بینظیر قتل کیس کا انجام․․․․․مشرف اشتہاری!

پیپلز پارٹی کا فیصلے پر عدم اعتماد

جمعرات 7 ستمبر 2017

Be Nazeer Murder Case Ka Anjamm
محبوب احمد:
بے نظیر بھٹو کو اعلیٰ سیاسی سوجھ بوجھ ،قائدانہ صلاحیت اور ولولہ انگیز شخصیت کی بدولت پاکستان اور بیرونی دنیامیں ایک متحرک اور باعمل بہادر سیاسی رہنما کے طور پر زبردست شہرت حال ہوئی۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بے نظیر کے سحر کا آغاز اس وقت ہوا جب 1986ء میں جلا وطنی کے بعد وطن واپسی پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔

1988ء میں جلا وطنی میں بی بی نے انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا اور اکثریت حاصل کرکے ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی منتخب ہوئی۔ 1990 ء میں سابق صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کردی لیکن 1993ء کے انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوگئیں، اس بار بھی محض 3 برس بعد 1996 میں سابق صدر فاروق لغاری نے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔

(جاری ہے)

1997ء کے الیکشن کے بعد انہیں اپنے بچوں کے ہمراہ جلاوطنی بھی اختیار کرنا پڑی لیکن اس دوران انہوں نے لندن اور دبئی میں رہتے ہوئے بھی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ جنرل (ر)پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے خاتمے میں بے نظیر کی سیاسی بصیرت کو خاصا اہم تصور کیا جاتا ہے۔ 18 اکتوبر 2007ء کو وطن واپسی پر ایک مرتبہ پھر جیالوں نے ان کا شاندار استقبال کیا، ملک واپس پہنچنے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد کراچی ائیرپورٹ سے بلاول ہاؤس جاتے ہوئے بی بی کے استقبال کے لئے آنے والی ریلی میں بم دھماکے کی وجہ سے درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، تاہم دوسری مرتبہ راولپنڈی میں قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور وہ قاتلانہ حملے میں جان کی بازی ہار گئیں۔

بینظیر بھٹو قتل کیس میں ان کے امریکہ میں لابسٹ مارک سیگل نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پاکستانی سفارت خانہ واشنگٹن سے ویڈیولنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف کے دھمکی آمیز فون اور ان ای میلز کا ذکر کیا تھا جو محترمہ نے مارک سیگل کو بھیجیں اور جس میں انہوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ اگر وہ الیکشن 2007ء سے پہلےء پاکستان آجائیں گی تو انہیں قتل کردیا جائے گا اور انہوں نے اس کے ذمہ داروں میں جنرل (ر)پرویز مشرف کے علاوہ چودھری پرویز الٰہی ، آئی بی کے سابق چیف بریگیڈیئر (ر)اعجاز شاہ کے علاوہ جنرل (ر)حمید گل (مرحوم)کا نام لیا تھا۔

بے نظیر بھٹو کے قتل سے جڑے تجسس کا سلسلہ تاحال قائم رہا،مقامی تحقیقی اداروں کے علاوہ برطانیہ کے سکاٹ لینڈ یارڈ، امریکہ کی ایف بی آئی کے علاوہ اقوامتحدہ کے خصوصی تحقیقاتی کمیشن نے بھی سانحہ کی تفتیش میں حصہ لیا، ابتدائی طور پر واقعے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو ملوث قرار دیا گیا تھا، تاہم انسداد دہشت گردی عدالے نے بالآخر 9 برس بعد بے نظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سنا ہی دیا ہے۔

سابق وزیراعظم کے مقدمہ کی سماعت 9 سال 8 ماہ اور 3 روز جاری رہی۔ مقدمہ کے 7 چالان پیش کئے گئے،8 جج تبدیل اور 3 عدالتیں تبدیل ہوئیں ۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج محمد اصغر نے اڈیالہ جیل میں بے نظیر قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق سی پی او سعود عزیز اور ایس پی خرم اشفاق کو 17,17 برس قید کی سزا سنائی دونوں پولیس افسران کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔

کیس میں ملوث دیگر 5 ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا جن میں رفاقت ،حسنین، رشید احمد،شیر زمان اور اعتزاز شاہ شامل ہیں۔ عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف جو اس وقت بیرون ملک ہیں کو اشتہاری قرار دے کر مقدمہ داخل دفتر کرتے ہوئے ان کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ بے نظیر قتل کیس کے فیصلے کے بعد ایک ہی سوال زبان زدعام ہے کہ کیا پرویز مشرف کا مقدمہ جو ان کی غیر حاضری پر داخل دفتر کردیا گیا ہے ان کی ملک واپسی پر ری اوپن ہوگا اور کیا ان کا ٹرائل ممکن ہوپائے گا؟ ۔

پیپلز پارٹی رہنماؤں نے بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جس طرح لیاقت علی خان کے قتل کی سازش، ذوالفقار علی بھٹو کو دیئے گئے پھانسی کے فیصلے کی حقیقت آشکار نہیں ہوئی بالکل اسی طرح شاید اس قتل کی سازش کرنے والے بھی کبھی بے نقاب نہیں ہوں گے۔ پولیس افسران کو قربانی کا بکرا بنادیا گیا ہے لیکن اصل کرداروں کو بے نقاب نہین کیا گیا۔

پیپلز پارٹی قائدین کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو کو بھی اپنی حب الوطنی ،بہادری اور عوامی مقبولیت کی قیمت آخر کار اپنے خون سے ہی چکانا پڑی۔ 27 دسمبر کی شام بھٹو خاندان کے لہو سے روشن پاکستانی سیاست کا آخری چراغ بھی بجھادیا گیا اور پاکستان دشمن عناصر بے نظیر بھٹو کو بھی ابدی نیند سلانے میں کامیاب ہوگئے۔ پاکستانی سیاست میں بھٹو خاندان اپنا لہو شامل کرکے پاکستانی قوم کو ہمیشہ اس بات کا احساس دلاتا رہا ہے کہ عوام کی جائز ضرورتوں ، امنگوں اور خواہشات کو پورا کرنے اورپاکستان کے استحکام اور سلامتی کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے والے محب وطن لوگ ابھی ختم نہیں ہوئے، لہٰذا بے نظیر قتل کیس کا جو فیصلہ سنایا گیا ہے اس اہم مسئلے پر جلد لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔

سیاسی مبصرین کے بقول بے نظیر بھٹو کا عین ایسے وقت میں قتل ہوا جب ملک کو ان جیسی ذی فہم سیاسی قائد کی ضرورت تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Be Nazeer Murder Case Ka Anjamm is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 September 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.