جے آئی ٹی کی ریفرنس بھیجنے کی سفارش

بین الاقوامی صحافتی تنظیم انٹرنیشنل کنسوریشم آف انوسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے پانامہ میں لوگوں کی خفیہ دولت کے حوالے سے 2016ء میں انکشاف کیا، اس حوالے سے ایسے پانامہ پیپرز لیکس کئے گئے جنہیں ایک ایسی انڈسٹری قرار دیا گیا جس کے ذریعے لوگوں نے اپنی خفیہ دولت آف شورز کمپنیوں کی صورت میں چھپا رکھی ہے

منگل 18 جولائی 2017

JIT Ki Refrence Bhejne Ki Sifarash
محمد صلاح الدین خان:
بین الاقوامی صحافتی تنظیم انٹرنیشنل کنسوریشم آف انوسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے پانامہ میں لوگوں کی خفیہ دولت کے حوالے سے 2016ء میں انکشاف کیا، اس حوالے سے ایسے پانامہ پیپرز لیکس کئے گئے جنہیں ایک ایسی انڈسٹری قرار دیا گیا جس کے ذریعے لوگوں نے اپنی خفیہ دولت آف شورز کمپنیوں کی صورت میں چھپا رکھی ہے۔

اس حوالے سے ہونے والے انکشافات کے نتیجہ میں پوری دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا جس کا اثر پاکستان پر بھی ہوا۔جس کی وجہ شریف فیملی سمیت 450افراد ایسے پائے گئے جن کا تعلق پاکستان سے تھا۔ آخرکار معاملہ سپریم کورٹ میں آگیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے دو اور تین کی اکثریت سے فیصلہ دے کر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی اہلیت کے معاملے کو تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ سے مشروط کردیا۔

(جاری ہے)

آخر 60دن کی تحقیقات کے بعد 10جولائی کو سپریم کورٹ آف کے تین رکنی خصوصی بنچ کے سامنے جے آئی ٹی کی جمع کروائی گئی حتمی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، حسن نواز ، حسین نواز، مریم نواز کے خلاف نیب آرڈیننس کے تحت ریفرنس بھیجا جائے ۔جے آئی ٹی نے اپنے تفصیلی تجزیہ میں مدعا علیہم میاں محمد نواز شریف ، حسین نواز شریف اور حسین نواز شریف، مریم نواز کے ظاہر کردہ اور معلوم ذرائع آمدن اور ان چاروں کے پاس موجود دولت میں ایک واضح تفاوت کی نشاندہی کی ہے۔

جے آئی ٹی نے اپنے اخذ کردہ نتائج میں لکھا ہے کہ مذکورہ بالامدعا علیہم کی پاکستان میں موجود کمپنیوں کا مالیاتی ڈھانچہ ان کے پاس موجود دولت کا ٹھوس جواز مہیا نہیں کرتا۔ جے آئی ٹی نے قرا ر دیا ہے کہ مدعا علیہم نے جو دولت ڈیکلیئر کی ہے اور اس کے حصول کے جو ذرائع بتائے گئے ہیں ان میں میں واضح تضاد موجود ہے۔ سعودی عرب میں قائم کمپنی ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ ، برطانیہ میں قائم کمپنی فلیگ شپ انوسٹمنٹ، یو اے ای میں قائم کمپنی کپیٹل ایف زیڈ ای سے تحائف اور قرضوں کی شکل میں بھاری رقوم کی میاں نواز شریف اور مدیا علیہ نمبر سات اور میاں نواز شریف کی پاکستان میں قائم کمپنیوں کو با قاعدہ طور پر ترسیل ہوتی رہی۔

جے آئی ٹی نے لکھا ہے کہ آف شور کمپنیوں کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ متعدد کمپنیاں نیسکول لیمٹیڈ، نیلسن انٹر پرائزز ، علینہ سروسز، لیمکان ایس اے، گومبرگروپ، ہلٹن نیشنل کی برطانیہ میں کاروبار سے تعلق کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ کمپنیاں برطانیہ میں قائم کمپنیوں کو فنڈز کے ”انفلوز“ کے لئے استعمال ہوئیں اور اس پیسے سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئیں۔

یہ فنڈ ز مدعلیہ کی برطانیہ، سعودیہ، یو اے ای، اور پاکستان میں قائم کمپنیوں میں آتے جاتے رہے۔ ان کمپنیوں کے ذریعے مدعا لیہ نمبر ایک یعنی نواز شریف اور مدعا علیہ نمبر سات نے قرضہ اور تحفہ کی شکل میں ان فنڈز کی مومنٹ ہوتی رہی اور وہ ان کے وصول کندگان بھی تھے۔ جے آئی ٹی کے روبرو اس کا مقصد اور وجہ کو ثابت نہیں کیا گیا۔ یوکے کی کمپنیاں نقصان کا شکار تھیں تاہم فنڈز کی بھاری مومنٹ کررہی تھیں اور اس سے ایک دھندلائی ہوئی تصویر پیش کی جارہی تھی کہ برطانیہ کی مہنگی جائیدادیں ان ہی کمپنیوں کے بزنس آپریشن سے حاصل کی گئی ہیں۔

جے آئی ٹی نے کہاکہ وہ احتساب آرڈیننس 1999 کی سیکشن 9(a-v) اور سیکشن 14(c)، کے تحت قابل گرفت ہے۔ جے آئی ٹی نے قانون شہادت کی مختلف شکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بارِ ثبوت مدعا علیہم پر تھا، جے آئی ٹی نے قرار دیاہے کہ مدعا علیہم معلوم آمدن کے ذرائع کی تصدیق کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جو بادی النظر میں ذرائع آمد ن اور اثاثوں کو جائز ثابت نہ کرنے کے مترادف ہے۔

دوماہ کے عرصے میں ٹیم کے 59 اجلاس منعقد ہوئے اور اس دوران اس نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف اور ان کے اہلخانہ سمیت 23 افراد سے تفتیش کی۔قطر کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے شہزادہ حمد بن جاسم کو دو مرتبہ ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے لیے بلایا تاہم انھوں نے پاکستان آ کر یا قطر میں پاکستانی سفارتخانے میں بیان دینے سے معذرت کی۔
تحقیقاتی عمل کے آغاز میں پاکستان مسلم لیگ کے رہنماوں کی جانب سے جہاں کارروائی میں تعاون کرنے کے بارے میں بیانات سامنے آتے رہے وہیں اختتامی ہفتوں میں ان بیانات کالب و لہجہ تلخ بھی ہوتا گیا۔

جبکہ پیپلزپارٹی جے آئی ٹی کو حکو متی ملی بھگت قرار دیتی رہی۔جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق ان کی تحقیقات کے دوران 28 افراد کو طلب کیا گیا جن میں طلبی کے باوجود 5گواہ پیش نہ ہوئے۔ان گواہوں میں عماد بن جاسم بن الجبار المشانی۔امریکی شہری شیخ سعید۔ اسحاق ڈار کی بیگم کے عزیز موسیٰ غنی۔ کاشف مسعود۔شیزی نیکول شامل ہیں۔ جے آئی ٹی کے خطو ط پر برطانوی اٹارنی جنرل اور یو اے ای نے جواب دیا۔

یو اے ای کی حکومت نے شریف فیملی کے گلف سٹیل کے 25فیصد شیئرز کی فروخت کرنے کی دستاویزات کی تصدیق نہیں کی یہ واحد دستاویز ہے جس کی بنیاد پر رسپانڈنٹ نے قطر میں سرمایہ کاری کی اور اس رقم پر مبنی ٹریل کے طور پر انحصار کیا۔ گلف سٹیل شریف فیملی کا بزنس تھا طارق شفیع اور محمد حسین بے نامی مالکان تھے جبکہ اصل مالک میاں محمد نواز شریف تھے۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے حوالے سے کہا گیا ہے لندن میں نیسکول اور نیلسن کمپنیوں کی بینی فیشر مالکہ ہیں انہوں نے جے آئی ٹی میں جو دستاویزات پیش کی وہ جعلی تھیں ، ان کی پیش کردہ منی ٹریل کا کوئی وجود نہیں دبئی اور پاکستان کے جن سرمائیوں سے مے فیئر فیلٹس کی خریداری کی بات کی گئی وہ جھوٹ پر مبنی ہے۔ رپورٹ میں رسپانڈنٹ نمبر چھ مریم نواز کے خلاف بھی نیب آرڈیننس 1999، سیکشن(a,v) 9اور سیکشن(c) 14 کے تحت احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کے لئے کہا گیاہے۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے صفحہ نمبر 230سے 234تک مریم نواز کے اثاثوں ، ٹیکس ، بینک ٹرانزیکشن ،ریکارڈ کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ مریم نواز کو ملنے والے تحائف سمیت ٹوٹل اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق 2010-11 میں ان کے اثاثے 102.93 ملین تھے۔2011-12 میں ان کے اثاثے 210.8 ملین تھے۔ 2012-13 میں ان کے پاس اثاثے 236.5ملین تھے۔ 2013-14میں ان کے اثاثے 347.6ملین تھے۔ 2014-15 میں ان کے اثاثے 654.32 ملین تھے جبکہ 2015-16 کے دوران ان کے اثاثے 830.73 ملین ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف کی پیشی کے موقع پر ان سے جے آئی ٹی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کی تفصیل منظر عام پر آگئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف 15 جون 2017ء کو جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوئے جہاں ان سے جے آئی ٹی نے 14 سوالات پوچھے۔ جے آئی ٹی کی جانب سے پوچھا گیا پہلا سوال یہ تھا کہ آپ نے تقاریر میں کہا کہ عزیزیہ گلف اسٹیل کا ریکارڈ دستیاب ہے لیکن آپ نے یہ ریکارڈ دیا نہیں؟ جس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ یقین نہیں شاید اسپیکر کو دیا ہو۔

وزیراعظم سے پوچھا گیا دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ میں اپنے بچوں کی طرف سے جمع کروایا گیا ریکارڈ دیکھا ہے؟ وزیراعظم نے جواب دیا کہ میں نے یہ ریکارڈ دیکھا نہیں لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ وہ ریکارڈ درست ہے۔جے آئی ٹی نے دریافت کیا کہ کیا آپ کوئی نئی دستاویز ساتھ لائے ہیں؟ جس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ ہمارے پاس جو کچھ تھا ہم وہ دے چکے ہیں۔

سوال نمبر 4 میں جے آئی ٹی نے پوچھا کہ آپ کو 1999ء میں ایون فیلڈ پراپرٹی کی اسٹیٹمنٹ سے متعلق کیا معلوم ہے؟ جس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نے اس سے متعلق سنا ہے لیکن مجھے معلوم نہیں ہے کہ یہ ٹرمز کیا تھیں۔جے آئی ٹی کے سوال نمبر 5 میں وزیر اعظم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے 2005ء میں فیملی سیٹلمنٹ کا حوالہ دیا؟ کیا گلف اسٹیل اور ایون فیلڈ کا معاملہ آپ کے زیر بحث آیا؟ اس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ جی ہاں! تب سے یہ میرے بیٹوں حسن اور حسین نواز کے پاس ہے۔

میرے خیال میں حسن نواز اس کے مالک ہیں لیکن مجھے پورا یقین نہیں ہے۔ جے آئی ٹی نے سوال کیا کہ حسین ان اپارٹمنٹس کی ملکیت ظاہر کرتے رہے ہیں مگر یہاں دہائیوں سے حسن نواز رہائش پذیر رہے، کیا یہ عجیب نہیں ہے؟ جس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ بھائیوں کے درمیان یہ غیر معمولی بات نہیں ہے۔ سوال نمبر7 میں پوچھا گیا کہ کیا حسین نواز اور مریم کے درمیان ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں آپ کو علم ہے؟ اس سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ میرے علم میں ٹرسٹ ڈیڈ کی کوئی بات نہیں ہے۔

جے آئی ٹی نے وزیر اعظم سے دریافت کیا کہ کیا آپ نیشنل بینک کے سعید احمد کو جانتے ہیں؟ کیا کبھی ان کے ساتھ کوئی کاروبار کیا؟ اس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ میں سعید احمد کو لمبے عرصے سے جانتا ہوں لیکن کوئی کاروبار نہیں کیا۔ سوال نمبر9 میں پوچھا گیا کہ کیا آپ قاضی خاندان کو جانتے ہیں؟ جس پر وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ جی میں انہیں نہیں جانتا،میں بہت سے لوگوں سے ملتا ہوں سب کو یاد نہیں رکھ سکتا ۔

جے آئی ٹی نے پوچھا کہ کیا آپ شفیع سعید کو جانتے ہیں؟وزیراعظم نے جواب دیا کہ جی لمبے عرصے سے جانتا ہوں لیکن ان کے ساتھ بھی کاروبار نہیں کیا۔سوال نمبر 11 میں پوچھا گیا کہ کیا سال 2002-2001 میں حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں رمضان اور چوہدری شوگر ملز سے قرض لے کر ادائیگی کی گئی؟ اس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کوئی قرض تھا، اس معاملے کا مجھے علم نہیں۔

جے آئی ٹی نے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی خاندان کے کسی فرد کو بیرون ملک رقم بھیجی؟ اس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ نہیں میں نے کبھی کسی خاندان کے فرد کو بیرون ملک رقم نہیں بھیجی۔ جے آئی ٹی کے سوال نمبر 13 میں وزیراعظم سے دریافت کیا گیا کہ ہل میٹل سے حاصل رقم کا کوئی حصہ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا؟ جس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں کیا، لیکن اگر میں نے ایسا کیا تو یہ جرم ہے۔

سوال نمبر14 میں جے آئی ٹی کی جانب سے پوچھا گیا کہ کیا یہ غیر ملکی فنڈنگ کا معاملہ نہیں؟ اور اس سوال کا وزیراعظم نواز شریف نے کوئی جواب نہیں دیا۔
جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ فلیٹس بیئررسرٹیفکیٹ کیسے ٹرانسفر کیے؟ وہ تقریروں میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر کرنے پر بھی مطمئن نہیں کرسکے۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر اپنے ہاتھ میں انکم ویلتھ ٹیکس ریٹرن لائے۔ انہوں نے 2003-2001 میں چوہدری شوگر مل کے اکاونٹ کے بارے نیب کو 110 ملین کی ادائیگی کا جواب بھی نہیں دیا۔جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق نواز شریف کے بیان کے کچھ حصے حقائق پر مبنی نہیں تھے۔ پاناما لیکس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے بیشتر سوالات کے اطمینان بخش جوابات نہیں دے سکے۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے وزیراعظم ٹال مٹول اور قیاس سے کام لیتے رہے اور ان کا رویہ عدم تعاون کا رہا۔پبلک کی جانے والی جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم نوازشریف کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔رپورٹ کے مطابق دوران انٹرویو نوازشریف زیادہ تر مائل بہ گریز اور خیالات میں محو رہے۔

ان کے بیان کا زیادہ تر حصہ سنی سنائی بات پر مبنی تھا۔وزیراعظم کے بیان پر تحقیقاتی ٹیم کے تجزیے میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف غیرواضح جوابات دے کر بیشتر سوالات کو رد کرتے رہے یا حقائق کو چھپانے کے لیے تفصیلات یاد نہ ہونے کا اظہار کرتے رہے ۔ جے آئی ٹی کو دیئے گئے بیان میں نواز شریف نے اپنی ابتدائی زندگی، سیاست میں آمد، اور تین دہائیوں پر مشتمل سیاسی کیریئر کے دوران اپنے عہدوں کی تفصیلات بتائیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی ملکیت میں موجود یا انہیں حاصل ہونے والے تمام اثاثہ جات انکم ٹیکس ریٹرنز اور مالی حسابات میں واضح ہیں۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس ریٹرنز اور مالی حسابات میں ظاہر کردہ اثاثہ جات کے علاوہ ان کی ملکیت میں کچھ اور موجود نہیں۔جے آئی ٹی کو ریکارڈ کروائے گئے اپنے بیان میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر وہ اپنے مرحوم والد کی جانب سے پاکستان میں قائم کردہ کمپنیوں کے شیئرہولڈر یا ڈائریکٹر تھے لیکن تقریباً تین دہائیوں سے میں ان میں سے کسی کمپنی کا ڈائریکٹر نہیں رہا اور 1985 کے بعد سے کسی بھی صورت میں ان کمپنیوں کے کاروبار میں فعال کردار ادا نہیں کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں 1981 میں وزیر خزانہ بنا، حالانکہ میں کچھ کمپنیوں کا ڈائریکٹر تھا لیکن 1981 کے بعد سے میں کوئی کاروبار نہیں سنبھال رہا۔ 1998 کے دوران میں نے خود کو کاروبار سے مکمل طور پر علیحدہ کر لیا۔ نواز شریف کا اپنے بیان میں یہ بھی کہنا تھا کہ کاروبار سے علیحدگی کا مطلب خود کو انتظامی امور سے الگ کرنا تھا نہ کہ کمپنی کے مالی مفادات سے، کیونکہ مالی مفادات سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد کیسے گزارا کیا جاسکتا ہے۔

لندن میں موجود جائدادوں کے حوالے سے وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ وہ 1989 اور نوے کی دہائی میں لندن گئے تھے تو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں قیام کیا تھا مجھے معلوم تھا کہ حسن اور حسین جو لندن میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، وہ ان اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر تھے۔ ان دونوں کے قیام کے تمام اخراجات اس رقم سے پورے ہوتے جو میرے والد انہیں بھجوایا کرتے۔

میں جانتا ہوں ہم رینٹ، سروس چارجز، اور دیگر سہولیات کے پیسے ادا کررہے تھے لیکن مجھے اس بات کا علم نہیں کہ ان فلیٹس کا کرایہ ادا کیا جارہا تھا یا نہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان معاملات کو حسین دیکھتا تھا اور وہ بہتر جانتا ہے، میں یہ جانتا ہوں کہ یہ انتظام شیخ الثانی اور میرے والد نے کیا تھا۔ تاہم مجھے یہ نہیں پتہ کہ بیئررسرٹیفکیٹس کس طرح منتقل ہوئے۔

وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی تقاریر میں جب یہ کہا تھا کہ وہ وقت آنے پر تفصیلات بتائیں گے تو ان کی مراد قطری فیملی اور اپنے والد کے درمیان ہونے والی سرمایہ کاری نہیں تھی۔آئینی و قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں اخلاقی طور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو عہدہ سے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ان کے استعفیٰ سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ، پانامہ لیکس کیس میں صادق و امین کے حوالے سے فیصلہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ اسے جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے تک محفوظ کرلیا گیا تھا ، تین رکنی خصوصی عمل درآمد بنچ نے فریق وکلاء سے جے آئی ٹی رپورٹ پر تحفظات طلب کئے ہیں ،جب عدالت خود تحفظات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کررہی ہے تو پھر میاں نواز شریف کی جانب سے جے آئی ٹی رپورٹ چیلنج کرنے کا جواز ختم ہوجاتاہے، وکلاء کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم سمیت پانامہ لیکس میں آنے والے دیگر ناموں کو ای سی ایل میں ڈال دیا جائے۔

جے آئی ٹی کی سفارشات کی روشنی میں سپریم کورٹ وزیراعظم میاں نواز شریف ، حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے یاضابطہ فوجداری کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دے سکتی ہے جبکہ دستیاب شواہد کے پیش نظر وزیر اعظم کی نااہلیت کا حکم بھی جاری کیا جاسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر رشید اے رضوی ، جنرل سیکرٹری آفتاب باجوہ ، سابق بار صدر کامران مرتضیٰ، سینئر آئینی ماہرین محمد صدیق خان بلوچ، عمران بلوچ، ذوالفقار احمد، چوہدری قمر نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

بار صدر رشید اے رضوی نے کہا کہ وزیر اعظم کو اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیکر رہی سہی عزت بچا لینی چاہئے، پوری دنیا کی نظریں پاکستان میں پانامہ کیس کے فیصلہ پر لگی ہوئی ہیں۔ جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کو انٹر نیشنل میڈیا سے خصوصی طور پر ہائی لائٹ کیا ہے۔وکلاء برادری نے عدالت عظمیٰ کے کسی بھی فیصلہ پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کروانا ہے۔ بار کے جنرل سیکرٹری آفتاب باجوہ نے کہا کہ وزیراعظم سمیت دیگر کے نام ای سی ایل میں ڈال دینے چاہیں ، ملک میں کرپشن کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

شریف فیملی کی منی لانڈرنگ ثابت ہوچکی ہے۔پانامہ کیس میں پانچ رکنی بنچ کے دو معزز ججز پہلے ہی نواز شریف کی نااہلیت بارے اپنا فیصلہ دے چکے ہیں۔ وزیراعظم اخلاقی طور پر اپنے عہدہ پر رہنے کا جواز کھو چکے ہیں اگر وہ استعفیٰ نہیں دیتے وکلاء برادری ان کے خلاف احتجاج کرے گی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پانامہ کیس میں ملوث دیگر 450 افراد کے خلاف پٹیشن عدالت عظمیٰ میں دائر کرے گی تاکہ آف شورز کمپنیوں کے ذریعے جمع کی گئی دولت واپس ملک میں لائی جاسکے۔

ان 450 افراد کے خلاف بھی جے آئی ٹی سے تحقیقات کروانے کی استدعا کی جائے گی۔ سابق بار صدر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ شریف فیملی جے آئی ٹی میں اپنے ملکی غیر ملکی اثاثوں کی منی ٹریل ثابت نہیں کرسکی ہے، عوامی عدالت بھی شریف فیملی کو مسترد کرچکی ہے۔ ایڈووکیٹ محمد صدیق خان بلوچ نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ سفارشی ہے عدالت اس پر عمل درآمد کی پابند نہیں مذکورہ تین رکنی بنچ ہی وزیراعظم کی نااہلیت کا حکم دے سکتا ہے جسکا جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کے فیصلہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ موجودہ تین رکنی بنچ کا ایک رکن بھی وزیراعظم کے خلاف نااہلیت کا فیصلہ دیتا ہے تو سابق دو ججز کے ساتھ مل کر فیصلہ کن ججز کی تعداد تین ہوجائے گی۔ عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا تین رکنی پانامہ بنچ نئی بنیادوں پر فریق وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دے گا ،جے آئی ٹی رپورٹ میں شریف فیملی کے خلاف دستیاب شواہد کی روشنی میں، احتساب عدالت یا ضابطہ فوجداری کے تحت ٹرائل کورٹ میں مقدمہ کے اندراج کی تجویز دی گئی ہے جسے رد اور منظور کرنا سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کا صوابدیدی اختیار ہے پانامہ کیس نئے دلائل کے ساتھ زیادہ طویل عرصہ تک نہیں چل سکے گا۔

ذوالفقار احمد اور چوہدری قمر ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزیراعظم کے عہدہ سے مستعفی ہونے کے بعد کوئی اور شخص وزیراعظم کے عہدہ پر آسکتا ہے یہ ان ڈور تبدیلی ہوگی جس سے جمہوریت کے تسلسل کو کوئی خطرہ نہیں۔ سپریم کورٹ میں جاری پانامہ لیکس کیس میں شریف فیملی کی جانب سے نئی چار رکنی وکلاء ٹیم پیش ہونے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق سینئر ایڈووکیٹ خواجہ حارث کی سربراہی میں نئی چار رکنی وکلاء ٹیم تیار کی گئی ہے جو جے آئی ٹی کی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کا دفاع کرے گی، جے آئی ٹی رپورٹ پر اٹھائے جانے والے اعتراضات پر مبنی اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروائے گی جبکہ نئے پوائنٹس کے حوالے آئینی و قانونی نکات پر مبنی فارمیشن تکمیل پانے کو ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ لیگل ٹیم میں ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی مگر انہوں نے انکار کردیا ہے، لیگل ٹیم میں ایڈووکیٹ مصطفیٰ رمدے، امجد پرویز جبکہ چوتھے ایڈووکیٹ کے نام کے لئے مشاورت کی جا رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

JIT Ki Refrence Bhejne Ki Sifarash is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.