دہشت گردی کیخلاف پاکستان کا کردار اور امریکی کانگریس

کیا واشنگٹن انتظامیہ ” ڈومور “ کی آڑ میں خطے میں بدامنی کی آگ مزید بھڑ کارہی ہے ٹرمپ کی زیرسرپرستی ہندولابی کی مذموم سرگرمیاں

بدھ 29 مارچ 2017

Dehshatgardi K Khilaf Pakistan Ka Kirdar Aur Amriki Congress
محبوب احمد :
پاکستان میں گوادر بندر گاہ کیخلاف سازشیں ، پاک چین کے درمیان اقتصادی معاہدوں پر اثرانداز ہو کر پاکستانی تجارت پر تنازعات کھڑے کرنا، ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے اوردیگر دو طرفہ تجارتی معاہدوں پر اثرانداز ہونا بھارتی ایجنسی ” را“ اوردیگر ملک دشمن عناصر کااہم مشن تھا ، ہے اور رہے گا کیونکہ ملک دشمن عناصر پاکستان کو پسماندہ اور غیرترقی یافتہ رکھنے کیلئے ہرحربہ استعمال کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی طور پر بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور قابل غور امریہ بھی ہے کہ اب تک اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان بھی پاکستان ہی کا ہوا ہے دنیا اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ امریکہ نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کیخلاف جو جنگ شروع کی تھی پاکستان نے اس میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے ۔

(جاری ہے)

پاکستان کو ایک اندازے کے مطابق 2001ء سے شروع ہونے والی اس جنگ میں جہاں 120 ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان سے دوچار ہونا پڑاوہیں ہزاروں افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ پاکستان کو جتنا بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے ، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے سپورٹ فنڈ کی مد میں ان نقصانات کا کوئی بھی ازالہ نہیں کیاگیا جبکہ پاکستان کیلئے منظور کی گئی فوجی امداد بھی کٹوتیوں کی زد میں آتی رہی ہے ۔

اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں ہیں امریکی اور نیٹو افواج کی افغانستان آمد کے افغان باشندوں کی بڑی تعداد نے پاکستان کارخ کیا لہٰذا پنا ہ گزینوں کی آڑ میں ملک دشمن عناصر بھی پاکستان میں گھس کر اس کی ترقی وخوشحالی کے درپے گئے اور اس بھیانک صورتحال کا پاکستان کوآج بھی سامناکرنا پڑرہا ہے ۔ اس بات میں بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت سے عالمی امن کیلئے خطرات بڑھ رہے ہیں ۔

دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو جس قیمتی جانی ومالی نقصان سے دو چار ہونا پڑا اس کا پوری دنیا کی طرف سے اعتراف کے باوجود امریکہ کی طرف سے ” ڈومور “ کا مطالبہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ ایک طرف پاکستان دہشت گردی کیخلاف اپنا مثالی کردارادا کررہا ہے لیکن دوسری طرف اسے بیرونی سازشوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو کہ ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔

بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ کوئی نہ کوئی تنازعات ضرور ہیں چاہے وہ تنازعات علاقائی ہوں یا پھر آبی جبکہ جنوبی ایشیا میں بدامنی کی سب سے بڑی ذمہ داری بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ” را “ ہی ہے ۔
امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی سرپرستی میں بھارتی لابی ان دنوں پاکستان کیخلاف جو منصوبہ بندی کررہی ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ پاکستان کو بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل کرنے پر مصر ہے جن ممالک کو سخت امریکی پابندیوں کا سامنا ہے ، اس کااندازہ گرشتہ د نوں امریکی کانگریس میں پاکستان کیخلاف پیش کئے گئے بل سے لگایا جاسکتا ہے ۔

امریکی کا نگریس کے ایوان نمائند گان میں جو بل پیش کیا گیا ہے کہ اس کے تحت پاکستان کو دہشت گردی کی معاونت کرنے والا ملک قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے ، اس بل سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں ایک انقلابی تبدیلی کی کوشش کی گئی ہے ، یادرہے کہ ٹیڈ پونے ایک ایسا ہی بل گزشتہ برس ستمبر میں بھی پیش کیاتھا لیکن اس کے منظور ہونے کے آثار انتہائی کم تھے کیونکہ یہ اوباما انتظامیہ کا آخری دور تھا ۔

پاکستان کی پالیسیوں پر سخت تنقیدپر مشتمل جو بل پیش کیاگیا ہے اس کے تحت صدر کو 90 دنوں کے اندر جواب دینا ہوگا کہ پاکستان بین الاقوامی دہشت گردی کو سپورٹ کرتا ہے یا نہیں ، 30دن کے بعد وزیر خارجہ کوا یک رپورٹ دینا ہوگی جس میں انہیں یا تو پاکستان کو دہشت گردی کا کفیل ملک قرار کرنا پڑے گا تو تفصیل بتانا ہوگی کہ وہ کیوں اس زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا ۔

پاکستان کی شروع دن سے ہی یہ دلیل رہی ہے کہ دنیا یہ نہیں دیکھ رہی کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کتنی قربانیاں دی ہیں لیکن ہمیشہ سے ہی اس سے ”ڈومور“ کامطالبہ کیا جاتا رہا ہے اور اب دیکھنے میں آیا ہے کہ ٹرمپ سرکار کے آتے ہی سازشیں عروج پر پہنچ گئی ہیں ۔ ایک طرف امریکہ کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کا اعتراف لیکن دوسری طرف پاکستان کیخلاف منفی سرگرمیاں اس کی دوہری پالیسی کی عکاسی کرتی ہیں جو کہ خطے میں بدامنی کا باعث بن رہی ہیں ۔

پاک افغان سرحد اور خطے میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی ہے اور پاکستان نے کئی ایسے اقدامات بھی کئے ہیں جو امریکی اور نیٹو افواج کے لئے سود مند ثابت ہوئے ہیں ۔
ٹیڈپو امریکی ایوان نمائند گان میں ری پبلیگنز کے وہ نمائندے ہیں جو اوبامہ دور میں بھی امریکی کانگریس میں پاکستان مخالف بل لاتے رہے ہیں ، ان میں پاکستان کی فوجی امداد اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکی اتحادی ہونے کے ناطے پاکستان کے سپورٹ فنڈ میں کٹوتی سے متعلق بل بھی شامل تھا ، اگرچہ امریکہ کے ڈیمو کرٹیس حکمرانوں نے بھی پاکستان کا سچا خیر خواہ ہونے کا کبھی ثبوت فراہم نہیں کیا اور اوبامہ کی دونوں ٹرموں کے دوران پاکستان سے ” ڈومور“ کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اس کی سرزمین پر ڈرون حملوں اور دوسرے آپریشنز کا سلسلہ بھی برقرار رکھا جن میں اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن اور پاکستان کی سلالہ چیک پوسٹوں پر نیٹو فورسز کے فضائی حملے بھی شامل ہیں ۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی دہشت گردی کے حوالے سے بھارتی لب ولہجے میں پاکستان کے خلاف زہراگلتے رہے ہیں ۔ انہوں نے صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے 20 نکاتی انتخابی منشور پر جس سرعت کے ساتھ عملدرآمد کا آغاز کیا ہے اس کے تناظر میں پاکستان امریکہ تعلقات میں دوستی کا عنصر ہرگز غالب نظرآتادکھائی نہیں دے رہا بلکہ اس بل کی منظوری کی بنیاد پر پاکستان کے گردشکنجہ کسنے کی کوشش کی جائے گی ۔

امریکی کانگریس میں پیش کروہ بل میں یہی تاثر ابھر کرسامنے آرہا ہے کہ اس کی منظوری کے بعد ٹرمپ کو پاکستان کا نام بھی اس فہرست میں شامل کرنے کی سہولت مل جائے گی جس کے تحت واشنگٹن انتظامیہ نے 7مسلم ممالک کے شہریوں کو امریکی ویزے دینے پر پابندی عائد کی تھی ، اگرچہ اب تک ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہی تاثر دیاجارہا ہے کہ پاکستان کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا تاہم ٹیڈیو کے بل سے یہ واضح عندیہ مل رہا ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ نے پاکستان کو ” ٹف ٹائم “ دینے کی حکمت عملی طے کر لی ہے اور اس امر میں کوئی شک وشبہ نہیں رہا کہ ٹرمپ انتظامیہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار کو مشکوک قرار دے کر اس پر مختلف پابندیاں عائد کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہے ، اس تناظر میں امریکہ افغان جنگ کی آگ کومزید بھڑکانے کی حکمت عملی طے کرتا نظر آرہا ہے جس میں وہ پاکستان کے کردار پرشک کا اظہار کرکے اس سے ”ڈومور“ کے تقاضے بڑھانا چاہتا ہے ، بصورت دیگر اس پرپابندیوں والے ممالک کی فہرست میں شامل کئے جانے کی تلوار لٹکتی دکھائی جاتی رہے گی ۔

ضرورت اب اس امرکی ہے کہ پاکستانی حکمران امریکہ کواب تصویر کا صحیح رخ دکھائیں کہ اس کی ساختہ انتہاء پسند تنظیمیں ہی اس خطہ میں دہشت گردی کے فروغ کا باعث بنی ہوئی ہیں ، لہٰذا وہ پاکستان سے ” ڈومور“ کے تقاضوں کے بجائے متذکرہ تنظیموں سے اپنی سرپرستی کا ہاتھ کھینچ لے کیونکہ ایسا کرنے سے ہی خطے میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہوگی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Dehshatgardi K Khilaf Pakistan Ka Kirdar Aur Amriki Congress is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 March 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.