حسین حقانی کس کا کھیل کھیل رہے ہیں

امریکہ میں پاکستانیوں کے ماتھے کا جھومر بننے سے لے کر غداروطن کہلانے تک حسین حقانی کا کردار پراسرار کیوں رہا

جمعرات 23 مارچ 2017

Hussain Haqqani Kis Ka Khel Khail Rahay Hain
سالک مجید :
انہوں نے اسلامی جمعیت طلبااور کراچی یونیورسٹی میں مقبول اسٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر پہچان بنائی پہلے نوازشریف اور پھر بے نظیر بھٹو کی قربت اور اعتماد حاصل کیا ۔ نواز شریف کی مخالفت پر اترے اور آصف زرداری کے دل میں گھر کرگئے ۔ پیپلزپارٹی نے امریکہ میں پاکستان کا سفیر بنایا تو سی آئی اے اور امریکی انتظامیہ کے قریب ہو گئے ۔

اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ نکالنے کے آپریشن کردارادا کیا جب قومی سلامتی کے اداروں کا گھیراتنگ ہوا تو آصف زرداری نے اپنی جان بچانے کے لئے حسین حقانی کوپاکستان بلایا میموگیٹ اسکینڈل سے جان بچا کر واپس امریکہ پہنچے اور پھر یہودی لابی کے نزدیک ہوگئے ۔
بندے ہمارے تھے لیکن مشن ہمارا نہیں تھا “ کہہ کر بھارت کے تناظر میں جنرل پاشا کے حوالے سے تنازعہ کھڑا کیا اور اب پھر ایبٹ آباد آپریشن کو زندہ کردیا۔

(جاری ہے)

آخر یہ شخص چاہتا کیا ہے ؟
آپ کسی سفارتی ڈنر میں جائیں یاسیاسی محفل میں ۔ کسی بارروم میں جائیں یا ٹاک شو میں جائیں یا ٹاک شو میں ۔ ہر جگہ حسین حقانی کا چرچاہے ۔ یہی اس شخص کی کامیابی کہی جائے گی کہ وہ جب چاہتا ہے ” ٹاک آف دی ٹاؤن “ بن جاتا ہے ۔ بس ایک پھلجڑی چھوڑتا ہے اور پھر جوتماشا شروع ہوتا ہے اسے دور بیٹھ کر خواب انجوائے کرتا ہے ۔

یہ اس کی ذہانت بھی ہے قابلیت بھی ۔ وہ خداداد صلاحیتوں کا مالک ہے ۔ اس کے چہرے پر خوبصورت اور معنی خیزمسکراہٹ ہوتی ہے اس کے لہجے میں بلا کا اعتماد ہوتا ہے۔ وہ تاریخ حوالوں سے مدلل گفتگو کرتا ہے اس کی تحریر پر اثر ہے ۔ آپ اس کو محفل میں ہویا تحریروبیان میں ۔ کہیں بھی نظرانداز نہیں کرسکتے ۔ کھل کر اختلاف رائے کو وہ بھی پسند کرتا ہے اور اس سے بحث بھی دلچسپ معلوماتی اور فکر انگیزہوتی ہے ۔


جی ہاں ۔ یہ ذکر خیر ہورہا ہے حسین حقانی کا۔ جنہیں ایک دنیا اب امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر کی حیثیت سے جانتی اور پہنچانتی ہے اور غالباََ اس حوالے سے پکارتی بھی ہے لیکن اس سے بہت پہلے اس شخص نے اپنی شناخت کرالی تھی ۔ اسلامی جمعیت طلباء کے پلیٹ فارم سے جامعہ کراچی کا ہردلعزیز اور مقبول سٹوڈنٹ لیڈر حسین حقانی سیاسی سفر میں بہت بلندیوں کو چھوئے گا اور خوب شہرت پائے گا۔

یہ بات تو اس وقت کے اساتذہ اور اس کے دوست بھی کہتے تھے ۔ اس نے یہ سب کچھ کرکے دکھا بھی دیا کہ وہ اپنی دھن کا پکا ہے اور جس چیز کے پیچھے پڑجاتا ہے اسے حاصل کرکے ہی دم لیتا ہے قدرت نے اسے کئی محاذوں پر سرخرو کیا۔ کچھ محاذاس کے خود کھانے جانے والے محاذ تھے ۔ اس نے دوسروں کی ناکامیوں سے سیکھا اور خود کوناکامیوں سے بچاتا رہا۔ نوازشریف کی قربت حاصل کی ، بے نظیربھٹو کا اتحاد پایا۔

سری لنکا میں پاکستان کے سفیر بنے ۔ جب نواز شریف کی مخالفت کی تو پھر نئی سیاسی اتنگ شروع کی بالآخر آصف زرداری کے دل میں گھر کر لیا اور امریکہ میں پاکستانی سفیر بننے کااعزاز حاصل کرلیا ۔ جو شخص پاکستان میں رہ کربیک وقت تین گھرچلا سکتا ہو اس کی صلاحیتوں کا اندازہ تو بخوبی لگایا جاسکتا ہے اس کے ہر فیصلے اور ہر اقدام کے پیچھے ایک سوچ ایک وژن اور ایک مقصد نظرآتا ہے جو اسے دوسرون سے منفرد اور ممتاز بھی کرتا ہے ۔


اس کے قریبی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ معین قریشی 2کاروپ لیکر پاکستان آناچاہتا ہے گویا اس کی بڑی خواہش ہے کہ وہ اب پاکستان کے کسی حکمران کے لیے کام نہ کرے بلکہ خود پاکستان کا حکمران بنے پاکستان کاوزیراعظم بننا اس کا ایک خواب ہے جس کی تعبیر پانے کے لیے وہ امریکہ میں یہودی لابی کی طاقت اور دولت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ توآنے والا وقت ہی طے کرے گا لیکن فی الوقت حسین حقانی امریکہ میں رہ کر ہی پاکستان کی سیاست پر اثرانداز ہونے کے منصوبے بنا رہا ہے اور ایبٹ آباد آپریشن سکیم مئی 2011ء کے حوالے سے نئے انکشافات اور دعوے اسی سلسلے کی کڑی نظرآتے ہیں جن پر پورے ملک میں نئی بحث چھڑگئی ہے اور امریکہ میں پاکستانیوں کے ماتھے کا جھومربننے والا حسین حقانی اب پاکستان میں ” غداروطن “ کہلایاجارہا ہے ۔

ویسے تو پاکستانیوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ مختلف ادوار میں یہاں مختلف سیاستدانواں کو غدار اور بھارتی ایجنٹ اور راکا ایجنٹ یامودی کا یاروغیرہ کہاجاتا رہا ہے اور آجکل بھی کہا جارہا ہے ۔ ماضی کے کئی غدار بعد میں قومی سلامتی کے اداروں سے اپنی پاک بازی کے سرٹیفکیٹ بھی لاتے رہے ۔ پاکستان میں تحریکوں کی قیادت بھی کرچکے اور کئی سرکاری عہدوں پر براجمان بھی ہوچکے لہٰذا یہ غدار وطن کے نعرے اورالزامات پاکستان کی سیاست میں کچھ معنی نہیں رکھتے ۔

وقت اور حالات کے ساتھ لوگوں کی اہمیت کم زیادہ ہوتی رہتی ہے ۔ اب اسی حوالے سے کہا اور لکھا جارہا ہے کہ اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے شروع کیے جانے والے امریکی آپریشن میں امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کا کیا کردار تھا اور جس کا دعویٰ وہ خود کررہے ہیں کہ ان کی مدد سے ہی اوباماانتظامیہ اسامہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی تو پھر یہ مدد کس نوعیت کی تھی۔

اس میں خود اس وقت صدر پاکستان آصف علی زرداری اور پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کاکردار تھا اور سی آئی اے کے لوگوں کو بڑی تعداد میں پاکستان کے ویزے جاری کرنے میں کون کون شامل تھا اور مزید حقانی کیساتھ اس پر سینیٹ میں بھی آوازیں اٹھی ہیں اور کمیشن بنانے کی باتیں ہوئی ہیں جبکہ ایبٹ آباد کمیشن تو پہلے ہی بنایاگیا تھا اس کی تفصیلات بھی قوم کے سامنے نہیں لائی گئیں ، میموگیٹ سیکنڈل کی تفصیلات بھی قوم جاننے کے لیے انتظار کررہی ہے ۔

ایبٹ آباد آپریشن کے لئے اگر امریکہ فضائیہ ان کو کور فراہم کررہی تھی وہ ہیلی کاپٹر پہلے پاکستان میں کالا ڈھاکہ کے مقام پر پہنچے اور پھر ایبٹ آباد کے لیے روانہ ہوئے اور واپس بھی اس مقام سے گئے جہاں ری فیولنگ کا انتظام کیاگیا تھا ۔ اس مقام سے لیکر ایبٹ آباد آنے تک راستے میں درختوں کی چھٹائی کاکام دور روزقبل کس کے حکم پر کیا گیا تھا ۔

گویا اسامہ آپریشن میں پولیو قطرے والا شکیل آفریدی صرف ایک شخص نہیں تھا بلکہ اور بھی کئی شکیل آفریدی تھے جو اس پورے آپریشن میں سہولت کا رکاکردار ادا کررہے تھے دوسرا شکیل آفریدی تو حسین حقانی کی شکل میں شناخت کیا گیا ۔ اس کی اعجاز منصور کے ساتھ ہونے والی بات چیت کیاگیااور رابچوں کی تفصیلات بھی حاصل کی گئیں اور خود اعجاز منصور بھی کافی کچھ بول پڑا ۔

اگر جنرل پاشا نے اہم اور ٹھوس معاملات سے مکمل آگاہی حاصل کرنے کے بعد آصف زرداری کے سامنے سارے حقائق پیش کردایئے تھے اورانہیں اپنی شامت آتے دیکھ کر حسین حقانی کو پہلے تو پاکستان بلانا پڑاتھا اور پھر نواز شریف سے مدد مانگی پڑی تھی لیکن جب وہ بھی کالا کوٹ پہن کرسپریم کورٹ چلے گئے تو صورتحال یکسر بدل چکی تھی۔ حسین حقانی اور اعجاز منصور امریکی انتظامیہ کو پاکستان فوج پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرناچاہتے تھے کہ آصف زرداری اور پی پی حکومت کو خطرات سے بچایا جائے ۔

فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ سننے والے نواز شریف اس نازک مرحلے پر آصف زرداری کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور میمو گیٹ سیکنڈل کووہ خود سپریم کورٹ لیکر گئے ۔ یہ تاریخی واقعات اب تقاضہ کرتے ہیں کہ عوام کو سچ بتایا جائے ۔ سچ بھی آدھا نہ بولا جائے بلکہ پورا سچ بولا جائے ۔ یہ سچ کون بولے گا۔ اگر آفیشل سیکرٹریٹ ایکٹ ہی لگارہے گا تو پھر سچ کون بولے گا لیکن جب اعلیٰ ترین عوامنی سطح پر تحقیقاتی کمیشن بنائے جاتے ہیں اور ان کی فائنڈنگ تو عوام سے چھپایا کیوں جاتا ہے ، کیا یہ سارے کمیشن حقائق جاننے کے لیے بننے ہیں یا حقائق چھپانے کے لیے ؟ ابھی تک تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی باننے کا بنیاد مقصد حقائق عوام کے سامنے لانا نہیں بلکہ حقائق سے توجہ ہوٹانا مقصود ہوتا ہے ۔

جب تک کوئی معاملہ گرم ہوتا ہے اس پر بحث ہورہی ہوتی ہے سب کی توجہ اس مبذول ہوتی ہے اس پرلوگوں کو غصہ ہوتا ہے اس وقت تک کوشش کی جاتی ہے کہ ایک تحقیقاتی کمیشن بناکر معاملے کو ٹھنڈا کر دیا جائے اورجب معاملہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے یا اتنے میں کوئی دوسرا واقعہ عوامی توجہ حاصل کرلیتا ہے تو اس تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو بھی سرد خانے میں ڈا ل دیاجاتا ہے ۔


ہمارا ملک دولخت ہوگیا ۔ دشمن نے ہمیں دو ٹکڑے کردیا ۔ ہم نے محمود الرحمن کمیشن بنایا ۔ اس نے بہت محنت کرکے حقائق کو جمع کیا لیکن اس کی رپورٹ پر بھی تالے لگادئیے گئے اور وہ رپورٹ بھی دشمن کے میڈیا کے ذریعے منظر عام پرآئی ۔ خود سے ہمارے ارباب اختیار نے کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ حقانی کو سامنے لانے کا اہتمام کرتے ۔
کیا ہم اتنے کمزور اور بزدل ہوچکے ہیں کہ سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں ‘ خوف کھاتے ہیں اگر محمود الرحمن کمیشن یا ایبٹ آباد کمیشن ہماری غلطیوں ‘ کوتاہیوں ‘ کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہیں تو ہمیں ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسی غلطیاں پھر نہ دہرائی جائیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Hussain Haqqani Kis Ka Khel Khail Rahay Hain is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 March 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.