونا گوں کی کیفیت کے باعث امن عمل بیچ میں ہی رہ گیا جس کی وجہ سے کوئی گر متاثر ہورہاہے تو وہ افغان ہیں، تاہم یہ افغان نہ جانے کیوں اس قدر بھولے ہیں کہ انہوں نے اس بات پر سوچا ہی بھارت نہیں چاہتا تھا کہ افغان امن عمل میں پاکستان کا کوئی قابل ستائش کردار سامنے آئے اسی لئے اس نے اپنے افغان ذرائع استعمال کرکے چار کنی امن کمیٹی کو غیر اعلانیہ طور پر خاموش کرادیا۔

پاکستان کے بھرپور کردار کے باجووامریکی وبھارتی لابی نے یہ کوشش شروع کردی کہ افغانستان میں امن کیلئے ہونے والی کوششوں سے پاکستان کو بالکل باہر کردیاجائے ، تاکہ وہ بعدازاں امن ذیل کرکے خود کو افغانستان کا زیادہ ہمدرد ظاہر کرے۔
بھارت اس پالیسی سے اگر ایک طرف افغان عوام کے قریب ہونا چاہتا ہے تو دوسری طرف وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان نفرت کو ہر سطح پر پروان چڑھا چاہتا ہے جس کیلئے اس نے تین ممالک پر مشتمل ایک علیحدہ امن کمیٹی بھی بناڈالی ، اس کمیٹی کاکام یہ تھا کہ پاکستان کو افغان امن عمل سے باہر رکھا جائے کیونکہ پاکستان کی شمولیت سے بھارت کوزیادہ تکلیف تھی ۔

بھارت کو 4ملکی امن کمیٹی سے بنیادی طور پر یہ تکلیف تھی کہ وہ بڑے چاؤ سے ہارٹ آف ایشیا کا نفرنس میں شریک ہوا تھا اس کا نفرنس میں شرکت کے شوق کا یہ عالم تھا کہ اس نے اپنی وزیرخارجہ سشما سوراج کو پاکستان بھیجنے کی بھی حامی بھر لی۔ سشما کی اسلام آباد یاترا بھی اس لئے ممکن ہوئی کہ ہندوستان افغانستان کو یہ یقین دھانی کراناچاہتا تھا کہ وہ اس کے امن کیلئے کس قدر فکر مند ہے لیکن اسلام آباد میں جلاس ہوا تو سشما سوراج جس قدر شوق سے آئی تھیں انہیں اسے دو گنی مایوسی کے ساتھ واپس لوٹنا پڑاکیونکہ اسے ہارٹ ایشیاء میں اس ابل نہیں جانا گیا کہ افغانستان کے امن عمل میں اس کی کمیٹی کے اندر شامل کیاجائے، اس عدم شمولیت کا بھارت کو بہت قلق تھا۔

ذرائع کے مطابق بھارت نے اسی روز سے ٹھان رکھی تھی کہ وہ اس کمیٹی کو کم ازکم کسی بھی طور کامیاب ہوجاتی اور اس کی وساطت سے افغانستان میں امن قائم ہوتا تو پاکستان کی بڑی واہ واہ ہوتی جو بھارت کیلئے کسی بھی طورہضم کر ناممکن نہ تھا اس لئے اس کی طرف سے مبینہ طور پر یہ کوشش کی جاتی رہی کہ مختلف چیلے بہانوں سے افغان مفاہتی عمل کو اس طرح ناکام بنایاجائے کہ اس میں بھارت کا کہیں نام بھی نہ آئے اور کام بھی ہوجائے ۔

بھارت اپنے اس عزم میں کابل میں موجود دہلی نواز بیوروکریسی کی وجہ سے کامیاب ہوگیا جس کے بعد اب بھارتی سپانسرڈکوششیں ہورہی ہیں کہ افغانستان میں امن کیلئے کوششیں کی جائیں لیکن یہ کوششیں مائنس پاکستان ہوں۔ افغان حلقوں کا دعویٰ ہے کہ یہ خیال بنیادی طور پر بھارت کا تھا جس نے اشرف غنی کو محض اس بات پر قائل کیا کہ پاکستان افغان امن عمل میں سنجیدہ نہیں۔

یادرہے کہ اشرف غنی اقتدار میں آئے تھے تو وہ افغانستان میں قیام امن کیلئے صرف اسی امن راستے کے قائل تھے جواسلام آبادسے ہوکر کابل آتا تھا ان کے قریبی حلقے اب بھی یہ گمان کرتے تھے کہ اشرف غنی اب بھی اسی راستے کومستندتصورکرتے ہیں لیکن ان کے گرد حامد کرزئی کے چھوڑے ہوئے گماشتے موجود ہیں ان کی وجہ سے وہ اب ایک طرح سے یرغمال بن چکے ہی جس کے بعد اس قسم کی کوششیں ہورہی ہیں کہ مائنس پاکستان امن کی پینگیں بڑھ آئی جائیں ، اس عمل میں بھارت نے ایسا کردار اختیار کیا ہے کہ وہ سامنے نہ رہتے ہوئے بھی پاکستان کے حوالے سے کلیدی کردار داد کررہا ہے ۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسے اب بھی افغانستان میں امن کی بحالی طالبان کے علاوہ بھی کسی بھی حکومت کیلئے لگ بھگ ناممکنات میں سے ایک ہے دوسری توجہ طلب بات یہ ہے کہ افغانستان میں دیرپاامن قائم ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں میں پھر بھارت کو پاک افغان سرحد پر پاکستان کے خلاف اپنی سرگرمیاں بڑھانے مین بھی مشکلات آسکتی ہیں ، اس لئے وہ کم ازکم صوبہ ننگر ہار میں صورتحال جوں کی توں رکھنے پر خوش ہے لیکن دوسری طرف اسے کابل میں امن بھی چاہئے تاکہ امن قائم ہوتو امریکہ اور نیٹو کا کردار محدود ہوجائے اور وہ افغانستان میں اس کا نفوذ پہلے سے زیادہ بڑھ جائے۔

بھارت تو یہ خواب بھی دیکھ رہا ہے کہ مائنس پاکستان قیام امن کوششوں سے کابل میں پاکستان حمایتی تمام حلقوں کو کھڈے لائن لگا دیا جائے تو وہ گویا تنہا قصرکابل کے فیصلوں پر اثرانداز ہوسکے گا۔ بھارت کی یہ خواہش تو شاید کلی طور پر پوری نہ ہولیکن اس کیلئے بڑی حد تک عملی اقدامات شروع کردیئے گئے ہیں جس کے تحت دو حامیں مذکرات کے دوا دوار کے انعقاد کا انکشاف ہوا ہے ۔


افغانستان میں قیام امن کیلئے مبینہ طور پر مذاکرات قطری طالبان نے کئی جس میں ملاعمر کے بھلائی ملا عبدالمنان نے بھی شرکت کی۔ خبروں کے مطابق تو امریکہ نے بھی ان مذاکرات کی تصدیق کردی ہے، تاہم افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان مذاکرات کی واضح انداز سے تردید کردی ہے ، تاہم اس تردید کے بعد بھی امریکی تر جمان کے حوالے سے مقامی ذرائع ابلاغ نے یہ خبر جاری کی ہے کہ ترجمان نے ان مذاکرات کی تصدیق کی ہے، اس سارے عمل کی تفصیل جواب تک میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ افغان حکومتی اہلکاروں اور طالبان کے نمائندوں نے قطرمیں طالبان کے سیاسی دفتر میں کم ازکم دو خفیہ ملاقاتیں کی ہیں تاکہ طویل افغانستان میں دیر پاامن بحال کیاجاسکے ۔

افغان ذرائع کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں یہ ملاقاتیں ہوئی تھیں جہاں طالبان کے سیاسی مذاکرات کار مقیم ہیں ، تاہم ان مذاکرات کی تفصیل جاری نہیں کی گئی ۔ ان خبروں کے مطابق طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ستمبر اور اکتوبر میں ہوئے جن میں افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ معصوم ستنکزئی نے حکومت کے کسی اور عہدیدار سے ملاقات کی ۔

ذبیح اللہ نے اس تردید کے ساتھ یہ استدالال بھی پیش کیا کہ طالبان اس بناء پر امن مذاکرات سے کنارہ کش ہیں کہ ان کے بقول امن مذاکرات سے متعلق طالبان کی پالیسی واضح ہے اور اس میں تبدیلی نہیں آئی جب تک غیر ملکی فوج افغانستان سے واپس نہیں جائے گی اس وقت تک مذاکرات نہیں ہوں گے “ اپنی تردید میں ترجمان نے میڈیا سے بھی کہا کہ وہ بھی اس قسم کی بے بنیاد خبریں شائع کرنے سے گریز کرے۔


افغان امن کے قیام کے سلسلے میں ہندوستان جس قدر بھی چالاکیاں کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بھی افغان صاحب الرائے طبقہ یہ بات بڑے وثوق سے کہتا ہے کہ افغانستان میں دیرپاامن اسی وقت قائم ہوگا جب پاکستان کو بھی اس میں شامل کیاجائے گا لیکن افغانستان میں اے پی ایس کے واقعے کے بعد سے پاکستان کے خلاف جذبات کی حدت اب قصر کابل سے نکل کرعوامی سطح تک آگئی ہے جس کی بنیادی وجہ پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کا انخلا ہے، پہلے پہل صرف افغان حکومت یہ چاہتی تھی کہ پاکستان میں مقیم پناہ گزین پاکستان کے ہی ہوکررہ جائیں لیکن اب جب سے ان پناہ گزینوں کو نکالا جانا شروع کیا گیا ہے اس وقت سے عوامی سطح پر بھی پاکستان مخالف جذبات بھڑک رہے ہیں۔

پاکستان مخالف یہ جذبات ہرخاندان کی واپسی پراور زیادہ بڑھ رہے ہیں کہ کیونکہ جولوگ واپس جارہے ہیں انہیں ناگفتہ بہ حالات میں رکھا جارہا ہے ۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پاکسران سے واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کی جان بوجھ کر ایسی درگت بنائی جارہی ہے تاکہ عوام میں پاکستان مخالف جذبات بڑھائے جاسکیں، ان وجوہات کی بنیاد پر بعض حلقے یہ گمان ظاہر کررہے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ طالبان سے امن مذاکرات کی خبرمین کسی حدتک سچائی ہو اور بہت ہی نچلی سطح کے کسی طالب رہنما سے نشست کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کیاجارہا ہو، ایک لمحے کیلئے اگر اس گمان کو درست تسلیم کرلیاجائے تو یہ صورتحال پاکستان کیلئے بہت کچھ زیادہ اچھی نہیں کیونکہ افغان طالبان پاکستان کے تعلقات کی جو کیمسٹری رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس خبر کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ پاکستان اور طالبان میں دوریاں درآئی ہیں، بات چیت کی اس خبرسے تویہی مقصود ہے کہ طالبان پرپاکستان کا اثر ورسوخ باقی نہیں بچا اور اب وہ افغان حکومت سے شاید خودبات چیت کرسکتے ہیں ، اگر یہاں تک کی بات کو بالفرض درست مان لیاجائے تو امن بیٹھک کی یہ خبر پاکستان کی اہمیت کو کم کررہی ہے جس کاتدارک تاحال اس انداز سے نہیں ہوسکا جس انداز سے درکار تھا البتہ پاکستان نے یہ ضرورکیا کہ ان مذاکرات پر توکوئی ردعمل نہیں دیالیکن ا س کی جانب خارجہ امور پروزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان کا خیال ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں اور لڑنے والے دوسرے گروپوں کو یہ احساس کرنا چاہئے کہ برسوں کے اس سفر میں افغانستان تبدیل ہوگیا ہے اور اس ملک کی ایک واضح اکثریت اب ماضی میں جانا پسند نہیں کرے گی۔

سرتاج عزیز کاکہنا تھا کہ طالبان کو امن کے عمل میں شامل کرنے کیلئے پاکستان جو کچھ کرسکتا ہے وہ کررہا ہے اور ایسے اشارے موجود ہیں کہ ان میں سے اکثر اس عمل میں شامل ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ سرتاج عزیز کا یہ بیان اگردیکھا جائے تو طالبان ترجمان کی تردید سے مطابقت نہیں رکھتالیکن اگر بات کی جائے پاکستان کے موقف کی اس میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی کیونکہ حال ہی میں افغان حکومت اور سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار کے گروپ کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ اس مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے دوسری حکومت مخالف قوتوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی، اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی پالیسی میں ایک تسلسل دکھائی دے رہا ہے لیکن یہ تسلسل ایک ایسے وقت میں دکھایا گیا ہے جب میڈیا کے ذریعے افغان حکومت وطالبان کے مابین مائنس پاکستان مذاکرات کے دوراؤنڈہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے لہٰذا اس ٹائمنگ کو بہت اہمیت دی جارہی ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذکیاجارہا ہے کہ اب پاکستان خود کو اس عمل میں شامل کرے گا کیونکہ یہی اس کے قومی مفاد میں ہے جس کیلئے مستقبل میں جدوجہد کی جاسکتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Afghanistan Main Minse Pakistan Aman Ki Talash is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 October 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.