دھرنوں کی سیاست

دنیا بھر میں یہ گُر آزمایا جار رہا ہے ماضی میں چھوٹے چھوٹے جلسے اور نعرے ہی پرُ اثر ہوتے تھے

بدھ 15 اکتوبر 2014

Dharnoon Ki Siasat
خالد نجیب خان :
ہمارے ہاں سیاست کا جو حال آج ہے ،بہت سال پہلے ایسا ہرگز نہیں تھا۔ ماضی میں اگر کسی حکمران کے نام کے ساتھ گھریلو پالتو جانور کا نام لگ جاتا تو ہو ناصرف اقتدار سے الگ ہو جاتا تھا بلکہ سیاست سے ہی کنارہ کر لیاکرتا تھا۔ ایک سابق حکمران نے تو ملک میں اس قدر ترقیاتی کام کئے کہ آج بھی اکثرلوگ اُس کی مثال دیتے ہیں بلکہ بعض تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے آگے ترقیاتی کام ہوا ہی نہیں ۔

اُنہوں نے قوم کونیا آئین بھی دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آئین تقریباََ تین ہزار دن ہی چل سکا ۔ اُن کے دور اقتدار میں جب چینی کی قیمت میں چند پیسے کا اضافہ ہوا تو لوگ سڑکوں پرآگے اور اُن کے نام کے ساتھ ایک گھریلو پالتو جانور کانام لگا دیا۔ اس سے وہ اس قدر نادم ہوئے کہ اقتدار سے الگ ہو گئے۔

(جاری ہے)

اس کے بعد عوام نے اور ایک آئین دھندہ کو بھی اسی طرح مسندِ اقتدار سے اُتارا۔

اس کے بعد اُن کے جانشین کو اقتدار سے اُتارنے کیلئے یہی حربہ استعمال کیا گیا مگر کامیابی نہ ہوئی اور آخر ایک فضائی حادثہ اُن کیلئے جان لیوا ثابت ہوا۔ اس کے بعد پاکستانی عوام نے مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں کے نام کے ساتھ پالتوں جانور کا نام تو لگایا مگر کسی نے بھی اس وجہ سے مسندِ نہ چھوڑی۔
اس کی وجہ مختلف ماہرین کے نزدیک مختلف ہے۔

ہمارے نزدیک اس کی وجہ پالتو جانور کے نام سے حکمرانوں کا ”رزسٹنٹ“ ہونا ہے۔ میڈیکل کے شعبے میں جب ایک دوائی پوری طرح اثرنہ دکھارہی ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس دوائی سے جراثیم رزسٹنٹ ہو گئے ہیں ،اب اس کی سیکنڈ جنریشن لانا ہوگی۔مارکیٹ میں اس وقت بہت سی ادویات ایسی دستیاب ہیں جن کی چھٹی ساتویں اور اس سے بھی آگے کی جنریشن آچکی ہیں۔
اس پالتو جانور کے نام کے بعد چھوٹے موٹے، لمبے چوڑے غرض ہر طرح کے مارچ کا سلسلہ شروع ہو گیا کسی حزب اختلاف نے لانگ مارچ کیا تو کسی نے ٹرین مارچ اور بس اور ٹرک مارچ کیا ۔

ان مارچوں نے فوری اثر تو نہیں دکھایا مگر سیانے کے کہے اور آملے کے کھائے کی طرح کچھ عرصے کے بعد ضرور اثر کیا۔اسی دوران ایک مذہبی سیاسی جماعت نے عوام کو نعرہ دیا”جینا ہوگا، مرنا ہوگا، دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا“اس نعرے پر اُس جماعت نے تو شاید اتنا عمل نہیں کیا البتہ اپنے اپنے حقوق کے حصول کیلئے چھوٹی چھوٹی غیر سیاسی تنظیموں نے عمل ضرورکیا۔

اکثر مقامی سیاستدان اپنے علاقے میں پانی بجلی گیس وغیرہ کی بندش کے مسئلہ پر یا کسی مقتول کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے کسی چورا ہے پر بیٹھ جاتے۔ جس سے ٹریفک رُک جاتی اور انتظامیہ کو اُن کے مسائل حل کرنا پڑتے۔ کلرک، اساتذہ ، پیرامیڈیکل سٹاف، چھوٹے تاجر، کسان مزدور وغیرہ اس حربے سے استفادہ کر چکے ہیں۔
یہ دھرنے دینے والے اکثر لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ اپنے مطالبات منوانے کا یہ گُر شاید ہی جانتے ہیں مگر بین الاقوامی خبریں پڑھنے والے جانتے ہیں کہ یہ حربہ کہاں کہاں کامیاب ہوا ہے۔

فرانس کے بادشاہ کے محل کے باہر جب لوگوں نے دھرنا دیا تو سیاست سے نابلد شہزادی نے پوچھا:”یہ لاگ شورکیوں مچا رہے ہیں؟“ تو کسی نے اسے سادہ الفاظ میں بتایا کہ ”ا نہں روٹی نہیں ملتی اسلئے شور کر رہے ہیں۔ “ تو شہزادی نے کہا:“ یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔“
ایسی شہزادیوں اور شہزادوں کی پروڈکشن فرانس کے انقلاب کے بعد بند نہیں ہوگئی بلکہ وقتاََ فوقتاََ ہوتی رہتی ہے اور اس سے ملتی جلتی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں اور عام لوگ اُن باتوں پر قہقہ لگانے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے۔


اگست 1939ء میں افریقن ، امریکی اٹارنی سیمول ولبرٹ نے سکندریہ، ورجینا لائبرری کے سامنے دھرنا دیا جس میں 302 لوگ شامل تھے۔ مئی 1942 میں جیمس فارمر جونیئر نے 27 افراد کے ساتھ دھرنا دیا۔ انتظامیہ نے اُنہیں دھرنا ختم کرنے کیلئے پولیس کی خدمات حاصل کیں تو پولیس نے بتایا کہ اُن لوگوں نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ہے اسلئے اُن کے خلاف طاقت کا استعمال جائز نہیں ہے۔

امریکن سول رائٹ موومنٹ کے سلسلے میں مورگن سٹیٹ کالج جواب یونیورسٹی بن چکا ہے ، میں طلبہ کے ایک گروہ نے 1955 میں دھرنا دیا جو بمشکل آدھ گھنٹہ جاری رہا اور اس کے نتیجہ میں اُن کے مطالبات تسلیم کر لئے گئے۔ اس طرح کے سینکڑوں دھرنوں سے تاریخ کے صفات بھرے ہوئے ہیں مگر اسے واقعات کم ہیں جس سے کسی ملک کی سیاست کا رخ بدل گیا ہو۔
بنگلہ دیش میں جنرل ارشاد کی حکومت سے نجات پانے کیلئے عوام نے بڑے احتجاج کئے مگر کچھ نہ بناتو آخر کا ر یہ ترکیب نکالی گئی کہ عوام اپنے اپنے گھروں کے باہر دھرنا دیں۔

ی تدبیر کام آئی اور بنگلہ دیش کو جنرل ارشاد سے نجات ملی۔ 2011 میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے تحریر سکوائر میں اس وقت کے حکمران حسنی مبارک سے نجات حاصل کرنے کیلئے لاکھوں لوگ جمع ہو گے۔مصری صدر کو اول توی توقع ہی نہیں تھی کہ اُس کے خلاف اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو سکتے ہیں جب وہ لوگ جمع ہوگے تو پھر بھی اُن کا خیال تھا کہ کچھ عرصے کے بعد یہ لوگ چلے جائیں گئے مگر یہ لوگ اُس وقت تک وہاں سے نہ گئے جب تک حسنی مبارک نے اقتدار چھوڑ نہیں دیا۔

پاکستان میں ججوں کی بحالی کیلئے مسلم لیگ نون نے اسلام آباد میں دھرنے کا پروگرام بنایا اور اس مقصد کیلئے وہ گھر نے نکل پڑے۔ ابھی وہ اسلام آباد سے بہت دور تھے کہ حکمران جماعت نے اُنہیں اُن کے مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کرادی اور وہ واپس چلے گئے۔ اس کے بعد پاکستان عوامی تحریک نے ” سیاست بچاوٴ“ کے عنوان سے اسلام آباد ڈی چوک میں دھڑنا دیا ۔

یہ شدید بارش اور آندھنی بھی آئی مگر اُن کے کارکن جمے رہے۔ بعد میں اُنہیں اس یقین کے ساتھ واپس بھیج دیا گیا کہ اُن کے مطالبات سمجھیں مان لئے گئے ہیں۔
اسلام آباد میں 14 اگست 2014 سے بیک وقت دو درھرنے جاری ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ احتجاجی دھرنوں کی تاریخ میں یہ تاریخ میں یہ طویل ترین دھرنے ہیں۔ طویل ترین دھرنے ہونے کے باوجود حکمرانوں نے اس کا وہ اثر نہیں لیا جو لینا چاہیے تھا۔

شاید ان دھرنوں سے متاثر ہو کر سپین کے دارالحکومت بارسلونا اور ہانگ کانگ کے شہریوں نے بھی اپنے اپنے حکمرانوں کو جھنجھورنے کیلئے دھرنے دینے شروع کر دئیے ہیں۔
مطالبات منوانے کیلئے دھرنوں کی سیاست بھی شاید اب رزسٹنٹ ہو گئی ہے حکمرانوں سے اپنے مطالبات منوانے کیلئے شاید اب کوئی ”تھرڈجنریشن “ طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Dharnoon Ki Siasat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 October 2014 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.