’آزادی مارچ“ سے عہدہ براء ہونے کا ٹاسک

سر دست عمران خان کی ”سولو فلائٹ “ ہے ،چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ڈاکٹر طاہر القادری کو”آزادی مارچ“ کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں کر سکے

جمعہ 18 جولائی 2014

Azaadi March Se Ohda BarAa Hone Ka Task
نواز رضا:
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ” سونامی مارچ“ کا نام ”آزادی مارچ “ رکھ دیا ہے وہ اسلام آباد پر ”چڑھائی “ کی تیاریاں کر رہے ہیں سر دست عمران خان کی ”سولو فلائٹ “ ہے ،چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ڈاکٹر طاہر القادری کو”آزادی مارچ“ کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں کر سکے۔

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد کی ”پیغام رسانی“ کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ ”اناپرستی“ کا شکا ر دونوں شخصیات اپنے آپ کو ایک دوسرے سے بڑا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف کے آزادی مارچ میں ملفوف سونامی کا راستہ روکنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ(ن)کے تین بڑوں وزیراعظم محمد نواز شریف، و زیراعلی پنجاب شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وزیر اعظم ہاؤس میں اہم ملاقات کی ہے۔ تینوں بڑوں کے درمیان 5گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں یوم آزادی کی تقریبات کی اہمیت کے پیش نظر اجتماعات میں امن وامان برقرار رکھنے کے لئے حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ملاقات میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کو اسلام آباد کا امن وامان تہہ و بالا کرنے اجازت نہیں دی جائے گی۔

وزیر اعظم نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو عمران خان کے ”آزادی مارچ“ سے عہدہ براء ہونے کا ٹاسک دے دیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ پنجاب کی مشاورت سے 14اگست2014ء کو امن امان قائم کرنے کا پلان تیار کریں گے ڈی چوک میں کسی سیاسی جماعت کواجتماع منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مسلم لیگی قیادت نے اپنے سیاسی حریفوں کا مقابلہ سیاسی انداز میں ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

اس سلسلے میں حکومت نے 67ویں یوم جشن آزادی پر عوام کو متحرک کرنے کا سیاسی فیصلہ کر کے تحریک انصاف کی قیادت کو مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس مقام پر جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے جہاں حکومت تقریب منعقد کرے گی اس سے سیاسی تصادم کے امکانات بڑھ گئے ہیں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ موجودہ صورت حال میں خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں وہ سیاسی تصادم کو روکنے کے لئے سرگرم ہو گئے ہیں وہ وزیر اعظم محمدنواز شریف اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو سمجھانے کا فیصلہ کیا ہے وہ دونوں سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے اور انہیں اس قومی دن کی اہمیت کے پیش نظرسیاسی تصادم سے گریز کرنے کا مشورہ دیں گے انہوں نے کہا ہے کہ اگر عمران خان اسلام آباد میں جلسہ ملتوی کرنے سے انکار کر دیں تو حکومت ہی اپنا جلسہ ملتوی کر دے۔

یہ بات قابل ذکر ہے پاکستان تحریک انصاف ،پاکستان پیپلز پارٹی کو ”فرینڈلی اپوزیشن “ کا طعنہ دیتے تھکتی نہیں
اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اس بارے میں وضاحتیں ہی کرتے رہتے ہیں۔ اب بھی وہ یہ بات برملا کہہ رہے ہیں اپوزیشن کی بعض جماعتوں کے حکومت اور پارلیمان مخالف عزائم سے جمہوری نظام کی بساط لپیٹے جانے کا اندیشہ ہے۔ جمہوریت کو ممکنہ خدشات سے محفوظ رکھنے کیلئے اپوزیشن میں رہ کر ہمارے لئے جمہوریت کی حمایت زیادہ اہم ہے۔

حکومت نے ملک بھر میں 2 ہفتے تک جشن آزادی بھرپور انداز میں منانے کا فیصلہ کیا ہے دوسری طرف حکومت نے عمران خان کے مارچ کو روکنے کی منصوبہ بندی بھی کر لی ہے۔ وزیر اعظم محمد نوا زشریف نے کئی سال بعد جناح کنونشن سنٹر کی بجائے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے قومی پرچم کشائی کی تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ کرکے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ حکومت کی طرف سے عمران خان کو بھی قومی پرچم کشائی کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے جسے انہوں نے قبول نہیں کیا اور وہ ڈی چوک میں الگ جلسہ کر نے پر مصر ہیں۔

عمران کی تمام تر سیاست موجودہ حکومت کے ہر اقدام کی نفی کرنے پر مرکوز ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح نہ صرف ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا بلکہ انکی وزارت عظمیٰ کیلئے منزل مقصود بھی قریب تر ہو جائے گی۔وہ چار سال تک اپنی باری کا انتظار کرنے کے لئے تیار نہیں وہ ”اشاروں “ کی زبان سمجھتے ہیں وہ اس نظام کو تلپٹ کر کے غیر جمہوری عناصر کی مدد سے ایک ہی چھلانگ میں اس منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں جب کہ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کو بھی اس بات کا زعم ہے کہ اسے عوام کی بھر پور حمایت حاصل ہے وہ کسی بھی غیر مقبول سیاسی دباوٴ کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت میں ” سیکیورٹی خدشات“ کے پیش نظر جشن آزادی کی تقریبات جوش وخروش سے منانے کا سلسلہ ختم کر دیا گیا تھا۔ گویا موجوہ حکومت نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پنڈال میں اجتماع کرنے کا فیصلہ کر کے عمران خان کے چیلنج کو قبول کیا ہے۔ عمران خان یوم آزادی کو ”یوم احتجاج “کے طور منانے کا اعلان کیا ہے جس پر سیاسی حلقوں کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ ” لانگ مارچ“ کی تاریخ پر نظر ثانی کریں۔

دوسری جانب عمران خان تو اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے لئے پر عزم ہیں اور قبل ازوقت انتخابات کرانے کا مطالبہ تسلیم کرائے بغیر واپس نہیں جانا چا ہتے۔یہ صورت حال حکومت کو بھی کسی صورت قابل قبول نہیں جو مئی 2013ء کے انتخابات میں ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر قائم ہوئی ہے۔ اگر عمران خان کارکنوں کی یلغار سے جمہوری حکومت گرانے کی کوشش کریں گے تو یقیناً انہیں ریاستی قوت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا پاکستان میں ”لانگ مارچ“ سے حکومت گرائی نہیں جاسکتی البتہ اس کے نتیجے میں جمہوریت کو عدم استحکام کا شکار ضرور کیا جا سکتا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے عمران خان کے ایجی ٹیشن کا نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ چند ہزار لوگ کروڑوں افراد کے مینڈیٹ کو تبدیل نہیں کر سکتے، انقلاب اور تبدیلی کے نعروں سے ملکی ترقی کا سفر نہیں روکا جا سکتا، ملک میں اب منفی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں، تبدیلی ایک دن یا ایک سال میں نہیں آتی، یہ آخر کونسا انقلاب لانا چاہتے ہیں؟ 40,30 ہزار افراد سے کون سا انقلاب آئے گا ؟ گویا حکومت یہ سمجھتی ہے عمران خان اسلام آباد میں 10لاکھ نہیں 30،40 ہزار لوگ ہی اکھٹے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس حکومت اسلام آباد کے باہر روکنے کی قوت رکھتی ہے۔

عمران خان اپنے موقف میں تبدیلی کرنے میں شہرت رکھتے ہیں وہ آئے روز اپنے موقف میں تبدیلی لاتے رہتے ہیں انہوں نے بہاولپور کے جلسہ میں 4حلقوں کی بات کی تھی اب کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد پورے انتخا بات اب چارحلقوں کی نہیں پورے انتخابات کے نتائج کی جانچ پڑتال کا مطالبہ کر دیا ہے۔ انہوں نے حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات نہ کی گئی تو مڈ ٹرم انتخابات کا مطالبہ کر دینگے۔ انہوں نے آصف علی زرداری کی طرف سے چار حلقوں کی تحقیقات کی حمایت پر مسرت کا اظہار کیا ہے تاہم انہوں نے کہا ہے کہ آزادی مارچ کی راہ میں حکومتی رکاوٹ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Azaadi March Se Ohda BarAa Hone Ka Task is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 July 2014 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.