جے آئی ٹی رپورٹ کی آڑ میں سکیورٹی اداروں پر تنقید

پانامہ ،آف شور کمپنیوں سے متعلق ”لیکس“ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس میں پاکستان کا کوئی ادارہ ملوث نہیں اور اس حقیقت سے بھی دنیا آگاہ ہے کہ ا ن لیکس کی بدولت بہت سے ملکوں کے سربراہان کو اپنی عوام کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح پاکستان سے شریف خاندان کے علاوہ بھی سینکڑوں پاکستانیوں کے نام مذکورہ لیکس میں سامنے آئے

جمعہ 21 جولائی 2017

JIT Report Ki Aar Main
خالد بیگ:
پانامہ ،آف شور کمپنیوں سے متعلق ”لیکس“ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس میں پاکستان کا کوئی ادارہ ملوث نہیں اور اس حقیقت سے بھی دنیا آگاہ ہے کہ ا ن لیکس کی بدولت بہت سے ملکوں کے سربراہان کو اپنی عوام کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح پاکستان سے شریف خاندان کے علاوہ بھی سینکڑوں پاکستانیوں کے نام مذکورہ لیکس میں سامنے آئے۔

بھارت میں حکمران طبقہ سے کسی کا نام شامل نہیں تھا تاہم بہت سی کاروباری و دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے نام سامنے آئے۔ پاکستان میں چونکہ شریف خاندان برسراقتدار ہے تو اس کی وجہ سے میڈیا کیلئے یہ ایک ”ہاٹ کیک“ ثابت ہوا۔ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی نے بھی اپنا رنگ جمایا تو اس کے بعد پانامہ‘ آف شور کمپنیوں کے مسئلے نے مستقل زیر بحث رہنے والے موضوع کی شکل اختیار کر لی۔

(جاری ہے)

ان لیکس کو منظر عام پر لانے والے انٹرنیشنل کنسورشیم انویسٹی گیشن جرنلسٹس(آئی سی آئی جے) سے منسلک وہ صحافی تھے جن کا تعلق مختلف ممالک سے ہے۔ پاکستان میں آف شور کمپنیوں کی لیکس میں پاکستانی میڈیا و عوام کی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ وزیراعظم پاکستان کے بڑے صاحبزادے کا بیرون ملک شریف خاندان کی املاک و کاروبار اور اربوں روپے مالیت کے فلیٹس سے متعلق دیا گیا انٹرویو بھی تھا جس کے نشر ہونے پر سب حیران تھے کہ وزیراعظم کے صاحبزادے کو بلاوجہ اس طرح کا انٹرویو دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی یہی انٹرویو بعد ازاں شریف خاندان کی پاکستان سے باہر جائیداد، بنک اکاوٴنٹس و کاروبار سے متعلق میڈیا میں بڑے پیمانے پر ہونیوالے بحث و مباحثے کی بنیاد بنا۔

اس میڈیا بحث کے دوران وزیراعظم کی صاحبزادی کا وہ بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے پاکستان اور پاکستان سے باہر اپنے نام پر کسی کاروباری کمپنی یا جائیداد کی ملکیت سے واشگاف الفاظ میں انکار کردیا۔ آف شور کمپنیوں کا پنڈورا باکس کھلا تو اندازہ ہوا کہ شریف خاندان اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ صحافیوں کا عالمی کنسورشیم دنیا بھر سے بڑے نامور افراد کے بے نامی کاروبار و جائیدادوں سے متعلق تفصیلات اکٹھی کرنے میں مصروف ہے جس کیخلاف پیش بندی کے طور پر وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے کے ایک نجی قومی ٹیلی ویڑن کے ٹاک شو میں خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا گیا تھا تاکہ قوم کو ویزراعظم کے بچوں کے بیرون ملک اثاثوں و کاروبار سے متعلق آگاہ کیا جا سکے تو پھر اس پورے معاملے میں پاکستان کے سکیورٹی ادارے کہاں سے آ گئے؟یا ان پر سازش کا الزام کس لئے؟ پاکستان میں 2008 کے بعد سے جمہوریت تسلسل کے ساتھ برقرار ہے۔

پہلے پیپلز پارٹی نے اقتدار کے پانچ برس پورے کئے اور اب ن لیگ اپنا دور اقتدار مکمل کرنے کو ہے۔ این آر او کے تحت ہی سہی جمہوریت کی بحالی کے بعد اگر ہماری سیاسی اشرافیہ نے جمہوریت کی روح کے مطابق عوامی مسائل کے حل اور احتساب کو حکمرانی کا بنیادی مقصد بنایا ہوتا تو شاید آج حکمرانوں کو تاج اچھالے جانے کا اندیشہ لاحق نہ ہوتا۔ کمزور جمہوری نظام کی وجہ ملک میں بار بار فوجی مداخلت کو قرار دیکر ہماری سیاسی اشرافیہ حکومتی بدانتظامی پر تنقید کرنیوالوں کا منہ تو بند کرتی رہی لیکن مسائل کی دلدل میں گردن تک گھرے ہوئے عوام کو مطمئن نہ کر سکی جو بیروزگاری ‘تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی ، انصاف کی عدم فراہمی ،بچوں کی تعلیم میں حائل نجی سکولوں کی ماہانہ فیسیں اور سب سے بڑھ کر عزت و مال کے تحفظ میں حکومتی ناکامیوں کی بدولت جھولیاں اٹھا کر حکمرانوں کو بددعائیں دینے پر مجبور تھے جبکہ حکمرانوں کے قربت داروں و اقتدار کی راہداریوں سے وابستہ افراد کی معاشی و معاشرتی زندگی میں آنے والا انقلاب انہیں عوام کے سامنے تھا۔

ایسے ہی غیر یقینی معجزات کو روکنے کیلئے ہی احتسابی عمل کو جمہوری نظام کا لازمی جز قرار دیا جاتا ہے جیسے لاگو کرنے کیلئے خلوص نیت کا ہونا ضروری ہے۔
اگست 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا۔ حضرت قائداعظم اور نواب لیاقت علی خان اورانکے رفقا جو جدی پشتی نواب تھے اور پاکستان کیلئے دو قومی نظریے کے تحت دیکھے گئے خواب کی تکمیل کیلئے انہوں نے ایمانداری و سادگی کو حکمرانی کا رہنما اصول بنایا تھا۔

انکے ساتھ آج کے سیاستانوں کو کیا ملانا جو سیاسی جماعتوں میں مورثیت کو جمہوریت اور غریب و مقروض ملک سے تعلق کے باوجود بادشاہوں جیسی بودوباش کو اپنا استحقاق قرار دیتے ہیں۔ احتساب پر عمل میں انہیں جمہوریت کا مستقبل تاریک دیکھائی دینے لگتا ہے یہی مورثی سیاست کا تاریک پہلو ہے کہ جب ایک ہی خاندان اپنی پوری سیاسی جماعت کا اس انداز سے مالک بن جاتا ہے کہ کوئی اپنے سربراہ سے اختلافات تو دور کی بات ہے اسکی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ سکے تو ایسی جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد برسراقتدار خاندان ریاستی اداروں کے ملازمین سے بھی پارٹی نمائندوں کی طرز پر وفاداری کی توقع کرنے لگتا ہے۔

انحراف پر نوکر شاہی سے ایسے کمزور افسران کو اہم ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں کہ وہ احسان مندرہے اور ہر حکم بجا لاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں نہ چاہتے ہوئے بھی برسر اقتدار خاندان کے اثاثہ جات میں اضافہ فطری عمل ہے کیونکہ احتساب کرنے والا کوئی نہیں ہوتا نہ ہی اخلاقی قدروں کی پرواہ رہتی ہے اور قانون غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے مودب کھڑا دکھائی دیتا ہے ورنہ جمہوری نظام تو نام ہی حکمرانوں کے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا ہے۔

اور یہاں پانامہ آف شور کمپنیوں پر بات بڑھی ہی اسی لئے کہ ریاستی اداروں کے سربراہان برسراقتدار خاندان کیخلاف تحقیقات کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ پارلیمنٹ اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہی تو معاملہ سڑکوں پر احتجاج کی شکل اختیار کر گیا۔ تحریک انصاف کے رجوع کرنے پر پہلے تو عدلیہ نے مقدمہ تکنیکی بنیادوں پر سننے سے انکار کردیا۔ سڑکوں پر احتجاج بڑھا تو وزیراعظم نے خود ہی عدالت عظمی کو خط لکھ کر اپنے احتساب کیلئے درخواست دے دی جو کہ ایک احسن اقدام تھا تاہم جب وزیراعظم اور انکے بچوں کے وکلاء عدلیہ کو شریف خاندان کے اثاثوں کی شفافیت سے متعلق مطمئن کرنے میں ناکام رہے تو عدالتی معزز بنچ کے تقسیم شدہ فیصلے پر جے آئی ٹی کے قیام کا فیصلہ ہوا جس پر حکمران خاندان اور انکی جماعت نے خوشیوں کے شادیانے بجائے لیکن ٹھیک دو ماہ بعد جے آئی ٹی کی طرف سے عدالت عظمی میں رپورٹ جمع کرائے جانے سے کچھ عرصہ قبل عدالت عظمی کے حکم پر قائم جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کا عمل شروع ہوگیا کیونکہ وہاں پیش ہونیوالے ان سے پوچھے گئے سوالات کی بدولت بھانپ چکے تھے کہ تحقیقات کرنے والے ایسے حقائق بھی تلاش کر چکے ہیں جن کاجھٹلایا جانا ان کے بس کی بات نہیں۔

رپورٹ پیش ہوئی تو اسکے پیچھے نام لئے بغیر فوج اور آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیاگیا کہ وہی رپورٹ کے اصل سکرپٹ رائٹر ہیں اور برسراقتدار خاندان کیخلاف سازش کی جا رہی ہے۔ کیونکہ جے آئی ٹی‘ عدالت عظمی کے حکم پر قائم ہوئی تھی۔ تحقیقاتی رپورٹ وہاں جمع ہو چکی۔ آئندہ کا لائحہ عمل و فیصلہ عدالت عظمی ہی نے کرنا ہے۔ اس میں کیسی سازش اور کون سی سازش خصوصاً ملک کے اہم سکیورٹی کے اداروں کا عدالت عظمی کے حکم پر کرائی گئی تحقیقات میں مدد کرنا دیگر ریاستی اداروں کی طرح آئینی فرض تھا جو انہوں نے ادا کیا۔

اسے سازش قرار دیکر فوج اور آئی ایس آئی کو ہدف تنقید بنانے والے وزراء یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مردم شماری، انتخابات ،حادثات و قدرتی آفات جیسے مسائل پر بھی خود کچھ کرنے کی بجائے وہ فوج کو آگے کرکے خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

JIT Report Ki Aar Main is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.