ڈان لیکس۔۔راکھ کے ڈھیر سے شعلہ تلاش کرنے کی کوشش

ڈان لیکس اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے لیکن بعض دوست اب بھی راکھ کے ڈھیر میں شعلہ تلاش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ادھر پانامہ کیس کے سلسلے میں قائم جے آئی ٹی کا کام جاری ہے 22 مئی کو سپریم کورٹ کا بنچ اس کا جائزہ لے گا

پیر 22 مئی 2017

Dawn Leaks - Rakh K Dher Se Shola Talash Karne Ki Koshish
فرخ سعید خواجہ:
ڈان لیکس اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے لیکن بعض دوست اب بھی راکھ کے ڈھیر میں شعلہ تلاش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ادھر پانامہ کیس کے سلسلے میں قائم جے آئی ٹی کا کام جاری ہے 22 مئی کو سپریم کورٹ کا بنچ اس کا جائزہ لے گا۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف بھی آف شور کمپنیوں اور غیرملکی فنڈز کے پارٹی استعمال سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے لیکن اس کیس میں مولوی مرن کی سی بات کہاں؟ واجبی سی کارروائی سننے کو ملتی ہے۔

ادھر وزیراعظم نواز شریف عوامی جمہوریہ چین کے دورے پرہیں۔ غالباً ان کے اقتدار کے چار سال عرصے میں یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے جس میں چاروں صوبائی وزراء اعلیٰ ان کے ہمرکاب ہیں۔ عام لوگ اس تبدیلی پر بہت خوش ہیں اور دعا گو ہیں کہ کم از کم پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں قومی معاملات پر بحث و تمحیص کے بعد ہی سہی متفقہ فیصلے کریں تاکہ پاکستانی ایک قوم بن کر دنیا کے سامنے آ جائے۔

(جاری ہے)

یہاں پاکستان میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف زرداری سندھ اور پنجاب کے بعد خیبر پختونخواہ کے دورے پر ہیں۔ ان کے ان دوروں سے پیپلز پارٹی کا ووٹر اور سپورٹر کس قدر فعال ہوا ہے اس کا اندازہ تو الیکشن 2018ء ہی میں ہوگا البتہ وہ اپنی پارٹی کے جیالوں کو کسی حد تک گھروں سے نکالنے میں کامیاب ضرور ہوئے ہیں آصف زرداری نے الیکشن 2013ء کے بعد لاہور کے بلاول ہاوٴس میں جب پہلی مرتبہ قدم رنجہ فرمایا تھا تو میاں نواز شریف کو اپنا لیڈر قرار دیتے ہوئے کام کرنے کیلئے فری ہینڈ دینے کا اعلان کیا تھا اور ساتھ ہی کہہ دیا تھا کہ اب آپ سے 2018ء میں ملاقات ہو گی۔

سو اب جبکہ الیکشن 2018 ء کا بگل بج چکا ہے آصف زرداری بھی سیاسی میدان عمل میں منصفانہ پالیسی چھوڑ کر جارحانہ پالیسی کے ساتھ موجود ہیں باپ بیٹوں کے جارحانہ بیانات کے ساتھ ساتھ سندھ اسمبلی سے بھی وفاق کے بارے میں آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کی للکار کو وفاقی وزراء نے گیدڑ بھبھکیاں قرار دیتے دیا تھا اور اب سندھ اسمبلی نے لوڈ شیڈنگ کے خلاف قرار داد منظور کی جس میں لوڈ شیڈنگ کا تمام ملبہ وفاقی حکومت پر ڈالا گیا دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قرار داد تحریک انصاف کے ممبر اسمبلی خرم شیر زمان نے پیش کی جس کی صوبائی وزراء سمیت پیپلز پارٹی کے تمام ممبران نے حمایت کی دیگر پارلیمانی گروپوں نے بھی قرار داد کی حمایت کی ماسوائے مسلم لیگ فنکشنل کے۔

مسلم لیگ فنکشنل وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حلیف ہے اور سندھ کی سیاست میں اس کا مسلم لیگ (ن) کے خلاف نہ جانا آنے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی مخالف صف بندی کی نوید ہے۔
یہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے اس کی مخالفت کا مرکز نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) ہی ہے جبکہ زرداری اور پیپلز پارٹی بھی ان کی زد میں آتے رہتے ہیں۔ آنے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کیا کارکردگی دکھا پائے گی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا فی الحال تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر انٹرا پارٹی الیکشن کروانے جا رہی ہے اس سے پہلے انٹرا پارٹی الیکشن پی ٹی آئی کی اچھی کوشش ضرور قرار پائے لیکن پارٹی کیلئے بدنامی کا باعث نہ ہو بہتر ہوگا پارٹی کے اندر دھڑے بندی کوئی انہونی بات نہیں۔

بڑی سیاسی جماعتوں میں پارٹی قائد کے علاوہ دیگر افراد میں شخصی ٹکراوٴ کا ہونا غیر فطری نہیں ہے البتہ اسے ایک حد تک رکھنا چاہئے اور ووٹ کے ذریعے فیصلہ کسی کے بھی حق میں آئے باقی تمام کو اس فیصلے کو تسلیم کر لینا چاہئے۔ اس مرتبہ بھی پی ٹی آئی ایس ایم ایس کے ذریعے ووٹ اور 13 امیدواروں کے پینل کو ایک ووٹ کا فارمولا دینا ہی ہے جو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن میں نئی جہت ہے۔

البتہ کرے کہ اس مرتبہ پارٹی انتخابات بخیروخوبی پایہ تکمیل کو پہنچیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا استحکام خود پاکستان کی جمہوریت کیلئے مفید ہوگا۔
جہاں تک حکمران مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے اس کے قائد میاں نواز شریف الیکشن 2018ء کے لئے عملاً میدان میں اتر چکے ہیں تاہم بطور جماعت مسلم لیگ (ن) کو فعال اور متحرک کرنے کیلئے اپنے ہی طریقے میں جو مروجہ سیاست میں عجیب دکھائی دیتے ہیں۔

مثلاً پارٹی کو بغیر سیکرٹری جنرل چلانا حتیٰ کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی پارٹی کا جنرل سیکرٹری مقرر نہ کرنا اچھنبے کی بات ہے۔ پنجاب میں چونکہ وزیراعلیٰ شہباز شریف بہت زیادہ متحرک ہیں اس لئے صوبے کے تمام اضلاع میں ان کے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی اور ضلعی عہدیدار بھی خود کو فعال رکھنے کی کوشش میں رہتے ہیں مسلم لیگ (ن) لاہور کی تنظیم کا درجہ صوبائی تنظیم کے برابر ہونے اور لاہور شریف برادران کا شہر ہونے کی وجہ سے یہاں پارٹی تنظیم کافی متحرک ہے لاہور کے صدر پرویز ملک، جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر اور چیف آرگنائزر سید توصیف شاہ تینوں کی متحرک و فعال شخصیات میں سو یہاں پارٹی تنظیم کو یونین کونسل کی سطح تک منظم کرنے کیلئے جو کوآرڈی نیٹر بنائے گئے تھے انہوں نے بھی عمدہ کارکردگی دکھائی ہے اور رمضان المبارک سے قبل مسلم لیگ (ن) لاہور کی تنظیم یونین کونسل کی سطح تک مکمل ہو جائے گی۔

سو آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) لاہور میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر مخالفین کیلئے لوہے کا چنا ثابت ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Dawn Leaks - Rakh K Dher Se Shola Talash Karne Ki Koshish is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 May 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.