آئندہ حکومت سازی کے لئے منصوبہ بندی شروع

گڑھی خدا بخش میں سابق صدر آصف علی زرداری کی تقریر کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ بات موضوع بحث بن گئی کہ آئندہ حکومت کون بنائے گا۔ سابق صدر نے گڑھی خدا بخش میں پہلی بار مختصر تقریر کی لیکن بلاول بھٹو وزیراعظم پر خوب گرجے برسے۔ آصف علی زرداری نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ حکومت بناکردکھائیں گے۔ ایک جانب پیپلز پارٹی اپنی باری کی تیاری کررہی ہے دوسری جانب وہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے پریشان ہے

پیر 10 اپریل 2017

Ainda Hakomat Sazi K Liye Mansoba Sazi Shoro
شہزاد چغتائی:
گڑھی خدا بخش میں سابق صدر آصف علی زرداری کی تقریر کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ بات موضوع بحث بن گئی کہ آئندہ حکومت کون بنائے گا۔ سابق صدر نے گڑھی خدا بخش میں پہلی بار مختصر تقریر کی لیکن بلاول بھٹو وزیراعظم پر خوب گرجے برسے۔ آصف علی زرداری نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ حکومت بناکردکھائیں گے۔ ایک جانب پیپلز پارٹی اپنی باری کی تیاری کررہی ہے دوسری جانب وہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے پریشان ہے۔

سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ عمران خان سے دو جماعتی نظام لرزہ براندام اور خوفزدہ دکھائی دیتا ہے۔ سابق صدر نے حالانکہ مفاہمت کی سیاست کے خاتمہ کا اعلان کردیا ہے لیکن بدلتے ہوئے حالات نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو ایک کردیا ہے۔ گڑھی خدا بخش میں شیری رحمن کی جانب سے عمران خان سے ان کی جنرل باجوہ سے ملاقات کی تفصیلات منظر عام پر لانے کا مطالبہ درحقیقت موجودہ صورتحال کی عکاسی ہے۔

(جاری ہے)

عمران خان ملک کے واحد سیاستداں ہیں جنہوں نے آرمی چیف سے ملاقات کی تھی۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ آرمی چیف نے عمران خان کو شفاف الیکشن کا یقین دلایا ہے۔ اس دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ایک نکاتی ایجنڈے پر ڈیل ہوگئی اور اس دوران یہ طے ہوگیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں کسی تیسری سیاسی قوت کو ابھرنے کا موقع نہ دیا جائے اور ملک میں دو جماعتی نظام پھلے پھولے گا۔

سندھ میں ان سیاسی وفاداریاں بدلنے کا موسم ہے لیکن مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں اس بات پر مطمئن ہیں کہ دونوں جماعتوں کے باغی تحریک انصاف میں نہیں جارہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان آپس میں لڑائی جھگڑا بھی ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ اور میڈیا وار بھی ہے۔ لیکن ایک اطمینان بھی موجودہے۔ یہ ہی 2018ء کے انتخابات کیلئے خوبصورت سیاسی حکمت عملی ہے۔

سیاسی پنڈت سوال کرتے ہیں کیا ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اور این آر او یا غیراعلانیہ ڈیل طے ہوچکی ہے جس کا بنیادی مقصد کرپشن اور ناقص حکمرانی کو چھپانا ہے اگر درج ذیل نکات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ میچ بھی فکسڈ دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر سپرماڈل گرل بغیر مقدمے کے بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوچکی ہے اگر کسی اور شخص نے اتنی رقم بیرون ملک لے جانے کی کوشش کی ہوتی اور وہ رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا تو ساری عمر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی گزارتا اور ہرجگہ اسے اور اس کی فیملی کو ہدف تنقید بنایا جاتا۔

معاملہ صرف ایان علی کی بیرون ملک روانگی پر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ ڈاکٹر عاصم حسین بھی ضمانت پر باہرآگئے۔ حالیہ دنوں میں جو اہم واقعات رونما ہوئے ہیں ان میں شرجیل انعام میمن کی وطن واپسی بھی نمایاں ہے وہ اسلام آباد لینڈ کرنے سے پہلے ہی اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرچکے تھے یہ بات بھی قانونی اور سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے کہ نیب مقدمے میں دیگر ملزمان کو تو اس طرح ضمانت نہیں ملتی لیکن شرجیل میمن کو مل گئی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ نے ان کی درخواست مسترد کردی تھی اور وہ سندھ ہائیکورٹ کے پاس بھی جانے سے گریز کرتے رہے۔ ایک اور اہم واقعہ6سال بعد سابق وزیر حج حامد سعید کاظمی اورڈی جی حج را? شکیل بھی عدالت سے باعزت بری ہو گئے اور ماتحت عدالت نے30-16 سال قید و جرمانے کی جو سزائیں سنائی تھیں وہ کالعدم ہو گئیں۔ سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں ہورہی ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف اور آصف زرداری نے سیاسی ملاقاتوں اور جلسوں وغیرہ میں تیزی لا کر عوام کی اور میڈیا کی توجہ حاصل کر رکھی ہے اور بڑے بڑے پیکجز کا اعلان کرکے عوام سے داد وصول کی جا رہی ہے۔

یہ بات حیران کن قرار دی جارہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے پاناما ٹرائل‘ فیصلے کے اعلان میں تاخیر‘ ڈان لیکس اور دیگر جوڈیشل کمیشن رپورٹس پر خاموشی اختیار کررکھی ہے آخر کیوں؟ دوسری طرف یہ بات بھی قابل ذکر اور قابل فکر ہے کہ آخر مسلم لیگ ن نے میموگیٹ کمیشن کیس میں حسین حقانی کے خلاف غداری کا ٹرائل کرنے کے معاملے پر ہاتھ کیوں کھینچ لیا ہے۔

ان سب واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے تو مختلف سیاسی کردار وکٹری بناتے مسکراتے آئیں گے جس سے پیغام واضح ہے کہ ملک میں طاقتور مگر کرپٹ حکمراں طبقے کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
دریں اثناء موسم گرما کے آغاز کے ساتھ سندھ کی سیاست میں گرما گرمی بڑھ گئی۔ ڈاکٹر عاصم حسین رہا ہو گئے۔ متحدہ کے رہنماء ڈاکٹر ظفر عارف کی رہائی کیلئے پریس کانفرنس کی کوششیں میں جامعہ کراچی کے تین پروفیسرز گرفتار ہو گئے اور مسلم لیگ سندھ کے صدر اسمٰعیل راہو کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

مسلم لیگ سندھ کے باغی صدر اسمعیل راہو کی جگہ بابو سرفراز جتوئی کو مسلم لیگ(ن) سندھ کا صدرنامزد کردیاگیا ہے جبکہ شاہ محمد شاہ کو مرکزی نائب صدر بنادیاگیا۔اسمٰعیل راہو وزیراعظم کی درخواست پر سبکدوش ہوئے ہیں وہ اب پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کریں گے اور بدین کی صوبائی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو جائیں گے۔ان کی ممکنہ پیپلزپارٹی میں شمولیت کو مسلم لیگ ن کیلئے بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن سندھ کے باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد اسماعیل راہو نے یہ فیصلہ اس مجبوری کے تحت کیا کہ صدر پاکستان ممنون حسین نے پارٹی کے تمام اختیارات سلب کر رکھے تھے اور اسمٰعیل راہو صرف ڈمی کے طور پر ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے تھے۔ پارٹی میں سندھ میں موجود گروپوں میں اختلافات شدید ہوتے جا رہے ہیں اگر ان وجوہات کا خاتمہ نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں پارٹی کومزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس ہفتے کی ایک بڑی خبر ڈاکٹر عاصم کی رہائی تھی۔ ڈاکٹر عاصم حسین کو 2015ء میں رینجرز نے گرفتار کیا تھا‘ ان پر دہشت گردوں کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کاا لزام تھا اس کے بعد ان کے خلاف نیب نے گھیراتنگ کیا ان کو کرپشن کے مختلف الزامات میں تحقیقات سے گزارا گیا۔ وہ گرفتاری کے دن سے آج تک مختلف اداروں کی پوچھ گچھ کا سامنا کرتے رہے اور ان پر بطور مشیر پٹرولیم غیر قانونی احکامات کے ذریعے سرکاری خزانے کو 472 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچانے کا الزام لگا۔

اس کے علاوہ ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں بھی مقدمہ چلا جس میں دہشت گردوں کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کا الزام لگا اسی مقدمے میں وسیم اختر، روٴف صدیقی، انیس قائم خانی سمیت دیگر رہنما بھی شریک ملزمان بنائے گئے‘ ان ملزمان کی بھی گرفتاریاں اور پھر ضمانت ہوئی۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمات کو پیپلز پارٹی کی قیادت پہلے دن سے سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیتی رہی اور ان کے وکلاء کا بھی موقف تھا کہ ان کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں جب ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کیا گیا اس روز وہ سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے اجلاس میں شریک تھے۔

پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے دوران حراست ان کو اس صوبائی عہدے پر برقرار رکھا جبکہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ڈاکٹر عاصم کوکراچی ڈویڑن کا پارٹی صدر بھی بنادیا اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بشمول آصف زرداری‘ بلاول‘ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ اسپتال میں ڈاکٹر عاصم حسین کی عیادت کرتے رہے جبکہ شرجیل میمن نے بھی ڈیڑھ سال بعد وطن واپس آتے ہی اسپتال میں ڈاکٹر عاصم سے ملاقات کی۔

ڈاکٹر عاصم کا پاکستانی پاسپورٹ پہلے ہی عدالت میں جمع ہے جبکہ عدالت نے ان کوکینیڈین پاسپورٹ بھی عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔ دوران حراست ڈاکٹر عاصم کی فیملی بھی ان سے ملاقات کرنے آتی رہی لیکن پھر ڈاکٹر عاصم کی اہلیہ جو کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں ان کو بیرون ملک علاج کیلئے جانا پڑا۔ اس دوران ڈاکٹر عاصم کی اپنی طبیعت بھی کئی مرتبہ بگڑی۔

ان کے وکیل کے مطابق ان پر دل کا دورہ پڑا۔ فالج کا حملہ بھی ہوا، ان کی یادداشت متاثر ہونے کا بھی خدشہ پیدا ہوا۔ عدالت سے ضمانت منظور ہونے پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا کہ میری طبیعت اب بہتر ہے اور میں نے کہاں جانا ہے، میں یہی رہوں گا۔ اعلیٰ عدالتوں میں ڈاکٹر عاصم حسین کی پیروی سابق اٹارنی جنرل آ ف پاکستان انور منصور خان نے کی جنہیں ڈاکٹر عاصم حسین کا فیملی فرینڈ بھی قرار دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت پر بھی آصف علی زرداری کافارمولا لاگو ہوا۔ قانونی ماہرین کے مطابق آصف علی زرداری بھی ماضی میں جب جیل میں تھے ان کے خلاف متعدد سنگین الزامات پر مبنی مقدمات تھے تو سب سے پہلی ضمانت ان کو طویل عرصہ بعد سندھ ہائیکورٹ میں جسٹس امان اللہ عباسی نے طبی بنیاد پر دی تھی جس کی روشنی میں آصف زرداری کے وکلاء نے دیگر مقدمات میں بھی ایک ایک کرکے طبی بنیاد پر ضمانت حاصل کی۔

قانونی ماہرین کے مطابق یہ سوچا سمجھا طریقہ کار ہے جو ڈاکٹر عاصم کے وکلاء نے اختیار کیا ہے۔ دریں اثناء ہائی کورٹ کی جانب سے آئی جی سندھ کی تقرری کا نوٹیفکیشن معطل ہونے کے ساتھ وفاق اور صوبے کے درمیان جا ری کشمکش کا ڈراپ سین ہوگیا اور اللہ ڈنو خواجہ نے ایک بار پھر آئی جی سندھ کی حیثیت سے فرائض سنبھال لئے اس سے قبل حکومت نے اے ڈی خواجہ کی خدمات وفاق کو واپس کرکے عبدالمجید دستی کو آئی جی سندھ لگا دیا تھا جس پروفاق اور صوبے کے درمیان بدمزگی پیدا ہوگئی تھی۔

حکومت سندھ کے اقدام کو قانونی حلقوں نے چیلنج کیا تھا اوروفاق نے بھی نوٹیفکیشن پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اگرچہ حکومت سندھ نے وفاق کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن وفاق نے حکومت سندھ کی جانب سے آئی جی سندھ کی تقرری کیلئے دئیے گئے تینوں نام مسترد کردیئے تھے۔تاہم عدالتی فیصلے کے ساتھ یہ کشمکش ختم ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بات ثابت ہوگئی کہ حکومت نے غیرقانونی طورپر نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جوکہ مناسب نہیں تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبہ کسی طور پر وفاق کی مشاورت کے بغیر آئی جی کی تقرری نہیں کر سکتا۔ پیپلزپارٹی دوسری بار آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے میں ناکام ہوگئی اور چوہدری نثار کا پلڑا بھاری رہا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے تبادلے کے باوجود اے ڈی خواجہ ڈٹ گئے اور دونوں بار عدالت نے اے ڈی خواجہ کے حق میں فیصلہ دیا اور عدالت نے سوال کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود اے ڈی خواجہ کو کیوں ہٹایاگیا کیا یہ توہین عدالت نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Ainda Hakomat Sazi K Liye Mansoba Sazi Shoro is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 April 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.